وہ اپنے دوستوں میں سب سے تیز طرار مانا جاتا تھا، شرارتوں میں۔۔ جملے کسنے میں۔۔ خاص طور پر جب بات کسی لڑکی کی ہو۔۔
اس کی، کی ہوئی شرارتیں، اس کے کَسے ہوئے جملے اس کے دوستوں میں ضرب المثل بن جایا کرتے تھے۔
کبھی کبھی وہ خود بھی دل ہی دل سوچتا، ”واقعی۔۔۔ مجھ جیسا شرارتی یا طنزیہ جملے کسنے والا شخص ہزاروں میں کوئی ایک ہی ہوگا۔“
شبیر کہتا تھا ”جس لڑکی کے کرم پھوٹیں، وہی بدقسمت لڑکی معین کے سامنے آئے۔۔“
اس نے ایک بار کہا تھا، ”لڑکیاں ہری مرچیں ہوتی ہیں، کھاتے وقت منہ جلتا ہے، لیکن ہضم ہو جانے کے بعد ہزار فائدے۔۔۔“
اس بات پر سب کے قہقہے بلند ہوئے۔
اس دن کے بعد اس کے تمام دوست جب کسی لڑکی کا ذکر کرتے تو لڑکی کی جگہ ’ہری مرچ‘ کا لفظ استعمال کرنے لگے۔۔ کوئی کہتا کہ ”میں نے آج ہری مرچ دیکھی۔۔۔“
یا کوئی اگر یہ کہنا چاہتا، کہ فلاں کے گھر میں بہت سی لڑکیاں ہیں یا میں نے دیکھی ہیں، تو کہتا ”فلاں کے گھر میں بہت سی ہری مرچیں لگی ہوئی ہیں۔۔۔“
اور پھر دوستوں کے تبصرے شروع ہو جاتے۔
ایک دفعہ اسے ایک لڑکی کے چلنے کا انداز بہت بھایا، پھر تو وہ اٹھتے بیٹھتے اسے یاد کرتا اور کہتا، ”اس کا جسم ایسے ہل رہا تھا، جیسے نرم جیلی کسٹر۔۔۔“
شبیر کے ساتھ چلتے ہوئے اس نے ایک بار ایک لڑکی کو عینک پہنے دیکھا اور چلّایا، ”شبیر دیکھو تو۔۔۔ لڑکی کی ڈائن جیسی بڑی آنکھیں!“
لڑکی بھی بچاری کوئی بہت ہی سادہ سی تھی، اس نے جلدی سے اپنی عینک اتاری اور کہا، ”نہیں بھائی، وہ عینک کی وجہ سے ایسے دکھتی ہیں۔۔۔“
وہ دونوں زور سے قہقہے لگاتے وہاں سے چل دیے۔
ایک دن رضوان کو اداس دیکھ کر اس نے اداسی کی وجہ پوچھی۔ رضوان کافی دیر تک ٹالتا رہا، آخر کار اس نے سچ اگل دیا، ”ایک لڑکی ہے۔۔۔ لفٹ نہیں کراتی۔“
”پھر تم نے کچھ کوشش کی۔۔؟“ معین نے پوچھا۔
”ہاں۔۔۔ بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ بات ہی نہیں کرتی۔“
”کوئی خط وغیرہ؟“
”لکھ کر دیا تھا، لیکن نہیں لیتی۔۔ ڈرپوک ہے۔۔۔“
رضوان نے اتنی معصومیت سے ’ڈرپوک ہے‘ کہا کہ معین کی ہنسی چھوٹ گئی ”ڈرپوک ہے تو اور اچھا ہے۔۔ بہادر بن جائے گی۔۔“ اس نے رضوان کو تسلی دی۔
اگلے دن اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے اور کسی سے ادھار لی ہوئی ٹوپی پہنی، کالج کی چھٹی کے وقت اس نے رضوان کے ساتھ اس لڑکی کا تعاقب کیا، ایک گلی میں لڑکی اور اس کی دوست کے پیچھے چلتے ہوئے معین نے رعب دار آواز میں کہا، ”رضوان۔۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں پستول نکال کر تمہاری محبوبہ کو مار ڈالوں گا۔“
’’کیوں؟‘‘ رضوان نے منصوبے کے مطابق حیرت سے پوچھا۔
”اس لیے، کہ وہ تم سے پیار نہیں کرتی۔۔۔“ معین نے سخت لہجے میں کہا۔
"نہیں نہیں۔۔ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے، لیکن بس تھوڑا ڈرتی ہے۔۔۔“ رضوان نے کہا
”اچھا، اگر ایسا ہے تو اسے کل خط دے دو، نہ لے یا کسی اور کو بتائے، تو مجھے بتانا۔۔ میں اسے پستول سے ختم کر دوں گا۔“
لڑکیاں اس کی ایسی بات سن کر سہم گئیں اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے چل دیں اور یہ دونوں بھی ہنستے ہوئے واپس آگئے۔۔ اور واقعی رضوان کے لکھے ہوئے خط کو اس لڑکی نے قبول کر لیا، پھر رضوان معین کا تو جیسے مرید بن گیا۔
اس کے مریدوں کی تعداد مزید بڑھتی، لیکن اس سے پہلے وہ خود ہی کسی کا مرید بن گیا۔۔ وہ اس کی دور پار کی رشتہ دار تھی، جس کے حسن کے سامنے وہ خود بھی شہید ہو گیا تھا۔ اس نے گھر والوں کے سامنے صاف صاف کہہ دیا، ”میں شادی کروں گا تو صرف اسی سے، نہیں تو یقین کر لو، میں خودکشی کرلوں گا!“
اس کے دوست حیران رہ گئے کہ کیا وہ کسی لڑکی سے اتنا پیار کر سکتا ہے۔ کسی کو یقین نہ آیا لیکن اس نے اسی لڑکی سے منگنی کر لی اور چند ہی ماہ میں شادی بھی کر لی تو سب کو یقین ہو گیا۔
اس کے تمام دوست بہت خوش تھے۔ شادی کے دن، ہنسی مذاق کرتے ہوئے ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا؛
"مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اب تم ہمیں ٹائم نہیں دو گے۔۔ دکھ اس بات کا ہے کہ تمہارے بعد کوئی جملے بازی نہیں ہوا کرے گی۔۔۔“
یہ بات سب کے دل کو لگی۔۔ اس لمحے اس نے دل ہی دل میں محسوس کیا کہ واقعی میں شاید شادی کے بعد اس کی جملے بازی ختم ہو جائے گی۔۔
شادی کے بعد وہ آہستہ آہستہ اپنے دوستوں سے دور اور روز بروز مصروف ہوتا گیا۔ زندگی بظاہر تو سکون سے گزر رہی تھی لیکن جب شادی کے بعد کافی عرصے تک اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی تو وہ دل ہی دل میں منتیں ماننے لگا۔۔ آخر ڈاکٹروں سے ٹیسٹ کروائے گئے، رپورٹس کے مطابق میاں بیوی دونوں بالکل ٹھیک تھے۔ بس پھر پیروں فقیروں سے دعاؤں میں اضافہ ہو گیا۔۔ کافی عرصے کے بعد خدا ان پر مہربان ہوا اور آخر کار وہ لمحہ آ پہنچا، جب اسے اولاد کی خوشخبری سنائی گئی، ”چاند جیسی بیٹی پیدا ہوئی ہے۔۔۔“
بیٹی کی پیدائش کا سن کر وہ لمحہ بھر کے لیے اداس ہوا، بیٹے کی آرزو۔۔۔ بیٹا۔۔ جو اس کا بازو بنتا۔۔۔۔
لیکن یہ جذبات اور بیٹی کی پیدائش کا درد اس وقت ختم ہو گیا، جب چھوٹی بچی کو اس کی گود میں رکھا گیا۔ لڑکی ہو بہو اس کے جیسی تھی، وہی بڑی بڑی آنکھیں، بھورے بال، اسے لگا جیسے اس نے دوسرا جنم لیا ہو۔
’ابھی زندگی پڑی ہے۔۔۔‘ اس نے سوچا، ’جس اللہ نے یہ بیٹی دی ہے، بیٹا بھی دے گا۔۔۔‘
بس اس دن کے بعد جیسے اس کی زندگی اور بھی بدل گئی۔ ”میں اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بناؤں گا۔“ اس نے گھر پر اعلان کیا۔
اس دن سے اس نے زیادہ محنت اور اخراجات میں بچت شروع کر دی۔ اس نے انشورنس پالیسی لی اور وارث کے طور پر بیٹی کا نام دیا، اسے ایسا لگا جیسے اس نے اپنی بیٹی کے لیے دنیا کا خزانہ محفوظ کر لیا ہو۔
ان کے خاندان میں سالگرہ منانے کا رواج نہیں تھا، لیکن وہ جب انشورنس کی سالانہ قسط ادا کرتا تھا تو اسے اپنی بیٹی کی عمر کا اندازہ اور اپنی بڑھتی عمر کا احساس ہوتا تھا۔
بیٹی کے ڈاکٹر بننے میں باقی اتنے سال۔۔۔؟ وہ اندازہ لگاتا تھا۔ انشورنس کی قسط کی ادائیگی کے بعد ایک دن بیٹی نے کہا، ”بابا۔۔ اب کالج میں داخلہ لے دو۔“
اس نے خوشی اور حیرت سے اپنی بیٹی اور پھر اس دراز کی طرف دیکھا، جس میں انشورنس کی فائل رکھی تھی۔ اسے لگا کہ اس کی بیٹی کے ساتھ وہ فائیل بھی بڑی ہو گئی ہے
”میرا بچہ۔۔ میں تمہارے ساتھ چلوں گا اور تمہیں داخلہ لے دوں گا۔“ اس نے خوشی سے اپنی بیٹی سے کہا۔
اگلے دن کی صبح وہ اپنی بیٹی کے ساتھ باہر نکلا۔ وہ اپنی بیٹی سے مستقبل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مطمئن قدموں سے چل رہا تھا۔۔۔۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘ اس کے کانوں میں آواز آئی، لیکن اس نے صرف ایک لمحے کے لیے اپنی بیٹی سے بات کرنا روک دیا، پھر اپنی بات جاری رکھی۔۔ لیکن پیچھے پھر سے اونچی آواز میں کہا گیا، ”نہیں ایسا نہیں ہے۔۔۔“
”لگی شرط؟“
اس نے تھوڑا سا پیچھے مڑ کر دیکھا، دو نوجوان لڑکے آپس میں کچھ بحث کرتے ہوئے آ رہے تھے۔
اسے اپنی جوانی کا وقت یاد آیا۔۔۔ بے فکری۔۔۔ لا پرواہی۔۔۔ بات بات پر بحث۔۔ اور شرطیں۔۔۔
"ابو، چلیں۔۔۔“ اپنی بیٹی کی دھیمی آواز سے وہ چونکا اور آگے بڑھتے ہوئے دوبارہ اپنی بات جاری رکھنے کی کوشش کی۔۔ تبھی اس نے ایک نوجوان کی آواز سنی، جو اصرار کرتے ہوئے کہہ رہا تھا،
”تو لگی پھر شرط!“
”ٹھیک ہے!“ دوسرے نے کہا
اسی دوران وہ دونوں ان کے پاس سے گزرے۔
’’دیکھا غور سے؟‘‘ ایک نوجوان نے کہا۔
”ہاں یار۔۔۔ واقعی میں لڑکی نے شلوار میں ناڑے کی بجائے الاسٹک پہنی ہوئی ہے۔۔۔۔“
دونوں کے قہقہے گونجے۔۔۔
اسے لگا، جیسے یہ شرارتی جملے نہیں، بلکہ آگ کے گولے تھے، جو اس کے ماضی نے اس کے کانوں میں دے مارے تھے!