سچائی (اطالوی ادب سے منتخب افسانہ)

لؤئیجی پیراندیلو (ترجمہ: جاوید بسام

سارا ارجنٹا کو، جس کی عرفیت ترارا تھی، جوں ہی کمرہِ عدالت کے باقی حصوں سے باڑ لگا کر کٹہرے میں لایا گیا، اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی جیب سے پیلے پھولوں والا ایک سرخ سوتی رومال نکالا اور نشست پر احتیاط سے پھیلا دیا تاکہ اس کے تہوار جیسے لباس پر داغ نہ لگے۔ لباس اور رومال بالکل نیا تھا۔ جب وہ آرام سے بیٹھ گیا تو کسانوں کے ہجوم کی طرف دیکھ کر مسکرایا جو ہال میں عوام کے لیے مخصوص پچھلے حصے میں کھڑے تھے۔ اس کا عام طور پر خشخشی ڈاڑھی والا چہرہ تازہ تازہ مونڈا گیا تھا، جس کے باعث وہ بندر جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے کانوں میں سونے کی بالیاں بھی لٹک رہی تھی۔ ہال میں موجود کسانوں کے ہجوم سے پسینے، تازہ کھاد، اصطبل اور بھیڑوں کی سڑی ہوئی کھالوں کی ایسی تیز بو آ رہی تھی، جس سے انسان بیمار محسوس کرتا ہے۔

اس دوران سیاہ لباس میں ملبوس کچھ عورتیں، جن کی اونی ٹوپیاں بھنوؤں تک کھنچی ہوئی تھیں، ترارا کو دیکھ کر رونے لگیں۔ جب کہ ترارا نے کٹہرے میں کھڑے خوش دلی سے اپنا سخت بھاری ہاتھ ہلایا اور سر دائیں بائیں کیا، تاہم ایسا کرنا سلام کے اشارے کے طور پر نہیں تھا، بلکہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو مطمئن کرنا تھا۔

ترارا کے لیے اتنے مہینوں کے بعد مقدمے کی سماعت تقریباً چھٹی کا دن تھا، لہٰذا وہ خوب تیار ہوکر عدالت میں آیا تھا۔ وہ غربت کی وجہ سے وکیل کی خدمات حاصل نہیں کر سکا تھا۔ آخر اسے عدالت کی طرف سے مقرر کردہ وکیل قبول کرنا پڑا تھا، لیکن جو چیز اختیار میں تھی۔ اس میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ صاف ستھرے نئے لباس میں، ڈاڑھی منڈوائے، بالوں میں کنگھی کیے، تہوار کے سے انداز میں سج دھج کر آیا تھا۔ جیسے ہی عدالت نے ضروری رسمی کارروائی مکمل کی اور جیوری کی تشکیل کا اعلان کیا گیا، پریزائیڈنگ آفیسر نے مدعا علیہ کو کھڑے ہونے کا حکم دیا اور پوچھا، ”تمہارا نام؟“

”ترارا۔“

”عرفیت نہیں، اصل نام بتائیں۔“

”آہ، جناب عالی! میں سمجھ گیا، میرا نام ارجنٹو ہے، سارا ارجنٹو، لیکن سب مجھے ترارا کے نام سے جانتے ہیں۔“

”تم کتنے سال کے ہو؟“

”حضور! میں نہیں جانتا۔“

”تم کیوں نہیں جانتے؟“

ترارا نے کندھے اچکائے اور یوں مسکرایا، جس سے واضح ہوا کہ سالوں کی گنتی اسے ہمیشہ ایک ایسی سرگرمی لگتی ہے، جو قابلِ مذمت نہیں تو بے سود ضرور ہے۔ تاہم اس نے مزید کہا، ”جناب عالی! میرا تعلق گاؤں سے ہے، وہاں سال کون گنتا ہے؟“

حاضرین ہنس پڑے۔ آفیسر سامنے رکھے کاغذات پر جھکا، ”تمہاری پیدائش سن 1873 میں ہوئی، لہٰذا اب تمہاری عمر اڑتیس سال ہے۔“

ترارا نے شائستگی سے سر ہلایا اور بولا: ”عالی جناب! جیسا آپ کا حکم۔“

آفیسر نے تیزی سے مزید سوالات پوچھنا شروع کر دیے تاکہ ہال میں ہنسی کی نئی لہر پیدا نہ ہو۔ ترارا نے جوابات دیے۔

”ٹھیک ہے؟ ٹھیک ہے۔ بیٹھ جاؤ۔ اب سیکرٹری فردِ جرم عائد کریں گے۔“ سوال ختم کر کے اس نے کہا۔

سیکرٹری نے پڑھنا شروع کیا، لیکن جلد ہی اسے رکنا پڑا، کیونکہ ہال میں پھیلی بدبو نے جیوری کے صدر کو پریشان کر دیا تھا۔ لہٰذا دربانوں کو دروازے اور کھڑکیاں کھولنے کا حکم دیا گیا۔

یہاں ترارا کی ججوں پر برتری واضح اور ناقابلِ تردید نظر آئی۔ وہ اپنے سرخ رومال پر آرام سے بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ اسے بدبو کی پروا نہیں تھی، کیوں کہ اس کی ناک اس کی عادی تھی۔ اسے گرمی بھی نہیں لگ رہی تھی، حالانکہ وہ موٹے نیلے کپڑوں میں ملبوس تھا، نہ ہی اسے مکھیوں سے کسی قسم کی پریشانی تھی جو ججوں، کراؤن پراسیکیوٹر، وکلاء، محافظوں اور یہاں تک کہ کارابینیری کو بھی اس شدت سے تنگ کر رہی تھیں کہ وہ بار بار انہیں ہاتھ کے اشاروں سے اڑانے پر مجبور تھے، وہ ان کے ہاتھوں سے لپٹ رہیں تھیں، ان کے چہروں کے گرد بھنبھنا رہی تھیں اور کسی شکاری کی طرح ان کے ماتھے، ہونٹوں اور آنکھوں پر کاٹ رہی تھیں، جبکہ ترارا نہ انہیں محسوس کر رہا تھا نہ انہیں دور کر رہا تھا، وہ صرف مسکرا رہا تھا۔

عدالت کی طرف سے مقرر کردہ نوجوان دفاعی وکیل نے اپنے مؤکل کو مقدمے کی کامیابی کی پیشگی یقین دہانی کرائی تھی، کیونکہ یہ صرف اس کی بیوی کے قتل کا معاملہ تھا، جس کی بے وفائی ثابت ہوچکی تھی۔

ترارا حیوانوں کی سی لاپرواہی اور خوش فہمی کے ساتھ پرسکون تھا، اس کے چہرے پر پشیمانی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہ بات اس کی سمجھ سے بالاتر تھی کہ ایک ایسے معاملے میں، جس میں نقصان سراسر اسے ہوا ہے، دنیا میں دوسروں کو کیوں فکر لاحق ہے۔ وہ نظامِ انصاف کو صرف ایک افسوسناک ناگزیریت سمجھتا تھا۔ کسان کی معاشی زندگی میں برے سال آتے ہیں۔ کیا اس کی زندگی میں انصاف ہے؟ کیا اس سے واقعی فرق پڑتا ہے؟ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ نظامِ انصاف، شاندار بینچ، ججوں کی ٹوپیاں اور ان پر لگے شاندار آرائشی پنکھ، ان کے چوغے ترارا کے لیے کچھ ایسے ہی تھے، جیسے وہ بڑی نئی دخانی مل جو پچھلے سال بڑی سنجیدگی سے کھولی گئی تھی۔ ترارا نے دوسرے تماشائیوں کے ساتھ اس شاندار مشین، پہیوں کے بڑے پیمانے، پسٹن اور بلاکس کی اس گورکھ دھندے کو دیکھتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ اس کے اندر حیرت کے ساتھ ساتھ بے اعتمادی کا احساس بھی بتدریج بڑھتا جا رہا ہے۔ سب اس چکی میں اپنا اناج لے کر آ رہے تھے، لیکن بعد میں کون اس بات کی ضمانت دے سکتا تھا کہ واپس ملنے والا آٹا اس کے اپنے اناج کا ہے، کسی اور کا نہیں؟ انہیں اِس پر چشم پوشی کرنی پڑی اور جو آٹا دیا گیا، وہ خاموشی سے لینا پڑا اور اب اسی بے اعتمادی اور عاجزی کے ساتھ ترارا نے اپنی قسمت، انصاف کی مشین کے حوالے کر دی تھی۔

اسے صرف اتنا معلوم تھا کہ اس نے اپنی بیوی کا سر کلہاڑی کا وار کر کے پھاڑ دیا تھا۔ ہوا یہ کہ ترارا نے مونٹا پرٹو قصبے کے قریب کھیتوں میں پورے ایک ہفتے بطور مزدور کام کیا۔ ہفتے کی شام گندے اور گیلے لباس میں گھر لوٹتے ہوئے ترارا کو ایک بڑے اسکینڈل کے بارے میں معلوم ہوا جو اس کے رہائش علاقے آرکو ڈی سپوٹو میں پیش آیا تھا۔ چند گھنٹے پہلے اس کی بیوی ایک بھلے مانس آدمی ڈان اگاتینو فیوریکا کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی۔
اس شریف آدمی کی بیوی ڈونا گرازیلا فیوریکا جس کے ہاتھ کنگن اور انگوٹھیوں سے مرصع اور گال ترک انگوروں اور قوس قزح کی طرح رنگین تھے اور جو اس خچر کی طرح سجی سنوری تھی، جس پر دف کی آواز کے ساتھ اناج کو چرچ تک لے جایا جاتا تھا۔ اس نے خود دو پولیس اہلکاروں کی رہنمائی کی تھی، جس کی قیادت کمشنر سپانو کر رہا تھا۔ وہ آرکو ڈی سپوٹو کے آخری سرے تک گئے، تاکہ زنا کی تصدیق کر سکیں۔

ترارا کے پڑوسی اس پر پڑنے والی مصیبت کو چھپا نہ سکے تھے۔ کیونکہ اس کی بیوی اور اس شریف آدمی کو ساری رات نظر بند رکھا گیا تھا۔ اگلی صبح جیسے ہی وہ گھر کے دروازے پر نمودار ہوئی۔ ترارا اس کی طرف لپکا اور اس سے پہلے کہ پڑوسی مداخلت کرتے، کلہاڑی کا وار کر کے اسے مار دیا۔

اب ترارا کو کوئی دلچسپی نہ تھی کہ عدالتی سیکرٹری کیا بڑبڑا رہا ہے؟

جب سیکرٹری پڑھ کر فارغ ہوا تو پریذائیڈنگ آفیسر نے مدعا علیہ کو دوبارہ کھڑے ہو کر سوالات کے جوابات دینے کا حکم دیا، ”ارجنٹو! تم نے سنا کہ تم پر کیا الزام ہے؟“

ترارا نے ہلکے سے ہاتھ اٹھایا اور حسبِ معمول مسکراتے ہوئے جواب دیا: ”جناب عالی! سچ بتاؤں۔۔۔ میں نے نہیں سنا۔“

آفیسر غصے سے بولا: ”تم پر الزام ہے کہ تم نے اپنی بیوی روزیرا فیمینیلا کو دس دسمبر سن 1911ء کی صبح کو کلہاڑی سے قتل کیا۔ تم اپنے دفاع میں کیا کہنا چاہتے ہو؟ جیوری کا سامنا کرو اور عدالت کا احترام کرتے ہوئے واضح الفاظ میں پر بات کرو۔“

ترارا نے اپنا ہاتھ سینے پر دل کے مقام پر رکھ کر دبایا، گویا اس بات کا اظہار کر رہا ہو کہ وہ عدالت کی گستاخی کرنے کی ذرا سی بھی خواہش نہیں رکھتا۔ عدالت میں موجود حاضرین خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہے تھے، کیوں کہ وہ اس سے کسی مضحکہ خیز جواب کی توقع کر رہے تھے، یہ محسوس کر کے ترارا شرمندہ ہو گیا اور کچھ دیر خاموش رہا۔

”جواب دو!“ آفیسر پُر زور لہجے میں بولا، ”جیوری کو بتاؤ کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو۔“

ترارا نے شانے اچکائے اور بولا۔م، ”دیکھیں جناب عالی! یہاں سب پڑھے لکھے لوگ بیٹھے ہیں، وہ خود اندازہ لگا لیں گے کہ کاغذوں میں کیا لکھا ہے۔ میں، حضور ایک سیدھا سادہ آدمی ہوں، لیکن چونکہ کاغذوں میں کہا گیا ہے کہ میں نے اپنی بیوی کو قتل کیا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ میرے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“

اس بار آفیسر خود بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ بولا، ”کہنے کو کچھ نہیں؟ ارے نہیں جناب، کچھ تو کہیے۔“

”میرا مطلب یہ ہے، عالی جناب!“ ترارا نے ایک بار پھر اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے وضاحت کی، ”میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اسے مار ڈالا۔ بس میں نے اسے مارا ہے، جی ہاں، حضور والا! میں جیوری کے حضرات سے مخاطب ہوں۔ میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے مارا ہے۔۔ کیونکہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ میرے پاس مزید بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔“

ہال میں موجود لوگوں کے قہقہوں سے ایسا لگا کہ چھت اڑ جائے گی۔

”براہِ کرم خاموش رہیں حضرات! ہنسنا بند کریں!“ پریذائیڈنگ آفیسر نے غصے سے موگری بجاتے ہوئے حکم دیا، ”یاد رکھیں کہ آپ کمرہِ ٔعدالت میں ہیں۔ ایک شخص پر قتل کا مقدمہ چل رہا ہے، ہنسی جاری رہی تو میں ہال کو خالی کرنے کا حکم دوں گا۔“

پھر وہ تیوری چڑھا کر مدعا علیہ کی طرف متوجہ ہوا اور ڈپٹ کر بولا، ”تمہارا کیا مطلب ہے کہ تم دوسری صورت میں کچھ نہیں کر سکتے تھے؟“

ترارا نے کچھ شرما کر ہال میں چھائی خاموشی میں جواب دیا، ”جناب عالی! میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں قصوروار نہیں ہوں۔“

”تم قصوروار کیوں نہیں ہو؟“

یہاں عدالت کی طرف سے مقرر دفاعی وکیل، آفیسر کا توہین آمیز لہجہ برداشت نہ کر سکا اور مزاحمت کرنا فرض سمجھا، ”میں معافی چاہتا ہوں جناب! لیکن اس طرح آپ میرے غریب مؤکل کو مکمل طور پر الجھا دیں گے، مجھے لگتا ہے کہ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ قصوروار وہ نہیں، بلکہ اس کی بیوی ہے، جس نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا۔ بات واضح ہے۔“

”معذرت، وکیل صاحب، لیکن میں آپ سے کہتا ہوں کہ عدالت کے کام میں مداخلت نہ کریں۔“ آفیسر نے غصے سے اسے روکا، ”مدعا علیہ کو بولنے دیں۔ ترارا بات جاری رکھیں، کیا آپ اس سے متفق ہیں جو آپ کے وکیل نے کہا؟“

ترارا نے پہلے نفی میں سر ہلایا، پھر وضاحت کی، ”نہیں جناب عالی اس میں غریب مقتول عورت کا بھی قصور نہیں ہے۔ یہ سب مسٹر فیوریکا کی بیوی کی وجہ سے ہوا جو کسی بات کو بھی ڈھکا چھپا رکھنا نہیں چاہتی تھی۔ حضور والا! اسے میرے گھر ایسی رسوائی لانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایسی رسوائی، جس سے سڑک کے پتھر بھی شرما گئے۔۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ایک قابل اور انتہائی معزز شریف آدمی فیوریکا کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ صرف ایک قمیض میں بغیر پتلون کے ایک گندی کسان عورت کے خلوت گاہ میں پایا گیا؟ بس خدا ہی جانتا ہے جناب، روٹی کی ایک پرت کے لیے ہمیں کس حد تک جانا پڑے گا۔“

جب ترارا جذبات سے کانپتی آواز میں، آنکھوں میں آنسو لیے، اپنے ہاتھ کو سینے پر رکھے یہ سب کہہ رہا تھا، ہال میں لوگوں کے بے قابو قہقہے گونج رہے تھے، کچھ لوگوں کے تو ہنسی سے آنسو نکل آئے تھے، لیکن ان قہقہوں سے پریذائیڈنگ آفیسر یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گیا کہ مدعا علیہ نے اپنے بیان سے کیس کو ایک نیا اور غیر متوقع موڑ دے دیا ہے۔

نوجوان وکیل بھی یہ بات سمجھ گیا تھا۔ یہ دیکھ کر، کہ اس کا قائم کردہ سارا دفاعی نظام کیسے یک دم گر گیا ہے، وہ ملزم کی طرف متوجہ ہوا اور اسے انتباہی اشارے کرنے لگا، لیکن دیر ہو چکی تھی۔

آفیسر نے بے دلی سے موگری بجاتے ہوئے مدعا علیہ سے سوال کیا، ”تو تم تسلیم کرتے ہو کہ تم کو اپنی بیوی کے مسٹر فیوریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں علم تھا؟“

”جناب جج صاحب! معاف کیجیے گا… لیکن یہ غلط ہے…“

”کیا غلط ہے؟“ آفیسر چلایا، ”مجھے فوری طور پر سب کچھ واضح کرنا ہے۔“

دفاعی وکیل مداخلت کرتے ہوئے اپنی نشست سے اچھل پڑا، ”میں آپ کے سوال کے خلاف احتجاج کرتا ہوں جناب!“

”آپ کو احتجاج کا کوئی حق نہیں، وکیل صاحب میں پوچھ گچھ کر رہا ہوں۔“

”اس صورت میں، مَیں وکیلِ صفائی کے طور پر اپنے فرائض سے مستعفی ہوتا ہوں۔“

”کیا آپ سنجیدہ ہیں؟ جبکہ مدعا علیہ خود تسلیم کر رہا ہے کہ…“

”نہیں جناب! معاف کیجئے گا، ملزم نے ابھی تک کچھ بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ اس کی رائے میں یہ سینورا فیوریکا کی غلطی تھی، جس کے باعث اس کے گھر کے سامنے یہ سانحہ ہوا۔“

”چلو ہم مانتے ہیں، لیکن آپ کس بنیاد پر مجھے یہ پوچھنے سے روکتے ہیں کہ آیا وہ اپنی بیوی کے فیوریکا کے ساتھ تعلقات کے بارے میں جانتا تھا یا نہیں؟“

اسی لمحے ہال سے ترارا کو متنبہ کرنے کے لیے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ آفیسر پھر برہم ہو گیا اور دوبارہ ہال خالی کرنے کی دھمکی دی۔

”مدعا علیہ جواب دو! کیا تم کو اس شریف آدمی کے ساتھ اپنی بیوی کے تعلقات کے بارے میں معلوم تھا؟“ اس نے پوچھا۔

الجھن اور مزید الجھن، ترارا نے وکیل کی طرف دیکھا، پھر ہال میں نظر دوڑائی۔ ’کیا مجھے نہیں کہنا چاہیے؟‘ وہ سوالیہ انداز میں بڑبڑایا۔

”اوہ کوڑھ مغز!“ ایک بوڑھا کسان پچھلی نشستوں سے چلایا۔

نوجوان وکیل نے غصے میں بینچ پر مکّا مارا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔

”پورا سچ بتائیں، یہ آپ کے اپنے مفاد میں ہے۔“ آفیسر نے ترارا کو مخاطب کیا۔

”یور آنر، میں پہلے ہی ایمانداری سے سچ کہہ رہا ہوں۔“ ترارا نے پھر سینے پر ہاتھ رکھا، ”لیکن معاملہ یہ تھا کہ جیسے میں کچھ نہیں جانتا، جی ہاں جناب، میں جیوری حضرات سے مخاطب ہوں۔ کیونکہ یہ معاملہ خفیہ تھا اس لیے کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں اس کے بارے میں جانتا ہوں۔ حضور والا! میرا کہنا یہ ہے کہ میں ایک سادہ اور ان پڑھ آدمی ہوں۔ پیر کی صبح سے ہفتے کی شام تک کھیتوں میں پسینہ بہانے والا غریب آدمی کیا جان سکتا ہے۔ ایسی مصیبت کسی پر بھی آ سکتی ہے۔ البتہ اگر کوئی کھیت میں میرے پاس آتا اور کہتا کہ ترارا دیکھو تمہاری بیوی مسٹر فیوریکا سے گھل مل رہی ہے تو میرے پاس کلہاڑی اٹھا کر گھر کی طرف بھاگنے اور اس کا سر پھاڑنے کے کوئی چارہ نہیں ہوتا، لیکن جناب کسی نے بھی آ کر مجھے یہ نہیں بتایا اور اگر کبھی مجھے ہفتے کے دوران گھر آنا پڑا تو میں نے ہمیشہ اپنی بیوی کو خبردار کرنے کے لیے کسی کو آگے بھیجا۔ میرا یہ کہنا ہے جناب، کہ میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ مرد مرد ہے جناب، اور عورت عورت ہے۔ ایک مرد کو ہمیشہ یہ سمجھنا چاہیے کہ عورت کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ وہ دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتی، خاص طور پر جب اسے سارا دن اکیلا چھوڑا جاتا ہو۔۔ یعنی جب شوہر پورے ہفتے کام کے سلسلے میں گھر سے غائب ہو، لیکن عورت کو مرد کی عزت کرنی چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ کسی کو اپنے منہ پر تھوکنے کی اجازت نہ دے۔ عزت مآب جج صاحب! کچھ ایسی باتیں ہیں، میں جن کے بارے میں جیوری کے حضرات کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ایسی باتیں جو تھوکنے سے بھی بدتر ہیں۔ وہ آنکھوں کو تکلیف پہنچاتی ہیں اور انسان انہیں برداشت نہیں کر سکتا۔ جناب عالی! میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ اس بدقسمت عورت نے ہمیشہ میری عزت کی اور معزز حضرات! یہ بھی سچ ہے کہ میں نے زندگی میں کبھی اس کے سر کے بال کو بھی نہیں چھوا۔ تمام پڑوسی اس کی تصدیق کریں گے۔
اگر جناب عالی! وہ سینورا، خدا اس کا بھلا کرے، اگر آپ اسے یہاں بلانے کا حکم دیں اور میں اس سے بات کر لوں۔ اس سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے، میں آپ سے مخاطب ہوں معزز جیوری حضرات! عورتوں سے بدتر کوئی چیز نہیں ہے۔ میں سینورا سے کہوں گا، اگر آپ کے شوہر کا کسی غیر شادی شدہ عورت سے کوئی تعلق ہے تو آپ جتنا چاہیں، اس پر الزام لگا سکتی ہیں، کیونکہ اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، لیکن محترم آپ کس حق سے ایک شانت اور خاموش طبع آدمی کو ہراساں کرنے آئے؟ جس نے کبھی دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑائی، جو کچھ دیکھنا یا سننا نہیں چاہتا، جو صبح سے شام تک خاموشی سے ہاتھ میں کدال لیے روزی کماتا ہے؟ یہ جناب، ایک عجیب مذاق ہے۔۔ میں اس سینورا سے کہتا، اگر وہ یہاں میرے سامنے ہوتی، اس اسکینڈل سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ بس شغل اور کچھ تفریح۔۔۔ دو دن بعد آپ نے اپنے شوہر سے صلح کر لی ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ وہ ایک سنگین معاملے میں ملوث تھا؟ آپ اس کے منہ پر تھوکنے کی طاقت نہیں رکھتیں؟ آپ کو اس کے خلاف کچھ کرنا نہیں چاہیے تھا؟
اگر حضور، وہ پہلے میرے پاس آتی اور مجھے سب کچھ بتاتی تو میں جواب دیتا۔ ’چلو سینورا ہم مرد ہیں، آدمی جیسا کہ مشہور ہے، پیدائش سے ہی شکاری ہے۔ آپ کو گندی کسان عورت کی کیا پروا؟ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ پتلی فرانسیسی روٹی کھانے کے عادی ہیں۔ لہٰذا کبھی کبھار انہیں گاؤں کی سخت روٹی کھانے کا دل کرے تو انہیں منع نہ کریں۔‘ یہ بات جناب جج صاحب! میں اسے کہتا۔ پھر شاید، خدا بہتر جانتا ہے سینورا سے یہ غلطی نہ ہوتی۔“

پریذائیڈنگ آفیسر نے بار بار موگری بجائی اور بڑی کوشش کے بعد ہال میں گونجتی لوگوں کی چیخوں اور قہقہوں کو روکنے اور خاموشی کروانے میں کامیاب ہوا۔ جو ترارا کے جوشیلے اعتراف کے بعد شروع ہوا تھا۔

”تو یہ آپ کا اعتراف ہے؟“ اس نے مدعا علیہ سے پوچھا۔

ترارا نے تھک کر نفی میں سر ہلایا، ”نہیں جناب یہ اعتراف نہیں، یہ سچائی ہے۔“

اس خالص سچائی کی بنا پر ترارا کو تیرہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close