نو مئی کے الزام میں قید سیاسی کارکنوں کے گھر والوں پر ایک سال میں کیا گزری؟

ویب ڈیسک

ایک سال قبل نو مئی 2023 کو پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کی ایک شدید لہر اٹھی تھی، اس دوران دوران فوجی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا گیا

اس وقت کی حکومت، پنجاب پولیس اور پاکستانی فوج کے ترجمان نے ان واقعات کا ذمہ دار پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور قیادت کو ٹھہرایا تھا، تاہم پی ٹی آئی کی قیادت نے ان لزامات کو مسترد کرتے ہوئے اس معاملے کی تحقیق کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔

جمعرات کو پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ مسلح افواج پاکستان نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) اور مسلح افواج کے سربراہان کے ساتھ مل کر نو مئی 2023 (یوم سیاہ) پر مجرمانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کی ہے۔

بیان کے مطابق ’نو مئی کے سانحے کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور عمل درآمد کرنے والوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘

جبکہ ایک روز قبل عسکری قیادت نے ’نو مئی کے ذمہ داروں‘ سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا

اس حوالے سے بدھ کو پی ٹی آئی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان سے جب ایک انٹرویو میں سوال کیا کہ ’اگر پی ٹی آئی سے منسلک افراد اس (نو مئی 2023 کے واقعات) سے منسلک نکلتے ہیں تو کیا پی ٹی آئی معافی مانگے گی؟‘

اس پر اپوزیشن لیڈر نے جواب دیا ”۔۔۔آزاد کمیشن ہو۔ با اثر اور بے داغ لوگوں کا ہو۔ ان پر پریشر نہ ہو۔۔ یہ نہ ہو کہ رات کو ان کے سسرال والوں پر پریشر آ رہا ہو۔ ان کے گھروں میں فائر کریکرز یا گرینیڈ پھینکے جا رہے ہوں۔ ان کے بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہو۔ وہ کمیشن تو نہ ہوا۔ وہ تو پھر ایک پپٹ (پتلی) کمیشن ہوا۔۔ نہیں۔۔! ایک صحیح معنوں میں آزاد کمیشن ہو۔ بے داغ کیریکٹر کے لوگ ہوں۔۔ اور وہ وہاں پر بات چیت کریں تو پھر ہاں۔“

واضح رہے کہ ان واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں پی ٹی آئی کے خلاف تاریخی کریک ڈاؤن شروع کرتے ہوئے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 100 سے زائد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے اور بیشتر اب بھی ان کا سامنا کر رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے 86 ملزمان اب بھی فیصلے کے منتظر ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ دوہری مشکل میں ہیں۔

علی شان ان سینکڑوں افراد میں شامل ہیں، جنہیں گذشتہ سال نو مئی کو ہونے والے پر تشدد واقعات کے بعد لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں کی سلمیٰ (فرضی نام) ایک چھوٹی سے فیکٹری میں ملازمت کرنے پر مجبور ہیں کیوں کہ ان کے بڑے بھائی گذشتہ سال نو مئی کے بعد سے پابندِ سلاسل ہیں۔

سلمیٰ کے بھائی علی شان، جو پیشے کے اعتبار سے الیکٹریشن ہیں، خاندان کے واحد کفیل تھے، جن کی گرفتاری کے بعد گھر میں فاقوں کی نوبت آ گئی تھی۔

سلمیٰ بتاتی ہیں ”میرے والد فوت ہو چکے ہیں، علی شان سب سے بڑے بھائی ہیں اور ان سے چھوٹے بھائی ذہنی مسائل کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے، اس لیے اب مجھے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ میں بالکل پڑھی لکھی نہیں ہوں اور اس سے پہلے کبھی کام نہیں کیا تھا مگر ذرائع آمدن ختم ہو جانے کی وجہ سے مجھے مجبوراً فیکٹری میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔“

انہوں نے بتایا ”بھائی کی گرفتاری سے گھر کا نظام تباہ ہو گیا کیوں کہ بھائی گھر کے واحد کفیل تھے۔ ہمارے گھر کا کرایہ بھی پندرہ ہزار ہے۔ بہت مشکل سے ہم نے گزارا کیا۔ مالکِ مکان نے بھی مکان خالی کرنے کا کہا اور ساری ذمہ داری مجھ پر آ گئی، اس مہنگائی کے وقت انتہائی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔“

بہن کا کہنا تھا ”علی شان نو مئی کے چند دن بعد گرفتار ہوئے لیکن دو سے تین بعد پنجاب پولیس نے یہ کہہ کر انہیں چھوڑ دیا کہ ان کا اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ پولیس سے رہائی ملنے کے بعد وہ گھر چھوڑ کر چلے گئے اور ہمارا بھی ان سے رابطہ نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں پر ہیں اور کہاں گئے ہیں۔۔ انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے گئے اور نہ ملنے پر خاندان کے تیرہ افراد کو لے جا کر ایک کمرے میں رکھا گیا اور پھر میرے بھائی نے آ کر خود گرفتاری دے دی۔“

علی شان کی بہن نے بتایا ”پہلی بار رہائی کے بعد دوسری بار یکم اپریل 2023 کو ان کے بھائی کو گرفتار کیا گیا۔ بھائی کی گرفتاری کے بعد کئی ماہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہیں اور پھر پچھلے سال عید کی رات ایک کال آئی، جس کے بعد ہماری لاہور کینٹ میں ملاقات کروائی گئی۔“

نو مئی کے واقعات میں گرفتار چارٹرڈ اکاؤنٹینسی (سی اے) کے طالب علم علی رضا بھی ہیں، جو اپنے گھر میں سب سے بڑے بیٹے ہیں۔

ان کی بہن نے بتایا: ’میرے بھائی طالبِ علم تھے اور اپنے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے لاہور میں ہی ایک ہاسٹل شروع کر رکھا تھا اور ان کی گرفتاری کے بعد اب میں اسے چلا رہی ہوں۔‘

ان کے بقول علی رضا کی جناح ہاؤس کے باہر ایک تقریر وائرل ہوئی تھی مگر جناح ہاؤس کے اندر کی کوئی ویڈیو یا تصویر موجود نہیں ہے۔

علی رضا کی بہن نے بتایا کہ ان کے بھائی کو نو مئی کو ہی گرفتار کرلیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں مغل پورا تھانے میں رکھا گیا، اس کے بعد کیمپ جیل بھیج دیا گیا اور پھر اس کے پانچ سے چھ دن بعد انسداد دہشت گردی فورس نے انہیں فوج کی تحویل میں دے دیا۔

انہوں نے اس حوالے سے مزید بتایا: ’ہمیں دو سے ڈھائی ماہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا بھائی کہاں ہے؟ زندہ بھی ہے کہ نہیں؟ دو ڈھائی ماہ بعد عید الاضحیٰ پر ہماری ملاقات علی رضا سے کروائی گئی۔‘

علی رضا کی بہن کے بقول اب ہر ہفتے کال پر بات اور ملاقات بھی ہوتی ہے، مزید یہ کہ اب کھانا بھی لے جانے کی اجازت مل جاتی ہے۔

انہوں نے ملاقات کے حوالے سے بتایا: ’ہماری بھائی سے ملاقات ایک کمرے میں کروائی جاتی ہے اور وہاں لانے تک علی رضا کو ہتھکڑیاں بھی لگی ہوتی ہیں اور منہ پر کپڑا بھی ڈالا ہوتا ہے۔‘

علی رضا کی بہن نے دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی دوران قید دو سے تین مرتبہ بھوک ہڑتال بھی کر چکے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے مدد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا وکیل پرائیویٹ ہے۔ پی ٹی آئی نے نہ ہمیں وکیل فراہم کیا، بیرسٹر خدیجہ جیسے لوگوں نے آواز اٹھائی تو پھر پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان نے اس پر کچھ بات کی۔

نو مئی 2023 کو بانی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں مردان کے کارکن شازیب خان بھی شامل تھے، جنہیں گرفتاری کے بعد فوجی عدالت سے ایک سال کی سزا ہوئی۔شاہ زیب نے ایک انٹرویو میں قید میں گزرے اپنے دن اور پھر رہائی کا احوال سنایا۔
دوسری جانب مردان پولیس کے تفتیشی افسر انسپکٹر بشیر خان نے بتایا کہ نو مئی واقعات میں ملوث افراد کو ریکارڈ کی گئی مختلف ویڈیوز، سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے توڑ پھوڑ کرنے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف ایف آئی آر میں دہشت گردی اور اقدام قتل سمیت مختلف دفعات شامل کی گئی تھیں۔

انسپکٹر بشیر خان نے کسی بے گناہ شخص کو گرفتار کرنے کی تردید کی۔ انہوں نے جیل سے رہا ہونے والے پی ٹی آئی کارکن شازیب خان کے حوالے سے بتایا کہ اگر وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا تو پھر انہیں ایک سال کی سزا کیوں ہوئی؟

پولیس کے مطابق شاہ زیب خان کے خلاف فوج کے پاس ثبوت تھے۔

فوجی عدالت میں ٹرائل کیسے ہوتا ہے؟ اس حوالے سے نو مئی کے واقعات میں گرفتار ملزمان میں سے چار کا کیس لڑنے والی وکیل خدیجہ صدیقی نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں ہونے والی کارروائی دیگر عدالتوں سے کافی مختلف رہی۔

بیرسٹر خدیجہ نے بتایا کہ تمام کارروائی ایک بند کمرے میں ہوتی تھی جہاں صرف ایک وکیل کی اجازت ہوتی ہے، ساتھ میں نہ کسی معاون وکیل کو اجازت تھی نہ ہی ملزمان کے خاندان کے کسی فرد کو اجازت تھی۔

انہوں نے بتایا کہ وہاں لیفٹینیٹ کرنل اور میجر رینک کے افسران موجود ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ وہاں جیگ برانچ (پاکستانی فوج کا جج ایڈووکیٹ جنرل) کا بھی ایک رکن موجود ہوتا ہے مگر وہ پریکٹسنگ وکیل نہیں ہوتا۔

خدیجہ صدیقی کے مطابق بہت سے ملزمان کے وکیل نہیں ہیں اور انہیں جو وکیل فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی آرمی آفیسر ہی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا ’ملٹری کورٹس میں قانون کی پیروی نہیں کی جا رہی تھی۔ آئین کا آرٹیکل 175 کہتا ہے کہ ایگزیکٹو اور جوڈیشری الگ ہیں مگر یہاں پر ایگزیکٹو جوڈیشری کا کام کر رہی تھی۔‘

ملزمان پر کون کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بیرسٹر خدیجہ نے بتایا کہ تمام ملزمان پر ایک جیسی ہی دفعات اور الزامات ہیں۔

بقول بیرسٹر خدیجہ: ”ملزمان پر انٹری کے یا اپروچنگ کے الزامات ہیں۔ ان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سب سیکشن 3 لگا ہوا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 3 میں ترمیم کر کے عام شہریوں پر اس کا اطلاق کیا گیا۔“

خدیجہ صدیقی کے مطابق لاہور میں فوجی سماعت کا سامنا کرنے والے قید افراد کو ہر ہفتے گھر والوں سے بات کرنے اور ملاقات کرنے کی اجازت ہے مگر لاہور کے علاوہ دیگر شہروں میں قید افراد کے لیے یہ سہولت موجود نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 86 افراد ابھی قید ہیں اور سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو سزائیں سنانے سے منع کر رکھا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close