گناہ گار (روسی ادب سے منتخب افسانہ)

انتون چیخوف (ترجمہ: یعقوب شاہ غرشین)

ایک حکومتی اہل کار، جس کا نام میگوف تھا، اپنی شام کی سیر کے دوران ایک تار گھر کے قریب رکا اور ایک گہری آہ بھری۔ ایک ہفتہ قبل جب وہ شام کی سیر سے گھر لوٹ رہا تھا تو بالکل اسی جگہ پر اس کی سابقہ نوکرانی اگنیا نے اسے اچانک آ لیا تھا، اس نے نفرت بھرے لہجے میں اسے کہا تھا: ”ذرا ٹھہرو! میں تجھے ایسا سبق سکھاؤں گی کہ آئندہ تمہیں معصوم لڑکیوں کو برباد کرنے کی جرأت نہیں ہوگی۔ تم ساری زندگی مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے رہو گے، میں تمہارے ناجائز بچے کو تمہارے گھر کے دروازے پر چھوڑ دوں گی اور میں تمہارے خلاف قانونی چارہ جوئی کروں گی اور تمہاری بیوی کو بھی سب کچھ بتا دوں گی۔۔۔۔“

اس نے مطالبہ کیا کہ اسے بنک میں پانچ ہزار روبل اس کے نام پر رکھنے پڑیں گے۔ میگوف کو یہ باتیں یاد آئیں تو اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور ایک بار پھر دلی پچھتاوے کے ساتھ خود پر ملامت کی، عارضی لذت کی خاطر اس نے خود کو کتنے بڑے مخمصے اور ذہنی الجھاؤ میں ڈال لیا تھا۔۔

جب وہ اپنے بنگلے پہنچا تو چند لمحے سناٹے کی خاطر دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا۔ اس وقت رات کے دس بج رہے تھے اور چاند کا ذرا سا ٹکڑا بادلوں کی اوٹ سے جھانک رہا تھا۔ گلی میں اور بنگلوں کے قریب کسی ذی روح کا نام و نشان تک نہ تھا۔ گرمیوں کے سیلانی بوڑھے پہلے ہی بستروں میں سو چکے تھے اور نوجوان جنگل میں چکر لگا رہے تھے۔ اس نے سگریٹ لگانے کی غرض سے ماچس کی تلاش میں اپنے جیبوں کو ٹٹولا، میگوف کی کہنی کسی نرم شے سے جا ٹکرائی۔ اس نے یونہی اپنی داہنی کہنی کی طرف دیکھا اور اس کے چہرے کا رنگ یکدم فق ہو گیا۔ وہ اتنا دہشت زدہ ہوا، جیسے وہ اپنے قریب کوئی ناگ دیکھ چکا ہو۔ وہاں دروازے کی سیڑھیوں پر ایک گٹھڑی پڑی تھی، کوئی لمبوتری سی شے کسی چیز میں لپٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس نے اندازہ لگایا، وہ ایک لپٹی ہوئی رضائی تھی۔ گٹھڑی کا ایک سرا تھوڑا سا کھلا تھا۔ میگوف نے اس میں اپنا ہاتھ اندر داخل کیا تو کوئی نمدار اور گرم شے محسوس ہوئی۔ وہ خوف سے اُچھل پڑا اور اس کی طرف یوں دیکھا، جیسے کوئی مجرم داروغے سے بچنے کی کوشش کررہا ہو۔۔۔۔۔

”وہ بچہ چھوڑ چکی ہے!“ وہ اپنی مٹھیاں بھینچتے اور غصے سے دانت پیستے ہوئے بڑبڑایا، ”وہ یہاں پڑا ہے۔۔۔ یہاں میرے گناہوں کا ثمر پڑا ہے! اُف میرے خدا!“

خوف، غصے اور شرمندگی سے اس کا سارا جسم سن پڑگیا۔۔۔ اب وہ کیا کرے؟ اگر اس کی بیوی کو پتا چلا تو وہ کیا کہے گی؟ دفتر میں اس کے رفیقِ کار کیا کہیں گے؟ عزت مآب افسرِ اعلیٰ تو یقینی طور پر اس کی پسلیاں توڑ دے گا۔ وہ قہقہہ مارتے ہوئے کہے گا۔ ’میں مبارک باد دیتا ہوں۔۔۔ تم۔۔ تم۔۔ تم! اگرچہ تمہاری داڑھی میں چاندی اتر آئی ہے لیکن تم بہت رنگین مزاج ہو۔۔۔ میگوف! تم ایک بدقماش شخص ہو۔‘ موسم گرما کے سیلانیوں کی پوری کالونی اس کے راز کو جان جائے گی، اب! اور غالباً باعزت گھرانوں کی معزز خواتین اس پر اپنے دروازے بند کر دیں گی۔ ایسے واقعات ہمیشہ اخباروں کی زینت بنتے ہیں اور منکسر المزاج میگوف کا نام پورے روس کے اخباروں میں چَھپے گا۔۔۔۔۔

بنگلے کی وسطی کھڑکی کھلی تھی اور وہ اپنی بیوی انا کو رات کے کھانے کی میز لگاتے ہوئے سن سکتا تھا۔ گیٹ کے قریبی لان میں اس کا دربان یرمولائی تکونے رباب پر ایک دردناک راگ بجا رہا تھا، اگر کہیں بچہ جاگ جائے اور رونا شروع کر دے تو سارا بھید کھل جائے گا۔۔۔ میگوف کے دل میں جلدی سے کچھ کرنے کی شدید خواہش نے کروٹیں لینا شروع کر دیں۔

”عجلت اور پھرتی سے ۔۔۔“ وہ بڑبڑایا، ”اسی وقت، اس سے پہلے کہ کوئی اسے دیکھے، میں اسے اٹھا کر دور کہیں کسی اور گھر کے دروازے پر رکھ دوں گا۔۔۔۔“

میگوف نے ایک ہاتھ میں گٹھڑی اُٹھائی اور خاموشی سے کوئی شک و شبہ پیدا کیے بغیر دبے پاؤں گلی میں نکل گیا۔۔۔۔

حیرت انگیز طور پر ایک ناگوار حالت! اس نے اپنے منتشر خیالات کو مجتمع کرتے ہوئے اس نکتے پر غور کیا اور لا اُبالی انداز اختیار کرنے کی پوری کوشش کرنے لگا۔ ’ایک سرکاری اہل کار کا بچہ اٹھائے گلی میں جا رہا ہے۔۔۔ خدا کی پناہ! اگر کوئی مجھے دیکھ کر معاملہ بھانپ لیتا ہے تو میں برباد ہوجاؤں گا۔۔۔۔ یہ بہتر ہے کہ اسے اس دروازے کے پاس رکھو۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ٹھہرو، اس گھر کی کھڑکیاں کھلی ہیں اور شاید کوئی دیکھ رہا ہو، میں اسے کہاں رکھوں؟ اب سمجھا! میں اسے سوداگر مئیلکین کے ہاں لے جاؤں۔۔۔ سوداگر امیر اور رحم دل ہوتے ہیں، یہ بات یقینی ہے کہ وہ خدا کا شکر ادا کریں گے اور اسے گود لے لیں گے۔‘

میگوف نے دل ہی دل میں یہ بات طے کر لی کہ وہ بچے کو مئیلکین کے ہاں لے جائے گا، اگرچہ سوداگر کی کوٹھی بہت دور دریا کے کنارے واقع گلی میں تھی۔

’خدا کرے یہ گٹھڑی میں ہاتھ پاؤں مارنا یا زور سے رونا شروع نہ کردے۔‘ میگوف نے سوچا، ’یہ واقعی ایک خوشگوار اچنبھا ہے۔ میں نے اپنے بغل میں ایک انسان کو یوں اُٹھایا ہوا ہے جیسے یہ کوئی تھیلا ہو۔۔ ایک انسان، زندہ، ذی روح، اوروں کے مانند جذبات اور احساسات رکھنے والا۔۔۔۔ اگر خوش نصیبی سے مئیلکین اسے لے پالک بنا لیتا ہے تو ایک روز یہ کوئی نامور ہستی بن سکتا ہے۔۔۔ شاید یہ کوئی پروفیسر بنے، ایک عظیم جرنیل یا مصنف بنے۔۔۔ کچھ بھی بن سکتا ہے! اب میں اسے غلاظت کی گھٹڑی کی طرح اپنی بغل میں اُٹھائے پھر رہا ہوں اور تیس یا چالیس برس بعد شاید میں اس کے سامنے بیٹھنے کی جرأت بھی نہ کر سکوں۔۔۔۔‘

میگوف جب ایک تنگ اور سنسان گلی میں لائم کی درختوں کی گھنی اور تاریک چھاؤں میں ایک طویل باڑ کی قطار سے ہو کر گزر رہا تھا تو اچانک اسے اس خیال نے ستایا کہ وہ کوئی سخت ظالمانہ اور مجرمانہ فعل کرنے جا رہا ہے۔

’واقعی یہ بہت نیچ حرکت ہے!‘ اس نے سوچا، ’اتنی پست حرکت کہ کوئی اس سے بالاتر کمینگی کا تصور نہیں کر سکتا۔۔۔۔ میں اس مظلوم بچے کو در در کی ٹھوکریں کھانے کو کیوں چھوڑ رہا ہوں؟ اس کے پیدا ہونے کے عمل میں اس کا کیا قصور ہے۔ یہ ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ ہم بد ذات ہوتے ہیں۔۔۔ ہم اپنا لطف اُٹھاتے ہیں اور معصوم بچوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ صرف اس تمام تکلیف دہ معاملے پر غور کریں! خطا مجھ سے سرزد ہوئی ہے اور اس کی سزا بدنصیبی کی صورت میں اس بچے کو بھگتنا پڑ رہی ہے، اگر میں اسے مئیلکین کے در پر چھوڑ آتا ہوں۔ وہ اسے بن ماں باپ کے بچوں کے ہسپتال بھیجیں گے اور وہاں پر یہ پرائے لوگوں کے درمیان مشینی طریق کار کے مطابق پلے بڑھے گا۔۔۔ اسے کوئی محبت، کوئی لاڈ پیار اور کوئی پدری یا مادری شفقت نہیں ملے گی۔ وہ ایک بگڑا بچہ بنے گا۔۔۔۔ اور تب وہ کسی موچی کا چھوٹو بنے گا۔۔۔ وہ شرابی بنے گا، گندی زبان بولنا سیکھ جائے گا اور بھوک و افلاس میں جئے گا، کہاں ایک موچی! اور کہاں اعلیٰ خاندان کے ایک سرکاری اہل کار کا بیٹا۔۔۔۔ یہ میرا خون ہے۔۔۔۔‘

میگوف لائم کے درختوں کی چھاؤں سے کھلی سڑک کی روشن چاندنی میں نکل آیا اور گٹھڑی کو کھولنے لگا، اس نے بچے کو دیکھا۔

’سویا ہوا ہے۔۔۔‘ وہ بڑبڑایا، ’تم چھوٹے شرارتی! تمہاری طوطے جیسی ناک کیوں اپنے باپ کی طرح ہے۔۔۔ وہ سو رہا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا باپ اسے دیکھ رہا ہے۔۔۔۔ یہ ایک ڈرامہ ہے، میرے بچے۔۔۔۔ اچھا، تم مجھے ضرور معاف کرو گے، مجھے معاف کرو، مائی باپ۔۔۔۔۔ لگتا ہے کہ یہی تمہارا نصیب ہے۔۔۔۔‘

میگوف نے پلکیں جھپکائیں اور اپنے رخساروں میں کھچاوٹ سی محسوس کی۔۔۔۔ اس نے بچے کو لپیٹا، اسے بغل میں دبایا اور لمبے ڈگ بھرنے لگا۔ مئیلکین کی کوٹھی تک تمام راستے میں اس کے ذہن میں کئی سماجی سوالات اُٹھتے رہے اور ضمیر کی لعنت و ملامت سے اس کلیجا پھٹ رہا تھا۔

’اگر میں ایک مہذب اور ایماندار شخص ہوں۔‘ اس نے سوچا، ’تو مجھے ہر پیش آنے والے معاملے پر لعنت بھیجتے ہوئے اس بچے کو لے کر سیدھا اپنی بیوی انا کے پاس جانا چاہیے، میں اس کے قدموں میں اپنا سر رکھ کر کہوں گا، مجھے معاف کر دو! میں نے گناہ کیا ہے! مجھے اذیتیں دو لیکن ہم ایک بے گناہ بچے کو برباد ہونے نہیں دیں گے، ہمارے اپنے بچے نہیں ہیں، اسے گود لیں گے! وہ بہت پیاری ہے اور وہ راضی ہو جائے گی۔۔۔ اور تب میرا بچہ میرے پاس ہی رہے گا۔۔۔۔۔۔ اخ!‘

وہ مئیلیکن کی کوٹھی کے پاس پہنچا اور دیر تک متذبذب کھڑا رہا۔ اس نے تصور میں خود کو اپنے گھر کے مہمان خانے میں پایا، وہ بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہے، جب کہ طوطے جیسی ناک والا ایک چھوٹا بچہ اس کے شب خوابی کے لبادے کے پھندنے سے کھیل رہا ہے۔ اسی دوران پریشان کن تصورات خود بخود اس کے دماغ میں در آتے ہیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے اس کے رفیقِ کار اور اس کی پسلیوں پر گھونسے برساتا اس کا افسرِ اعلیٰ زوردار قہقہے لگا رہا تھا۔۔۔ ضمیر کی چبھن کے ساتھ اس کے دل میں محبت، ہمدردی اور افسردگی کا ملا جلا، نرم و گرم احساس کروٹیں لیتا ہے۔۔۔

میگوف بچے کو بہت احتیاط سے برآمدے کی سیڑھیوں پر رکھتا ہے اور اپنا ہاتھ الوداعی انداز میں ہلاتا ہے۔ وہ دوبارہ اپنے چہرے پر کھچاؤ کی دوڑتی لہروں کو محسوس کرتا ہے۔۔۔۔

وہ بڑبڑایا، ”مجھے معاف کرو، قدیم رفیق! میں ایک رذیل شخص ہوں، میری خطاکاری کو بھول جاؤ۔“

وہ پیچھے ہٹا لیکن فوراً پرعزم انداز سے اپنے گلے کو صاف کیا اور کہا: ”اوہ۔۔ جو ہو، سو ہو! میں سب پر لعنت بھیجتا ہوں! میں اسے اپنے گھر لے جاؤں گا اور لوگ جو چاہیں، انہیں کہنے دو!“

میگوف نے بچے کو اٹھایا اور تیزی سے لمبے ڈگ بھرتا ہوا واپس مڑا۔

’انہیں کہنے دو، وہ جو کچھ کہتے ہیں، ہرچہ بادا باد۔‘ اس نے سوچا، ’میں فوراً جاؤں گا، یہ کہہ کر اپنی بیوی کے قدموں میں گر جاؤں گا۔۔ انا! وہ بہت اچھی ہے، مان جائے گی۔۔۔ اور ہم اس کی تربیت کریں گے۔۔۔۔۔ اگر یہ لڑکا ہے تو ہم اسے ولادیمیر کے نام سے پکاریں گے اور اگر لڑکی ہوئی تو ہم اس کا نام انا رکھیں گے! بہرحال یہ بڑھاپے میں ہمارا سہارا بنے گا۔‘

اس نے جو مصمم ارادہ کیا تو اسے پورا کیا۔ شرمندگی، خوف، رجا اور شک کے ملے جلے احساس کے ساتھ اس پر نیم غشی سی طاری تھی۔ وہ سسکتا ہوا گھر پہنچا، بیوی کے پاس گیا اور اس کے قدموں میں گرپڑا۔

”انا!“ اس نے سسکی بھرتے ہوئے کہا اور بچے کو فرش پر لٹا دیا، ”کوئی بھی سزا دینے سے پہلے میری بات سنو۔۔۔۔ میں نے گناہ کیا ہے! یہ میرا بچہ ہے۔۔۔۔ تمہیں اگنیا یاد ہے؟ خوب، یہ شیطان اس نے جنا ہے۔۔۔۔۔“

وہ ندامت اور دہشت سے غش کھانے ہی والا تھا۔ تبھی اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس نے چھلانگ لگائی اور باہر کی طرف یوں دوڑا، جیسے کوئی اس کی خوب پٹائی کر چکا ہو۔۔۔۔

’میں اس وقت تک یہاں باہر ٹھہروں گا، جب تک وہ مجھے نہیں بلاتی۔‘ اس نے سوچا، ’میں اسے اپنے حواس بحال کرنے اور اس معاملے پر خوب غور کرنے کے لیے وقت دوں گا۔۔۔۔‘

دربان یرمولائی اپنا تکونا رباب اٹھائے، اس کے پاس سے گزرا۔ اس پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور اپنے کندھے اچکائے، ایک منٹ بعد وہ دوبارہ گزرا اور پھر اپنے کندھے اچکائے۔ ”یہاں کبھی ایسا ہوا ہے! آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا!“ اس نے کھیس نکالتے ہوئے دھیرے سے کہا، ”دھوبن اکساہنیا ذرا دیر پہلے یہاں آئی تھی، اس بے وقوف عورت نے یہاں سیڑھیوں پر اپنا بچہ لٹایا تھا اور وہ اس دوران میرے ساتھ اندر رہی، کسی نے اس کا بچہ اُٹھایا اور لے گیا۔۔۔ ایسی حرکت کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔“

”کیا!؟ تم کہا کہہ رہے ہو؟“ میگوف بلند آواز میں چلّایا۔

یرمولائی، جو اپنے آقا کے قہر و غضب کی اپنے ہی حوالے سے مراد لے رہا تھا، اس نے اپنا سر کھجایا اور آہ بھری، ”حضور! میں معافی کا خواستگار ہوں۔“ اس نے کہا، ”یہ گرمیوں کی چھٹیاں ہیں۔۔۔۔ کوئی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔۔ میرا مطلب ہے، ایک عورت کے بغیر۔۔۔۔“

اس نے اپنے آقا کی خشمگین آنکھوں پر سرسری نگاہ ڈالی جو اسے سخت غصے اور اچھنبے سے گھور رہی تھیں۔ اس نے احساسِ ندامت سے اپنا گلا صاف کیا اور مزید کہا: ”بلاشبہ یہ ایک گناہ ہے لیکن اس کے علاوہ۔۔۔۔ ہم کیا کریں۔۔۔؟ آپ نے ہمیں کسی پرائے کو گھر میں لانے سے منع کیا ہے، میں سمجھتا ہوں لیکن اب ہمارا اپنا کوئی بھی نہیں ہے۔ جب اگنیا یہاں پر تھی، تب میرے پاس کوئی عورت نہیں آتی تھی۔۔ کیوں کہ وہ گھر میں موجود تھی لیکن اب جناب! آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔ غیروں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اگنیا کے وقت میں، یقیناً کوئی بے ترتیبی نہیں تھی، اس لیے کہ ۔۔۔۔۔“

”دفع ہو جاؤ، بدذات!“ میگوف نے غصے سے زمین پر زور زور سے پاؤں مارتے ہوئے اسے ڈانٹا اور واپس کمرے میں داخل ہوا۔

انا پہلے کی طرح متحیّر اور غضب ناک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی اشک آلود آنکھیں بچے پر جمی تھیں۔۔۔۔۔

"اے! اے!“ میگوف نے زرد چہرے کے ساتھ اپنے ہونٹوں میں ہنسی دباتے ہوئے دھیرے سے کہا، ”یہ ایک مذاق تھا۔۔۔۔ یہ میرا بچہ نہیں ہے۔۔۔۔ یہ دھوبن کا بچہ ہے۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اسے دربان کے حوالے کر دو۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close