سائنسی ماہرین نے 20 برسوں پر محیط ایک طویل تحقیق کے بعد خطرے سے دوچار دریائے سندھ اور گنگا ندی کی ڈولفن کو دو الگ اقسام کی نسلوں کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں 1990 سے ڈولفن کی نسل کو کئی خطرات اور چینلجز کا سامنا رہا ہے لیکن میرین میمل سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دریائے سندھ اور گنگا ندی– برہماپوترا میں ان دونوں کی نسل کی بقا کے لیے ان کی نسل کی درجہ بندی ضروری ہے۔
سائنسی ماہرین کی جانب سے 20 برسوں کی اس تحقیق کے بعد ڈولفنز کی اقسام کی درجہ بندی کی گئی، اس منصوبے کی سربراہی کے فرائض یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز میں سی- میمل ریسرچ یونٹ کے ڈاکٹر گل براؤلک نے انجام دئے۔ڈاکٹر گل نےاس تحقیق کے لئے پاکستان اور بھارت سے ڈولفنز کے بارے میں معلومات جمع کیں، ان کی اس تحقیق میں ڈولفن کی پیمائش جانچنے کے لئے ان کی کھوپڑیوں کی تلاش بھی شامل تھی، یہ تحقیق بتاتی ہے کہ دونوں دریاؤں کی ڈولفن رنگ ،دانت اور کھوپڑی کےاشکال سمیت نمایاں جینیاتی فرق رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر براؤلک کہتے ہیں کہ "دونوں دریاؤں کی ڈولفنز کے فرق کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ دونوں اقسام کی یہ ڈولفنز اب صرف چند ہزار ہی باقی رہ گئی ہیں، ڈولفن ایک طویل عرصے سے دنیا کے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار سمندری حیات کہلاتی ہیں۔
ڈاکٹر براولک نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی اس تحقیق کےبعد ان ڈولفنز پر زیادہ توجہ دی جائے گی جس سے ان کی نسل کی معدومیت کو روکنے میں مدد ملے گی۔
اس تحقیق میں ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان، یونیورسٹی آف سینٹ اینڈریوز، امریکہ کی نیشنل اوشیانک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے ساؤتھ ویسٹ فشریز سائنس سنٹر، بھارت کی پٹنہ یونیورسٹی اور جنوبی ایشیاء کے دیگر محققین نے حصہ لیا۔
دریائے سندھ اور دریائے گنگا کی ڈولفن کوبلائنڈ ڈالفن کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قدرتی طور گدلے پانی کے دریاؤں میں بستی ہیں، برسوں یہاں رہنے سے وہ دیکھنےکی صلاحیت سے محروم ہوچکی ہیں۔
دریاؤں میں گھومنے پھرنے اور خوراک کےشکار کے لئے یہ ایک مخصوص انداز استعمال کرتی ہیں، دونوں اقسام حادثاتی طور پرماہی گیری کے جالوں میں پھنسنے سمیت ہائیڈرو پاور ڈیموں اور آبپاشی کے بیراجوں کی تعمیر اور ان کے آبی گزرگاہوں میں ہونے والی آبی آلودگی کی وجہ سے IUCN کی سرخ فہرست ( Red List) میں کئی خطرات سے دوچار ہیں۔
ڈاکٹر براؤلک کے مطابق”اس صدی میں دریائے یانگسی میں پائی جانے والی ڈالفنز کو زوال اور معدومیت کی واضح انتباہ تھی، ہمیں بشمول دریائے سندھ اور گنگا ندی سمیت ڈولفنز کی دیگر نسلوں کےتحفظ کے لئے فوری طورپر عملدرآمد کی ضرورت ہے کیونکہ دولفن کی تمام نسلوں کو کئی سنگین خطرات لاحق ہیں، ان ڈولفنز کا اہم ترین مسکن میٹھے پانی کے نظام کوبہتر بنانا اولین ترجیح ہونی چاہئے.”
ایشیائی ممالک بنگلہ دیش ، بھارت اور نیپال میں گنگا ندی میں ڈولفن کی آبادی کا تناسب تقریبا 3500 سے 4500 ہے لیکن اس میں مسلسل کمی ہورہی ہے۔ تاہم گزشتہ 20 برسوں میں انڈس ڈولفن کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سال 2001 میں انڈس ڈولفن کی تعداد 1،200 تھی جو 2017 میں اضافے کے بعد 1،900 سے زائد ہوگئی ہے، اس کے باوجود ان کا مسکن 80 فیصد کمی کا شکار ہوا اور انڈس ڈولفن کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انڈس ڈولفن کی تمام تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہیں جس کی ایک قلیل آبادی دریائے سندھ/انڈس سے جڑے بھارت کے دریائے بیاس میں بھی بستی ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کی کوآرڈینیٹر برائے ایشیا عظمیٰ خان کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں کئی برسوں سے اعلی حکام اور کمیونٹیز کے ساتھ مل کر انڈس ڈولفن کی نسل کےبچاؤ کیلئے کام جاری ہے اس سے ظاہر ہےکہ ڈولفنز کے تحفظ کے لئے متحد ہوکر جو بھی ممکن ہے وہ اقدام کئے جائیں، ڈولفنز کو اب بھی سنگین چیلنجز کا سامنا ہے مگر ہم ان کا تحفظ کرسکتے ہیں اور ان سے جڑی لاکھوں دیگر ایسی کئی آبی نسلوں کو بھی بچاسکتے ہیں جن پر یہ ڈولفن انحصار کرتی ہیں۔
محکمہ سندھ وائلڈ لائف کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر سندھ ادارہ برائے جنگلی حیات نے یہ خبر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے کہ ایک طویل مدتی تحقیق کے ثمرات سامنے آرہے ہیں۔
بشکریہ عوامی آواز