”میگا پروجیکٹس: ترقی یا تباہی“ دستاویزی فلم کی اسکریننگ کی تقریب

نیوز ڈیسک

ماحولیات کے عالمی دن کے حوالے سے آرٹس کائونسل آف کراچی میں گرين ويلی پروڈکشن کی جانب سے ایک تقريب منعقد کی گئی

تقريب کے پہلے سیشن کا آغاز میزبان بالاچ بلوچ نے کیا، تقريب میں ماحوليات کے حوالے سے ”میگا پروجیکٹس، ترقی یا تباہی“ کے عنوان سے ایک ڈاکيومينٹری دکھائی گئی، جو گرین ویلی اور قندیل فلمز کی مشترکہ کاوشوں سے بنائی گئی تھی

تقریب میں ماحولیاتی کارکن، طالب علم، اساتذہ اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی

پروگرام کے دوسرے سیشن کے میزبان موڈريٹر امر گل تھے، جس میں شرکاء نے ماحولیات کے حوالے سے اپنے خيالات کا اظہار کیا

اس موقع پر دوسرے سیشن کا آغاز کرتے ہوئے امر گل کا کہنا تھا کہ ماحولیات کی تباہی کے بارے میں اس وقت ہمارا رویہ بھی بغداد کے ان باسیوں سے مختلف نہیں ہے، جو اس وقت بھی بے مقصد مباحث میں الجھے ہوئے تھے، جب منگولوں کا لشکر شہروں کو روندتا ہوا ان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جس طرح شیخ چلی اسی شاخ کو کاٹ رہا تھا، جس پر وہ بیٹھا تھا، ہم بھی اپنی ماحول دشمن سرگرمیوں سے کرّہِ ارض کو جہنم میں تبدیل کر رہے ہیں

”کراچی: سندھ جی مارئی“ سمیت بارہ سے زائد تحقیقی اور تاریخ کتابوں کے مصنف ، تاریخ دان اور سوشل ایکٹوسٹ گل حسن کلمتی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ملير ایک زرخیز، سرسبز اور شاداب علاقہ رہا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ڈکٹیٹر نے اسے ایک پاليسی کے تحت گرین بیلٹ قرار دیا لیکن بدقسمتی سے جمہوری حکمرانوں نے یہاں غیر قانونی طور پر اشرافیہ کے مفادات میں میگا ہائوسنگ اسکيمیں شروع کیں، جس سے یہ علاقہ اپنی شاداب پہچان کھو رہا ہے

گل حسن کلمتی کا کہنا تھا کہ ایک طرف سپريم کورٹ خود کہہ رہی ہے کہ بحریہ ٹاؤن کراچی غير قانونی ہے، دوسری جانب ریاستی اداروں کی سرپرستی میں گوٹھ مسمار اور زرعی زمینیں تباہ کی جا رہی ہیں، جس سے نہ صرف لوگ اپنے گھروں اور ذریعہ معاش سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ ماحولیات کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، جبکہ قدیم ورثہ تباہ کر کے ہم سے اپنی شناخت بھی چھینی جا رہی ہے

گل حسن کلمتی کا کہنا تھا ہمیں موثر قانون بنانا پڑے گا کہ جو خطہِ زمين زرعی پيداوار کے لیے مخصوص ہے، وہاں ہاؤسنگ اسکیمیں نہ بنائی جائیں بصورتِ دیگر مستقبل میں ہم تباہ کن ماحولیاتی اثرات کا تجربہ کریں گے

ماہر ماحولیات، قانون دان اور سماجی رہنما عبيرہ اشفاق نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس تباہی کو روکنے کے لیے اگلے قدم کے طور پر ماحوليات کے خلاف کام کرنے والوں کے خلاف عدالت میں مقدمہ کریں گے، جبکہ ماحولیات دشمن منصوبے ملیر ایکسپریس وے کو ہم پہلے ہی عدالت میں چیلنج کر چکے ہیں

انہوں نے کہا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ماحولیات کے بارے میں حساسیت رکھنے والا طبقہ بھی موجود ہے، جس کی ایک مثال وہ بھاری فیسیں لینے والے وکلاء ہیں، جو ماحوليات کے حوالے سے مقدمات کوئی فیس لیے بغیر لڑ رہے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک اجتماعی مسئلہ ہے

عبیرہ اشفاق کا کہنا تھا کہ ہمیں ماحول دشمن منصوبوں اور اقدامات کے خلاف عالمی اداروں سے بھی رابطہ کر کے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاکستان ماحولیات کے تحفظ کے عالمی معاہدوں پر دستخطی کی حیثیت سے اس بات کا پابند ہے کہ وہ ایسے منصوبوں کی روک تھام کرے جو ماحولیات کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ ہم ایسی کمیونٹیز کے درمیان ماحولیات کے بحران سے نمٹنے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں، جو اس کی وجہ سے زیادہ متاثر ہیں

ملیر سے تعلق رکھنے والے وائلڈ لائف فوٹوگرافر سلمان بلوچ نے میزبان امر گل کے ایک سوال پر بتایا کہ میں جب 2015ع میں وائلڈ لائف فوٹوگرافی کی فيلڈ میں آیا تو میں نے دیکھا جو فوٹوگرافر ملیر، کاٹھوڑ اور گڈاپ جاتے تھے، اب وہ وہاں کا رخ نہیں کرتے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ میگا رہائشی منصوبوں کے لیے ، پہاڑوں، درختوں اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی گئی اور نتیجے میں علاقے کی لگ بھگ نوے فیصد جنگلی حیات یہاں سے کُوچ کر چکی ہے

سلمان بلوچ نے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کو ماحولیاتی شعور دینے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ یہ بات جان سکیں کہ ہماری بقا جنگلی حیات کی بقا سے جُڑی ہوئی ہے

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے قدرتی حل میں ماحولیاتی نظام کا تحفظ، پائیدار انتظام، بحالی، انسانی فلاح و بہبود اور حیاتیاتی تنوع کو بھی فروغ دینا شامل ہے

کاٹھور سے تعلق رکھنے والی طالبہ تہمينہ ولی نے کہا کہ ہماری نسل نے اپنی آنکھوں کے سامنے میگا ہاؤسنگ پروجیٹکس کے نام پر اپنے فطری ماحول کو تباہ ہوتے دیکھا۔ ایک ایسے دور میں، جب کلائمیٹ چینج ایک چیلنج بنی ہوئی ہے اور درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے، ہم جنگلات تباہ کر کے اور کنکریٹ کے شہر بسا کر اس کی رفتار میں مزید اضافہ کر رہے ہیں

تہمینہ ولی نے کہا کہ یہ میگا پروجیکٹس ترقی نہیں بلکہ تباہی کے منصوبے ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی سميت دوسری هائوسنگ اسکیمز کی وجہ سے ہماری تعليم، ثقافت، ماحول ۽ دیگر کئی چیزیں متاثر ہوئی ہیں اور علاقے کا فطری نظام تباہ ہو رہا ہے، جس کے خلاف ایک موثر مزاحمت کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close