ملیر کے وہ خوبصورت نظارے، جن کو دیکھ کر دل میں ایک عجیب سے احساس کی کلیاں کِھل اٹھتی تھیں اور ان کی مہک سے جیسے سَر چَکرانے لگتا تھا، گَلا خُشک ہو جاتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے کہ محبوب پر پہلی نظر پڑی ہو یا ہم نے کُچھ زیادہ پی لی ہو ۔ لیکن شاید اب یہ نظارے تاریخ کا حصہ بننے جارہے ہیں ۔
مجھے یاد ہے، کہ جب ملیر میں مون سون، جسے ھم بلوچی میں "بَش ءِ ھَور” کہتے ہیں، کے موسم میں کسی دن زیادہ بارشیں ہوتی تھیں، تو ہم بارش کے فوراً بعد ملیر ندی کا رُخ کرتے تھے اور کھیر تھر کے سنگلاخ پہاڑی سلسلے سے بہہ کر آنے والے پانی کے پہلے ریلے کا انتظار کرتے تھے. اس انتظار کی کیفیت وہی ہوتی تھی، جو ایک عاشق اپنے محبوب کے انتظار میں محسوس کرتا ہے ۔ وہ دن اس سرزمین پر عید کے دن جیسا ہوتا تھا ۔ ھر چہرے پر دل کی خوشی مسکراہٹ بن کر بکھر جاتی تھی ۔ لوگ جوق در جوق فطرت کے ان خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لئے امڈ آتے تھے، جو انسان کو سکون اور راحت دیتے تھے ۔ لیکن بسا آرزو کہ خاک شد… ان نظاروں کو اب شاید کسی کی نظرِ بد لگ گئی ہے. میگا پروجیکٹس، زرعی زمینوں پر ھاؤسنگ پروجیکٹس اور زہریلا دھواں اگلتی فیکٹریاں ان نظاروں کو دن بہ دن ماند کر رہی ہیں ۔
جن ندیوں میں کبھی مٹیالے پانی کے ریلے بہتے تھے، اور اس پانی سے اٹھنے والی مٹی کی سوندھی خوشبو روح کو معطر کر دیتی تھی، وہاں آج فیکٹریوں اور شہری علاقوں کا کییمکل زدہ سیوریج بہہ رہا ہے، جس سے اٹھنے والے تعفن سے سانس تک گھٹ جاتی ہے.
وہ نظارے جو زندگی کے احساس کی مانند دل لبھانے تھے، اب وہاں سے ہر وقت بیماریاں پھیلنے کا خطرہ رہتا ہے ۔
انسان کی لالچ کے ہاتھوں تباہ حال فطرت، زبانِ حال سے دہائی دے کر ہمیں کہہ رہی ہے کہ اے لوگو! کیا تم سمجھتے ہو کہ فطرت کو تاراج کر کے تم لوگ کسی بلڈر کے پاس، کسی اسٹیٹ ایجنسی میں اپنا مستقبل محفوظ بنالو گے… مت بھولو کہ فطرت کی کوکھ اجاڑ کر بسائے گھر، قبر بن جایا کرتے ہیں….
جب یہ سب کچھ سوچتا ہوں، تو دل سے اک ہوک سی اٹھتی ہے… کاش کہ ہم جس طرح ان خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لئے اتاولے ہو کر نکلتے تھے، اگر ان کو بچانے کے لئے بھی ایسے ہی نکلتے، تو آج اتنی ویرانی نہیں ہوتی ۔
ہر سو ان منظروں کی پھیلی ہوئی ویرانی کے سناٹے، مجھے تو یہی کہتے سنائی دیتے ہیں..
اب منتظر رہو، کہ فطرت اپنا انتقام کبھی نہیں بھولتی!