اپریل کی ایک خوب صورت صبح ٹوکیو کے سب سے فیشن ایبل علاقے ہاروجوکو سے گزرتے ہوئے میں نے وہ لڑکی دیکھی جو سو فی صد میرے خوابوں کے جیسی تھی۔
سچ کہوں تو وہ اتنی حسین دکھنے والی نہیں ہے۔ وہ کسی بھی طرح دوسروں سے الگ نہیں دکھتی۔ اس کے کپڑے بھی کچھ ایسے خاص نہیں ہیں۔ سر کی پچھلی طرف اس کے بال ایسے مڑے ہوئے ہیں جیسے ابھی سو کر اٹھی ہو۔ وہ اتنی کم عمر بھی نہیں ہے، کم از کم تیس کے قریب ضرور ہوگی۔ تو کُل کلا کر کچھ ایسی خاص لڑکی بھی نہیں ہے۔۔ لیکن میں، پچاس گز دور سے دیکھ کر ہی یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہ لڑکی ہے، جو سو فی صد میرے لیے ہی بنی ہے۔ جب میں نے اسے دیکھا تو میرے سینے سے ایک لمبی سانس نکلی اور میرا منہ خشک تھا۔
کسی لڑکی کی خوب صورتی کے لیے ہو سکتا ہے آپ کا معیار کچھ اور ہو۔ جیسے اس کے پاؤں نازک ہونے چاہئیں، یا، کہہ لیجئے کہ اس کی آنکھیں بڑی ہوں، یا پتلی انگلیاں اور یا آپ بغیر کسی خاص وجہ کے، صرف ایسی لڑکیوں میں کشش محسوس کرتے ہوں، جو ہر کھانے کے ساتھ مکمل انصاف کرتی ہیں۔ اچھا، اب ظاہر ہے میری کچھ اپنی ترجیحات ہیں۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوگا کہ میں صرف ایک خوب صورت ناک کے چکر میں سالم لڑکی کو گھورتا ہوا پایا جاؤں گا۔۔
لیکن اب کون کہہ سکتا ہے کہ کسی شخص کے معیار کے سو فی صد مطابق پائی جانے والی لڑکی اس سے بالکل ویسے ہی بات چیت کرے، جیسے وہ پہلے سے طے کیے بیٹھا ہے۔ کیوں کہ عموماً میری توجہ ہر طرح کی ناک کی بناوٹ پر ہی ہوتی ہے، اس لیے میں صحیح طور سے جسمانی نشیب و فراز پر کچھ روشنی نہیں ڈال سکتا۔ اس کا جسم تھا بھی یا نہیں۔ ہاں، جہاں تک یاد پڑتا ہے، وہ کچھ خاص خوب صورت نہیں تھی۔
”کل سرِراہ میں نے ایک ایسی لڑکی دیکھی جو سو فی صد میرے خوابوں کے جیسی تھی۔“ میں نے کسی سے کہا۔
”ہیں،“ وہ بولا، ”کیا وہ خوب صورت تھی؟“
”نہیں ، اب ایسا بھی نہیں۔“
”تو پھر تمہاری کچھ خاص پسند کا معاملہ تھا؟“
”میں کچھ کہہ نہیں سکتا، بس یوں لگتا ہے جیسے مجھے اس کے بارے میں کچھ بھی یاد نہ ہو۔ جیسے اس کی آنکھیں کیسی تھیں، یا اس کے حسین جسمانی اُبھار کیا تھے۔“
”حد ہے!“
”ہاں، ہے تو عجیب ہی۔“
اب وہ بوریت سے کہنے لگا، ”چلو پھر بھی، تم نے کیا کیا؟ بات کی؟ اس کے پیچھےگئے؟“
”نہیں، بس گلی میں یوں ہی اس کے پاس سے گزرا تھا۔“
وہ مغرب کی سمت جارہی ہے اور میں اس سمت سے آ رہا ہوں۔ اپریل کی یہ صبح واقعی حسین ہے۔
کاش میں اس سے بات کر سکتا۔ آدھ گھنٹہ ہی کافی ہوتا۔ کرنا ہی کیا تھا، کچھ اس کے بارے میں پوچھتا، کچھ اپنا بتاتا۔ بہت کہہ پاتا تو اسے یہ بتاتا کہ قسمت کی ستم ظریفی کیسے اپریل 1981ء کی ایک خوب صورت صبح ہارا جوکو میں ہمیں سرِراہ ایسے پاس سے گزار دیتی ہے۔ اس معاملے میں یقیناً کئی راز چھپے تھے۔ عین وہی سکون اس واقعے سے پہلے تھا، جیسا دنیا میں گھڑی ایجاد سے پہلے ہوتا ہوگا۔ یوں ہی سا معاملہ تھا یہ سب۔۔
بات کرنے کے بعد ہم کہیں کھانا کھالیتے یا وڈی ایلن کی دلچسپ سی کوئی فلم دیکھ لیتے یا راستے میں کسی ہوٹل کے بار سے کچھ پینے رک جاتے اور پھر کیوپڈ کا ایسا مہربان تیر چلتا کہ یہ ملاقات بستر تک جا کر ختم ہوتی۔
یہ سب کچھ حقیقت میں بدلنے کا خیال میرے دل میں دھڑکنے لگا۔
اب ہمارے بیچ پندرہ گز کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
میں اس کے پاس جاؤں، کہوں کیا؟
’صبح بخیر، کیا ایک مختصر سی بات چیت کے لیے آپ صرف آدھا گھنٹہ مجھے دے سکیں گی؟‘
تف ہے، میں بالکل ایسا لگوں گا جیسے کوئی بیمہ پالیسی بیچنے والا ہو۔
’معاف کیجئے گا، یہاں آس پاس کوئی ایسی لانڈری ہے جو راتوں رات کپڑے دھو کر تیار کر دے؟‘
نہیں بھئی، یہ بھی ویسا ہی احمقانہ خیال ہے، اور میرے پاس تو کوئی میلے کپڑے بھی نہیں۔ ویسے بھی کسی ملاقات میں پہلی بات ہی اس طرح کی، کون کرنا چاہے گا۔
شاید سیدھے سبھاؤ بات کرنا بہتر رہے گا۔ ’صبح بخیر، آپ سو فی صد میرے خوابوں میں پائی جانے والی لڑکی ہیں۔‘
نہیں، وہ اس پر یقین ہی نہیں کرے گی اور اگر کر بھی لیا تو بھی شاید وہ مجھ سے بات ہی نہ کرنا چاہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ٹھیک ہے، میں ہوں گی سو فی صد آئیڈیل لڑکی آپ کے لیے، مگر بصد معذرت، میرے آپ کے بارے میں ایسے کوئی خیالات نہیں ہیں۔
ایسا ہو بھی سکتا ہے۔۔
اور اگر ایسا ہو گیا تو میں وہیں بکھر کر رہ جاؤں گا۔ میں اس صدمے سے شاید کبھی باہر نہ آ سکوں۔ اب میں بتیس برس کا ہو چلا ہوں، اور بس یہی سارا معاملہ ہے۔
ہم ایک پھولوں کی دکان کے سامنے سے گزرتے ہیں۔ تازہ ہوا کا ایک لطیف سا جھونکا مجھے محسوس ہوتا ہے۔ راستے کی گھٹن اچانک تازہ گلاب کی خوشبو آنے سے کچھ اور کم ہو جاتی ہے۔ میں اپنے آپ کو اس سے بات کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتا۔ اس نے ایک سفید سوئیٹر پہن رکھا ہے اور اس کے داہنے ہاتھ میں ایک سفید براق خط کا لفافہ ہے، اس پر صرف ٹکٹ نہیں لگا ہوا ہے۔ تو گویا اس نے کسی کو خط لکھا ہے۔۔ اور ویسے اس کی آنکھوں کے خمار سے بھی یہی لگتا ہے جیسے ساری رات شاید یہی لکھنے میں بِتا دی۔ اس لفافے میں شاید وہ تمام راز ہوں جو ابھی تک اَن کہے ہیں۔
بے چینی سے میں وہیں منڈلاتا رہا اور ایک بار جو مڑا تو وہ ہجوم میں غائب ہو چکی تھی۔
اب ظاہر ہے مجھ پر بالکل واضح ہوگیا کہ دراصل میں اس سے کیا بات کرتا۔ وہ ایک لمبی تقریر ہوتی۔ جی ہاں، وہ اتنی لمبی ہوتی کہ میں اسے ٹھیک سے ادا ہی نہ کر پاتا۔ اُف! مجھے جو بھی خیالات آتے ہیں، وہ زیادہ قابل عمل نہیں ہوتے۔
اوہ ، یاد آیا، ’ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔‘ بات اس جملے سے شروع ہوتی اور ’کیا واقعی ایک اداس کہانی نہیں؟‘ اس پر ختم ہو جاتی۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوتے تھے۔ لڑکا اٹھارہ سال کا تھا اور لڑکی سولہویں سال میں تھی۔ لڑکا بہت زیادہ خوب رو نہیں تھا، وہ لڑکی بھی اتنی دلکش نہیں تھی۔ وہ دونوں بالکل عام سے ایک لڑکا لڑکی تھے، جیسے کوئی بھی دوسرا ہو سکتا ہے۔۔ مگر انہیں پورا یقین تھا کہ اس دنیا میں کہیں نہ کہیں ان کا ایک چاہنے والا موجود ہے جو سو فی صد ان کے خوابوں جیسا ہے۔ جی ہاں انہیں معجزوں پر یقین تھا۔۔ اور وہ معجزہ واقعی میں ہو گیا۔
ایک دن وہ دونوں ایک گلی کے موڑ پر آمنے سامنے آ گئے۔
لڑکابولا، ”یہ بہت حیران کن بات ہے، میں تمام عمر تمہیں تلاش کرتا رہا ہوں، تم شاید اس بات پر یقین نہ کرو، مگر تم سو فی صد وہی لڑکی ہو جیسی میرے خوابوں میں موجود تھی۔۔“
”اور تم،“ لڑکی اس سے کہنے لگی، ”تم سو فی صد میرے خوابوں کے شہزادے ہو۔ عین ویسے ہی، جیسے میں نے کبھی سوچا تھا۔ یہ سب کہیں خواب تو نہیں؟“
وہ دونوں قریب ہی موجود باغ میں ایک بینچ پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھ جاتے ہیں اور کئی گھنٹے ایک دوسرے کو اپنی کہانیاں سناتے رہتے ہیں۔ وہ اب اکیلے نہیں تھے۔ انہیں اپنا خواب، اپنا سو فیصد مثالی ساتھ مل گیا تھا۔ یہ کیا ہی خوب صورت بات ہے کہ آپ کو اپنا سو فی صد آئیڈیل مل بھی جائے اور آپ بھی اس کے آئیڈیل ہوں۔ یہ تو معجزہ ہوا۔ کائنات کا ایک حیران کن معجزہ!
اب وہ بیٹھے رہے اور بات کرتے رہے۔۔ لیکن ایک معمولی سی، بالکل باریک سی شک کی ایک دراڑ ان کے ذہنوں میں موجود تھی۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی کے خواب اتنی آسانی سے حقیقت میں بدل جائیں؟
اور تب، جب ان کی باتوں میں دم لینے کو ایک وقفہ آیا تو لڑکے نے لڑکی سے کہا، ”ہمیں صرف ایک بار اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا واقعی ہم سو فی صدی ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں؟ اگر واقعی ایسا ہے، تو ہم کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی ملیں گے ضرور۔۔ اور جب ایسا ہوگا اور ہم جانتے ہوں گے کہ ہم سو فی صد ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں تو ہم وہیں کے وہیں شادی کرلیں گے۔ کیا خیال ہے؟“
”ہاں،“ لڑکی نے کہا، ”ہمیں واقعی یہی کرنا چاہیے۔“
اور پھر وہ جدا ہوگئے ۔ لڑکی مشرق کو اور لڑکا مغرب کی سمت چلا گیا۔
ویسے یہ آزمائش، جس کے بارے میں وہ دونوں متفق تھے، قطعی غیر ضروری تھی۔ انہیں یہ بات کبھی نہیں ماننا چاہیے تھی، کیوں کہ دراصل وہ دونوں واقعی میں سو فی صد ایک دوسرے کے لیے ہی بنے تھے۔۔ اور یہ ایک معجزہ تھا کہ وہ ایسے مل لیے تھے۔۔ مگر اس کم عمری میں ان کے لیے یہ جاننا ممکن نہیں تھا۔ قسمت کے سمندر کی سرد اور بے نیاز لہروں نے انہیں بے رحمی سے اُچھال دیا تھا۔
ایک دفعہ سردیوں میں لڑکے اور لڑکی، دونوں کو بہت شدید موسمی زکام نے آ لیا۔ کئی ہفتے وہ دنوں زندگی اور موت کی بے کراں سرحدوں پر بھٹکتے رہے۔ یہاں تک کہ انہیں گذشتہ زندگی کے تمام واقعات بھول گئے۔ جب وہ صحت یاب ہوئے تو ان کے دماغ بالکل ایک کوری تختی کے مانند تھے۔ اتنے خالی کہ جیسے کبھی بچپن میں بے چارے ڈی ایچ لارنس کی گلک ہوتی ہوگی۔
وہ دونوں پُر عزم اور ذہین تھے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ان تھک کوششوں کی وجہ سے دوبارہ اس قابل ہوگئے تھے کہ وہ تمام علم اور حسیات دوبارہ سیکھ جائیں کہ جن کی مدد سے وہ معاشرے میں کارآمد ہو سکتے تھے۔
خدا نے اپنا فضل کیا۔ وہ دونوں واقعی معاشرے کے معزز شہری بن گئے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ایک سب وے لائن سے دوسری پر کس طرح جانا ہے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ ڈاک سے رجسٹری کس طرح بھیجی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں دوبارہ مبتلائے محبت ہونے کا بھی اتفاق ہوا جو 75 فیصد اور کبھی 85 فی صد تک بھی ہو جاتا تھا۔
وقت نا قابلِ یقین تیزی سے گزرا، جلد ہی لڑکا بتیس سال کا اور لڑکی تیس سال کی ہو گئی۔
اپریل کی ایک خوشگوار صبح تھی۔ دن کا آغاز گرما گرم کافی کے ایک کپ سے کرنے کے خیال میں گم لڑکا مغرب سے مشرق کی طرف جا رہا تھا، جب کہ لڑکی مشرق سے مغرب کو اس خیال میں رواں تھی کہ ایک خط رجسٹرڈ ڈاک سے بھجوایا جا سکے۔۔ مگر ٹوکیو کے نواح میں واقع ہاروجوکو کی اسی تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے عین گلی کے درمیان وہ ایک دوسرے کے قریب سے گزرے۔ ان کے دلوں میں گمشدہ یادوں کی ہلکی سی ایک کرن صرف ایک لمحے کو نمودار ہوئی۔ دونوں نے اپنے سینوں میں ایک سرد سی آہ محسوس کی۔۔ اور وہ جانتے تھے۔
وہ لڑکی سو فی صد میرے خوابوں کی شہزادی ہے۔
وہ لڑکا سو فی صد میرے خوابوں کا شہزادہ ہے۔۔
مگر ان یادوں کی چمک بہت کم تھی۔ اور چودہ سال گزرنے کی وجہ سے وہ سب یادیں پہلے سی واضح نہیں تھیں۔
ایک لفظ کہے بغیر وہ ایک دوسرے کے پاس سے گزرے اور ہمیشہ کے لیے ہجوم میں کھو گئے۔