تیسرا کنارا (برازیلی ادب سے منتخب افسانہ)

جوآئو گائی ما رائس روزا (ترجمہ: محمد فیصل)

میرے والد ذمہ دار، منظم اور ہر کام سلیقے سے کرنے کے عادی تھے۔ اس بات کی تصدیق گرد و نواح کے کئی قابلِ اعتماد اشخاص نے کی کہ وہ بچپن ہی سے ان خصوصیات کے حامل تھے۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے، وہ نہ زیادہ ہنس مکھ تھے نہ بہت زیادہ رنجیدہ، وہ بس دیگر افراد کے مقابلے میں کم گَو تھے۔ ہمارے گھر میں ہماری والدہ کا سکّہ چلتا تھا۔ وہ ہم تینوں کو خوب کوستیں، بڑی بہن کو، مجھے اور چھوٹے بھائی کو۔۔

ایک دن ہمارے والد نے ایک کشتی بنانے والے کو ایک مضبوط کشتی بنانے کا کہا۔ وہ اس معاملے میں بڑے سنجیدہ تھے۔ انہوں نے کچھ ہدایات دیں: کشتی مضبوط لکڑی کی ہو، اتنی مضبوط کہ تیس سال تک چلے، اتنی جگہ ہو کہ ایک آدمی آرام سے اس میں گزارا کر سکے۔۔۔ والدہ نے انہیں بہت کریدا کہ کیا انہوں نے اچانک مچھیرا بننے کا فیصلہ کر لیا ہے؟ یا وہ شکار پر جا رہے ہیں؟ والد چپ رہے۔ دریا ہمارے گھر سے آدھ میل کے فاصلے پر تھا، گہرا، پُرسکون اور اتنا وسیع کہ اس کا دوسرا کنارا دیکھنا ناممکن تھا۔

میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا، جس دن ان کی کشتی تیار ہوئی۔ والد کا چہرہ سپاٹ اور بے تاثر رہا۔ انہوں نے خاموشی سے اپنا ہیٹ پہنا اور ہمیں خدا حافظ کہا۔ انہوں نے ساتھ کچھ لے جانے کی زحمت بھی نہ کی۔ ہمیں لگا کہ والدہ ان سے بات کریں گی، انہیں روکیں گی یا غصے میں آ کر ان پر چلائیں گی، مگر وہ صرف خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹتی رہیں۔ ان کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ انھوں نے بس اتنا کہا، ”اگر تم جارہے ہو تو جاؤ، واپس مت آنا۔“

والد نے کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ مجھے والدہ کا ڈر بھی تھا مگر میں ان کے ساتھ چلنے لگا۔ ہم دونوں دریا کی طرف روانہ ہوئے۔ مجھے ان کے ساتھ چلنا اچھا لگ رہا تھا۔

میں نے ان سے پوچھا، ”بابا! کیا آپ مجھے اپنے ساتھ لے کر جا سکتے ہیں؟“

انہوں نے اس بات کا بھی کوئی جواب نہ دیا، صرف میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے واپس جانے کا اشارہ کیا۔ میں واپس چل پڑا مگر جیسے ہی میرے والد مڑے، میں ایک جھاڑی کے پیچھے چھپ کر انہیں دیکھنے لگا۔ وہ اپنی کشتی میں بیٹھے اور اسے کھیتے آہستہ آہستہ کنارے سے دور ہوتے گئے۔ ان کا سایہ بالکل ایک گھڑیال کی طرح لگ رہا تھا، طویل اور بے آواز۔۔

میرے والد کبھی واپس نہیں آئے۔ وہ کہیں گئے بھی نہیں، بس دریا میں کشتی کھیتے رہے، کنارے سے دور آس پاس کے علاقے میں۔۔ ایسا نہ کبھی ہوا تھا نہ ہونے کی توقع تھی۔ ہمسائے، رشتے دار، دوست سب اس کی وجہ دریافت کرنے آئے۔ ہماری والدہ کے لیے یہ مرحلہ بڑا دشوار اور نازک تھا، تاہم انہوں نے خود پر قابو رکھا اور جو کچھ ہوا، اس کی تفصیل بتادی۔ آنے والوں کی اکثریت نے کبھی کھُل کر تو نہیں کہا مگر سب یہی سمجھے کہ میرے والد کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ البتہ کچھ احباب نے خیال ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے کوئی منت مانی ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہیں کوئی متعدی بیماری جیسے کوڑھ ہو اور وہ ہم سب سے دور رہ کر ہمیں اس سے بچانا چاہ رہے ہوں۔۔ اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے خاندان سے بہت محبت کرتے ہیں، لہٰذا آس پاس ہی گھوم رہے ہیں۔

دریا میں سفر کرنے والے اور دونوں کناروں کے قریب رہنے والوں نے بتایا کہ میرے والد نے کبھی کنارے پر قدم نہیں رکھا۔ وہ خامشی سے میکانکی انداز میں دریا میں اپنی کشتی پر گھومتے رہتے ہیں۔ والدہ اور رشتے داروں کا خیال تھا کہ شاید والد نے کشتی میں خوراک ذخیرہ کر رکھی ہے اور جب وہ ختم ہو جائے گی تو شاید وہ گھر آ جائیں یا کسی اور نزدیکی قصبے میں اُتریں۔ مگر انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ والدِ محترم کو خوراک مہیا کرنے والا میں تھا۔ میں روزانہ ان کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لے کر جاتا۔

ان کے جانے کے بعد پہلی رات ہم تینوں بہن بھائی دریا کنارے گئے، آگ سلگائی اور دیر تک ان کے لیے دعا کرتے رہے۔ میں بہت پریشان تھا، مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو میں اگلے دن دوپہر کے قریب ایک ڈبل روٹی، کچھ پھل اور گڑ لے کر دریا کنارے پہنچ گیا۔ بہت دیر نظریں جمائے بیٹھا رہا، پھر کہیں جا کر ان کی کشتی آہستگی سے دریا کی ہم وار سطح پر تیرتی نظر آئی۔ انہوں نے مجھے دیکھ لیا مگر نہ کسی قسم کا اشارہ کیا نہ کشتی کنارے کے قریب لائے۔ میں نے انہیں اپنی لائی چیزیں دکھائیں اور کنارے پر ایک کھوکھلی چٹان میں رکھ دیں، جہاں وہ جانوروں اور پانی سے محفوظ تھیں۔ میں ہر روز کچھ نہ کچھ چرا کر وہاں رکھ دیتا۔ مجھے بہت بعد میں پتا چلا کہ والدہ کو میرے یوں خوراک لے کر جانے کا علم تھا اور وہ جان بوجھ کر ایسی جگہوں پر کھانے کی اشیا رکھ دیتیں کہ میں انہیں بآسانی چرا لوں۔ وہ بڑی گہری خاتون تھیں، ہم انہیں کبھی سمجھ ہی نہ پائے۔

والدہ نے ہمارے ماموں کو ساتھ رہنے کے لیے بلا لیا۔ وہ کھیتی باڑی اور کاروباری معاملات دیکھنے لگے۔ ہمارے لئے گھر پر ہی ایک استاد کا بندوبست کر لیا۔ ایک دن والدہ نے ایک پادری کو دریا کنارے بھیجا، جو وہاں ایک روحانی عمل کرنے لگے، جس سے والد پر مسلط بدروحوں کا خاتمہ ہو جائے۔ کشتی آئی اور ایک مناسب فاصلے پر پہنچ کر رُک گئی۔ پادری زور سے چلّایا کہ تم واپس آجاؤ، اپنے بیوی بچوں کا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ کشتی دور ہوتی چلی گئی۔

ایک اور موقع پر والدہ صاحبہ نے دو فوجیوں کو معاوضہ پر دریا میں بھیجا کہ وہ والد صاحب کو ڈرا دھمکا کر واپس آنے پر مجبور کریں مگر بے سود۔۔ والد محترم اتنی دور چلے جاتے کہ بس ایک نقطہ نظر آتے۔ کوئی ان کے قریب نہ جا سکا۔ ان کی کہانی آہستہ آہستہ مشہور ہونے لگی اور ایک دن چند اخباری نمائندے ہمارے گھر آئے۔ ماموں اور والدہ نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔ اخبار والے والد کی تصویر لینے کے لیے دریا میں اُترے اور کئی دن کوشش کرتے رہے مگر والد دریا کے اس دلدلی حصے میں چلے گئے، جو انہیں ہاتھوں کی لکیروں کی طرح ازبر تھا۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہم اس زندگی کے عادی ہوتے گئے۔ مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں مگر ایک چیز سمجھ میں نہ آئی کہ ان میں اتنی سخت زندگی گزارنے کی برداشت کہاں سے آئی۔ کھلے آسمان تلے، سخت گرمی، خون جما دینے والی سردی، تیز بارش اور طغیانی میں صرف ایک ہیٹ اور چند کپڑوں کے ساتھ کس طرح ماہ بہ ماہ، سال بہ سال وہ کشتی کھیتے رہے۔ جو خوراک میں اس کھوہ میں رکھ چھوڑتا تھا، وہ اس میں سے بھی کم چیزیں لیتے۔ وہ واقعی صرف زندہ رہنے کے لیے کھاتے تھے۔کچھ عرصے بعد میں نے اس کھوہ میں موسم کی مناسبت سے کپڑے رکھنا بھی شروع کر دئیے۔ میں ان کے بارے میں بہت سوچتا، وہ سوتے کدھر ہوں گے؟ تیز بارش میں کس جگہ پناہ لیتے ہوں گے۔ شاید انہوں نے کوئی ویران جزیرہ ڈھونڈ لیا ہو، جہاں ان کے علاوہ کسی آدم زاد نے قدم نہ رکھے ہوں، وہاں پھل دار درخت ہوں، میٹھے پانی کے چشمے ہوں شاید۔۔۔

میرے والد نے پھر کبھی کسی ذی روح سے بات نہیں کی۔ ہم نے بظاہر ان کا ذکر کرنا چھوڑ دیا مگر وہ ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہوتے۔ کچھ عرصے بعد میری بہن کی شادی ہو گئی مگر ہم نے کسی کو دعوت نہ دی۔ انتہائی سادگی اور افسردگی سے یہ تقریب منعقد ہوئی۔ جب بھی سخت سردی، گرمی یا تیز بارش کا موسم آتا تو میں سوتے میں جاگ اٹھتا۔ میرے ذہن میں اپنے والد کی شبیہہ اُبھرتی، تنِ تنہا، ویرانی میں ایک کشتی اپنے بوڑھے بازوؤں سے کھیتے۔۔ میں پھر دوبارہ سو نہ پاتا۔ مجھے دیکھ کر اکثر احباب کہتے کہ میری شکل بالکل اپنے والد جیسی ہوتی جا رہی ہے، مگر میری نظروں میں ان کے کھچڑی سے بال اور کم زور شکل سامنے آتی۔ انہیں ہماری پروا نہیں تھی مگر میں ان کو ہر دم یاد کرتا رہتا۔ اگر کبھی کوئی میرے کسی کام کی تعریف کرتا تو میں فوراََ کہتا، ”یہ سب میرے والد کی تربیت کا اثر ہے۔“

پورے یقین سے یہ کہنا بھی دشوار تھا کہ انہیں ہماری پروا نہیں تھی۔ اگر انہیں ہماری پروا نہ ہوتی تو وہ کہیں چلے جاتے، کسی اور جگہ، دریا کے دوسرے کنارے پر۔۔ وہ کیوں ادھر گھومتے رہتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ ہم انہیں دیکھ لیں اور وہ ہمیں۔ اس سوال کا جواب بھی وہی دے سکتے تھے۔

میری بہن کے ہاں ایک بیٹے کی ولادت ہوئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ہمارے والد اپنے نواسے کو دیکھ لیں۔ ہم سب دریا کنارے پہنچے، بہت دیر انتظار کیا مگر والد نہ آئے۔ اس دن بہن بہت روئی۔ کچھ ہی عرصے بعد بہن اور بہنوئی دوسرے شہر منتقل ہو گئے۔ چھوٹا بھائی بھی ملازمت کے سلسلے میں ایک بڑے شہر چلا گیا۔ والدہ بہت بوڑھی ہو چکی تھیں اور تھوڑے عرصے میں وہ بھی بہن کے پاس چلی گئیں۔ اس گھر میں مَیں اکیلا رہ گیا۔ اب تو میرے بالوں میں بھی چاندی نمودار ہونا شروع ہو گئی تھی۔ میں وہاں اپنے والد کے لیے رک گیا تھا۔ مجھ پر ایک ذمہ داری تھی، مجھے اپنے والد کا خیال رکھنا تھا اگرچہ انہوں نے مجھے کبھی اپنے جانے کی وجہ نہیں بتائی تھی۔ میں نے اپنے والد کے قریبی ساتھیوں، دوستوں اور جاننے والوں سب سے پوچھا کہ وہ کیوں چلے گئے؟ صرف ایک دوست نے بتایا کہ انہوں نے اس کی وجہ اس کشتی بنانے والے کو بتائی تھی۔ میں اسے ڈھونڈنے نکلا مگر وہ یہ دنیا چھوڑ چکا تھا۔

تنہا رہ جانے کے بعد میری سوچوں کا محور صرف اپنے والد رہ گئے تھے۔ میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ وہ یہ زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے؟ کیا وہ کسی گناہ کا کفارہ ادا کر رہے تھے؟ میں اپنے بال نوچنے لگتا۔ ایک دن میں دریا کنارے اپنے والد کا انتظار کر رہا تھا کہ کئی مہینوں کے بعد ان کی کشتی نظر آئی۔ مجھے نہ جانے کیا سوجھی کہ میں زور زور سے رومال ہلانے لگا۔ کشتی تھوڑا اور نزدیک آ گئی۔ میں جیسے بے اختیار ہو کر چلّایا، ”بابا! آپ کو گئے بہت زمانہ ہوا، آپ ضعیف ہو چکے ہیں، آپ کو ایسے رہنے کی ضرورت نہیں، آپ واپس آ جائیں۔ آپ کی جگہ میں لینے کو تیار ہوں، یہ کشتی اب میں چلاؤں گا، میں آپ کی جگہ لوں گا۔۔“

انہوں نے میری آواز سن لی تھی۔ انہوں نے کشتی کنارے کی طرف کھینی شروع کر دی۔ انہوں نے میری پیش کش قبول کر لی تھی۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ میرے سارے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا، اس لمحے کا میں گویا صدیوں سے منتظر تھا، مگر اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ میں کیا کر بیٹھا ہوں، کیا میں اپنے بابا کی طرح یہ سختیاں اور جدائیاں جھیل پاؤں گا؟

میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور میں ایک دیوانگی کی سی حالت میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ مجھے اپنے والد کسی اور دنیا کی مخلوق لگ رہے تھے۔ مجھ پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو گیا اور اسی عالم میں مَیں شدید بیمار ہو گیا۔

اس دن کے بعد والد کو کسی نے نہیں دیکھا۔ مجھے اپنے آپ پر شرم آتی، میں کیا سوچتا تھا اور کیا کر بیٹھا؟ مجھے محسوس ہو چکا تھا کہ یہ احساسِ گناہ، پشیمانی اور خود پر غصہ جلد ہی میری جان لے لے گا۔ میری بس ایک خواہش تھی کہ جب میں مرنے لگوں تو مجھے ایک چھوٹی کشتی دے دی جائے۔ میں دریا کی بے انت وسعت میں اسے چلاتا رہوں، کبھی ایک کنارے سے دوسرے کی طرف، کبھی کسی ان دیکھے جزیرے کی تلاش میں۔۔ میں دریا کی وسعت میں کھو جاؤں، کسی تیسرے کنارے کی تلاش میں۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close