روبنسن کروسو (شاہکار ناول کا اردو ترجمہ) آٹھویں قسط

ڈینیل ڈیفو / ستار طاہر

ان دیکھی آفت

ہر روز کی طرح میں نے چوٹی پر چڑھ کر دور بین لگا کر سمندر کو دیکھا.. آج بھی کوئی جہاز دکھائی نہ دیا..

اس جزیرے میں رہتے ہوئے اب مجھے بیس برس ہو گئے تھے. ان بیس برسوں میں مجھے ایک بار بھی کوئی جہاز دکھائی نہ دیا تھا۔ میری آنکھیں کسی جہاز کے بادبانوں کو دیکھنے کے لئے ترس گئی تھیں۔ سمندر کی لہریں انہی چٹانوں سے ٹکرا کرلوٹ آتی تھیں، جن سے وہ جہاز ٹکرا کر پاش پاش ہوا تھا، جس پر سوار میں بیس برس پہلے ادھر آیا تھا۔ یہ چٹانیں تباہی کی وہ نشانی تھیں جو ہر روز میرا منہ چڑاتی تھیں۔

نا امید، مایوس، دل شکستہ میں اور کیبن… وہی کھانا، پتھر پر پکائی ہوئی روٹی، خشک انگور اور چشمے کا ٹھنڈا پانی اور پھر جزیرے پر آدم خوروں کے حملے کا خطرہ…

فرائیڈے مجھے بتا چکا تھا کہ جب تک اس قبیلے کا ایک شخص بھی زندہ ہے، وہ ہم سے انتقام لینے کے لئے جزیرے میں آتے ہی رہیں گے. گویا اب اس جزیرے میں ہماری زندگیوں کو ایک مستقل خطرہ لاحق ہوگیا تھا.

انسان بھی عجیب چیز ہے۔میری مایوسی اور نا امیدی خودبخود دور ہوگئی، کیونکہ ہماری زندگیوں کو خطرہ لاحق تھا اور اب میرے سامنے ایک مقصد بھی تھا کہ اپنی زندگیوں کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لئے مقصد نے میری مایوسی کو ختم کر دیا۔ میں نے جزیرے کا بھرپور جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور کیبن سے نکلتے وقت فرائیڈے سے کہا کہ وہ خشک انگوروں کو ان کے خوشوں سے توڑ کر لکڑی کے صندوق میں اچھی طرح بند کر دے۔

سمندر کے کنارے پہنچ کر اپنی کشتی کو سمندر کے پانیوں کے حوالے کرکے میں جزیرے کے ساتھ ساتھ کشتی کو کھینے لگا۔ یہ ایک خوبصورت دن تھا۔ دھوپ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ساحل پر کھڑے اونچے گھنے درخت اچھے لگ رہے تھے۔ نامعلوم پھولوں اور شگوفوں نے جو درختوں سے لگے ہوئے تھے، جزیرے میں خوشبو پھیلا دی تھی۔ سب کچھ بہت اچھا بہت خوبصورت اور بہت بھلا لگ رہا تھا۔ میں بہت آہستہ سے کشتی کھیتا جا رہا تھا۔

اچانک کشتی کو زبردست دھکا لگا…

کشتی گھوم گئی.. میں سمندر میں گرتے گرتے بچا.. میں اس ان دیکھی آفت پر ششدر رہ گیا.. ایسا کیوں اور کیسے ہوا تھا، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ نئی مصیبت کیسی تھی۔

میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور پھر اچانک میں نے ایک شارک مچھلی کا کچھ حصہ پانی کے اوپر نکلا ہوا دیکھا۔ اوہ میرے خدا..! تو یہ کارستانی اس خوفناک شارک مچھلی کی تھی.. اس سمندر میں، میں اس سے پہلے کئی شارک مچھلیاں دیکھ چکا تھا، لیکن بلاشبہ یہ شارک مچھلی ان سب سے بڑی تھی..

جہاں تک میرے علم میں تھا، عام شارک مچھلیاں کسی کشتی کو دیکھ کر خاموشی سے اس کے پاس سے گزر جانے کی عادی ہوتی ہیں، لیکن ایسی شارک مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جو آدم خور ہوتی ہیں اور ایسی شارک مچھلیاں ہی کشتیوں کو دھکا دیتی ہیں۔ یہ شارک مچھلی ایسی ہی آدم خور مچھلی تھی.

میں نے دیکھا وہ پلٹ رہی ہے، دوبارہ حملہ کر نے کے لئے.. اب تک میں بالکل سنبھل کر چوکس ہو چکا تھا۔ بندوق بارود سے بھری ہوئی تھی۔ میں اس کے سر کا نشانہ لینا چاہتا تھا۔ جونہی وہ کشتی کے قریب آئی اور اس کا سر پانی سے اوپر ابھرا، میں نے بندوق کا فائز کر دیا۔

وہ بڑی تیزی سے اچھلی اور پانی کے اندر غائب ہوگئی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ فائر نشانے پر لگنے سے وہ مر کر ڈوب گئی ہے

مگر ایسا نہیں ہوا تھا، میرا اندازہ غلط نکلا. وہ شدید زخمی ہوئی تھی اور غصے سے بھری شارک مچھلی نے کشتی کو زور سے ٹکر ماری..
کشتی اس ٹکر کو نہ سہہ سکی اور الٹ گئی!
میں سمندر کے پانی میں گر گیا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ شارک مچھلی اتنی شدید زخمی ہوئی تھی کہ وہ مجھ پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کر سکی۔ وہ سمندر میں نہ جانے کہاں غائب ہوگئی۔ میں سمندر میں تیرتا ہوا کشتی کے پاس گیا اور پھر اسے پانی پر کھینچتا ہوا کنارے تک لے آیا.

کشتی کو زور لگا کر بڑی مشکل سے سیدھا کیا۔ اتنی دیر میں فرائیڈے بھاگا بھاگا وہاں پہنچا. فائر کی آواز نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ کشتی پر شارک مچھلی نے حملہ کر دیا تھا، میں نے اس پر فائز کیا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر کشتی کو چٹان سے باندھ دیا۔

اپنے کیبن پہنچ کر میں نے پہلا کام یہ کیا کہ بندوق کو اچھی طرح صاف کیا۔ یہ بندوق ہمارا سب سے قیمتی ہتھیار تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس میں کوئی خرابی واقع ہو ۔اس لئے اس کی صفائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔

میرے پاس اب بارود صرف دو تھیلوں میں باقی رہ گیا تھا اور ابھی ہمیں آدم خوروں کے حملے کا ڈر تھا اور ان سے مقابلہ بھی کرنا تھا۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ اب بندوق کو کم سے کم استعمال میں لایا جائے م۔ بندوق کی جگہ آئند ہ ہم پستول اور تیر کمان سے کام لیں۔

ہم دونوں نے ایک درخت کو کلہاڑے سے کاٹا اور گرا دیا اور اس کی شاخوں سے تیر کمان بنانے لگے۔ میں اور فرائیڈے دو دن اس کام میں لگے رہے۔ یوں ہم نے ہزاروں تیر تیار کر لئے۔ میں نے ایسے تیز اور نوکیلے تیر بنائے تھے کہ ہاتھی کے جسم میں بھی آر پار ہو سکتے تھے۔ تیر کمانوں سے ہم جنگل میں اڑتی مرغابیاں اور دوسرے پرندوں کا شکار کرنے لگے۔کبھی کبھار کوئی جنگلی بکری بھی ہمارا شکار بن جاتی تھی۔

تین مہینے گزر گئے لیکن آدم خوروں نے جزیرے پر قدم رکھا اور نہ ہی ہم پر حملہ کیا۔ میراخیال تھا کہ وہ بندوق کے دھماکوں سے خوفزدہ ہوچکے ہیں، اس لئے اب کبھی اس طرف رخ نہیں کریں گے۔ مگر فرائیڈے کو اس سے اتفاق نہیں تھا۔ وہ کہتا، وہ ضرور آئیں گے، وہ ہمیں بھول نہیں سکتے۔

مایوسی

اور پھر ایک دن وہ واقعہ ہوا، جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا..

ہر روز کی طرح دل میں امید لئے، میں صبح کے وقت پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا دور بین سے سمندر کا جائزہ لے رہا تھا۔ میں نے جو کچھ دیکھا، اس پر مجھے فوری طور پر یقین نہ آیا۔ میں نے دوربین آنکھوں سے ہٹائی اور دونوں ہاتھوں سے آنکھیں مَل کر پھر دور بین لگا کر دیکھا۔ میری آنکھیں ایک سفید رنگ کے بھاپ سے چلنے والے جہاز کو دیکھ رہی تھیں، جو سمندر سے گزر رہا تھا۔ خوشی سے میرا دل سینہ پھاڑ کر گویا باہر آنے کو مچلنے لگا۔ دور بین ہٹا کر میں زور زور سے اچھل کر چیخنے چلانے لگا..
”مدد.. میری مدد کرو… مدد…“

میری چیخ و پکار سن کر فرائیڈے بھاگتا ہوا آیا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے جہاز دیکھا ہے. فوراً آگ جلا کر دھواں کر دو..

اس دن کے لئے میں نے برسوں سے خشک لکڑیوں کا ایک بڑا ذخیرہ کر رکھا تھا۔ ہم نے انہیں جلا کر دھواں کر دیا۔ میں نے اپنی بکری کی کھال کی بنی ہوئی جیکٹ اتاری اور زور زور سے اسے ہلانے اور لہرانے لگا۔ دھوئیں کے مرغولے اوپر ہوا میں اڑنے اور کھیلنے لگے. میر دل کہہ رہا تھا کہ اتنی مدت کے بعد اس طرف آنے والا جہاز اس دھوئیں کو ضرور دیکھے گا اور میری مدد کے لئے پہنچ جائے گا۔

مگر افسوس.. بدقسمتی کہ ایسا نہ ہوا..

میں نے دور بین لگائی. جہاز قر یب آنے کے بجائے دور ہوتا جا رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے جہاز پر موجود لوگوں نے اس طرف دیکھا ہی نہیں تھا. ورنہ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ انہیں دھوئیں کے بادل ہی دکھائی نہ دیتے۔ میں پھر اچھل اچھل کر، جیکٹ لہرا کر، چیخ چیخ کر جہاز والوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرنے لگا، لیکن جہاز دور… اور دور ہوتا جارہا تھا۔

میں نے پھر دور بین لگا کر دیکھا اور میر ا دل جیسے ڈوبنے لگا. جہاز سمندر میں دور ہوتا گیا.. نگاہوں سے دور اور پھر وہ نظر سے اوجھل ہو گیا..
میں بے اختیار رونے لگا۔
بائیس برس کے بعد دل میں آزادی کی امید پیدا ہوئی تھی، پورے بائیس برس…. لیکن وہ بھی دم توڑ گئی۔ میں تقدیر کو کوسنے لگا۔ جس نے مجھے اس جزیرے کا قیدی بنا دیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے میری تقدیر میں یہی لکھا ہے کہ میں اسی جزیرے پر قیدی بنا رہوں اور یہیں گمنامی کی موت مرجاؤں..

میں پہاڑی پر گھٹنوں میں سر دے کر بیٹھ گیا اور آنسو بہانے لگا، میں بچوں کی طرح رو رہا تھا..

فرائیڈے میری حالت پر اتنا دکھی ہوا کہ وہ بھی ایک طرف بیٹھ کر آنسو بہانے لگا۔ میرا کتا بھی کیبن سے بھاگتے ہوئے آیا۔ میری حالت دیکھ کر میری گردن پر پیار کرنے لگا۔ میرا طوطا بھی اڑتا ہوا آیا اور کندھے پر آکر بیٹھ گیا اور یوں ٹیں ٹیں کرنے لگا، جیسے مجھے حوصلہ دے رہا ہواور کہہ رہا ہو کہ میں ہمت نہ ہاروں، خدا سے مایوس نہ ہوں..

فرائیڈے اٹھ کر میرے پاس آیا.. میرے سر پر ہاتھ رکھا.. میں نے آنکھیں اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ رو رہا تھا اور بڑے جذباتی انداز میں کہہ رہا تھا۔
”ماسٹر… ماسٹر….“

میں نے اپنے کتے کو اداس دیکھا، طوطے کو سر جھکائے پایا.. یہ میرے ہمدرد تھے.. میں نے آستین سے آنسو پونچھے اور اٹھ کر پہاڑی سے چل دیا۔ وہ سب سر جھکائے میرے ساتھ چلنے لگے.

میرا دکھ بہت گہرا تھا. اتنے برسوں سے میں جس جہاز کو دیکھنے کے لئے دعائیں مانگتا اور ترستا رہا تھا۔ وہ جہاز دکھائی بھی دیا تو جہاز والوں نے میری طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی.. میری قسمت نے مجھے کیسا زخم لگایا تھا.. میں بوڑھا ہو رہا تھا اور اس جزیرے کا قیدی بن کر رہ گیا تھا..

خدا جانے ابھی کیسی کیسی مصیبتیں میری قسمت میں لکھی تھیں..

وہ رات میں نے بڑے کرب اور دکھ میں بسر کی.. آنسو آنکھوں میں آ جاتے تھے۔ اپنے والد کی یاد آتی تو دل بھر آتا۔ سوچتا، کیا وہ اب زندہ ہوگا۔ اگر زندہ بھی ہوگا تو بہت بوڑ ھا ہو گیا ہوگا.

کاش میں نے اس کی نصیحت پر عمل کیا ہوتا۔ میں رات بھر نہ سو سکا. نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بار بار سوچتا تھا کہ آخر مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے کہ جس کی اتنی سخت اور لمبی سزا مل رہی ہے.

صبح ہوئی اور میں معمول کے مطابق جزیرے میں گشت کے لئے بھی نہ گیا۔ کیبن میں ہی لیٹا رہا۔ فرائیڈے میری حالت پر بہت پریشان تھا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ وہ پریشان نہ ہو، کھیت میں جا کر کام کرے.

میں رات بھر جاگتا رہا تھا کسی لمحے میری آنکھ لگ گئی. جب آنکھ کھلی تو شام ہو رہی تھی. فرائیڈے آگ جلا کر اس پر بکری کے گوشت کے ٹکڑے بھون رہا تھا..

جاری ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close