رسّی (فرانسیسی ادب سے منتخب افسانہ)

چارلس بودلئیر (ترجمہ: حنظلة خلیق)

میرا دوست مجھے کہہ رہا تھا: ”خوش فہمیاں بھی اس قدر ہوتی ہیں، جتنے زیادہ ایک انسان کے دوسرے انسانوں سے روابط ہوتے ہیں۔۔ اور جب خوش فہمی رفع ہوتی ہے تو کہنا چاہیے کہ، ہم دوسرے انسان کی ذات یا حقیقت کو ویسے ہی دیکھتے ہیں، جیسے کہ وہ ہمارے باہر پہلے سے ہی موجود تھی۔ اس لمحے ہم ایک عجیب احساس کا تجربہ کرتے ہیں، جو ہماری امید کے محو ہونے کی افسردگی اور حقیقت کو یوں غیر متوقع پانے کی بے آرزو خوشی میں گم ہوتا ہے۔
اگر کوئی خوشگوار مظہر ہے جو عام، یکساں و بے ریا ہے، اور ایک ایسی نوعیت کا ہے، جس کے بارے میں دھوکا کھانا ناممکن ہے تو یہ ماں کی محبت ہے ۔ ایک ماں کا تصور کرنا، جو محبت سے خالی ہو، اسی طرح نا ممکن ہے، جس طرح ایک روشنی کا تصور کرنا، جو حرارت کے بغیر ہو۔ تو پھر یقیناً یہ قطعی درست نہ ہوگا کہ اگر ایک ماں کے تمام اقوال و افعال کو اس کی اپنے بچے کے لیے محبت سے منسوب نہ کیا جائے۔“

اب آپ میری یہ چھوٹی سی کہانی سنیے، جس نے مجھے سب سے زیادہ اس فطری رشتے کے بارے کج روی میں مبتلا کیا۔

(میرا مصوری کا پیشہ مجھے اُن چہروں کے مطالعے کی طرف ابھارتا رہتا ہے، جو مجھے راستے میں ملتے ہیں۔۔ اور آپ جانتے ہیں کہ ہم اس صلاحیت سے کتنی خوشی حاصل کرتے ہیں جو کہ زندگی کو ہماری آنکھوں میں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جاندار اور زیادہ اہم بنا دیتی ہے۔ اُس الگ تھلگ محلے میں، جہاں کہ میں رہتا ہوں اور جہاں گھاس کے بڑے وسیع قطعے عمارتوں کو علیحدہ کرتے ہیں، میں نے اکثر ایک بچے کو دیکھا، جس کے مستعد اور معصوم خدوخال نے مجھے دوسروں سے زیادہ اپنی طرف متوجہ کیا ۔ ایک سے زیادہ مرتبہ اُس نے میرے لیے پوز کیا اور میں نے کبھی تو اُسے ایک چھوٹے سے آوارہ گرد کے روپ میں اور کبھی ایک فرشتہ کی صورت میں اور کبھی ایک دیو مالائی محبت میں تبدیل کیا۔ میں نے کبھی اُسے ’آوارہ گرد کی وائلن‘ سونپی، کبھی کانٹوں کا تاج پہنایا، کبھی ’جذبے کی میخیں‘ اور کبھی ’ایروس کی مشعل‘ سے نوازا۔(مذہبی اور تاریخی واقعات کی مصوری)_ بالآخر اس بچے کی تمام شرارتوں میں، میں اتنی زیادہ خوشی محسوس کرنے لگا کہ میں نے ایک دن اُس کے غریب والدین سے درخواست کی کہ وہ اُسے میرے حوالے کر دیں۔۔ اور میں نے وعدہ کیا کہ اُسے اچھے کپڑے پہناؤں گا اور کچھ رقم بھی دوں گا ، اور میں اُس سے کوئی سخت کام نہ لوں گا سوائے اس کے کہ وہ برش وغیرہ دھو دے اور سودا خرید لائے۔

یہ بچہ نہانے دھونے کے بعد بہت دیدہ زیب بن گیا اور اسے وہ زندگی، جو میرے ہاں نصیب تھی ، اُس زندگی کے مقابلے میں جنت محسوس ہونے لگی، جو وہ اپنے ماں باپ کی تنگ و تاریک کوٹھری میں گزار رہا تھا ۔ مگر یہ ضرور بتاتا چلوں کہ اس ننھے بچے نے اکثر کسی گہرے غم کی کیفیت میں سرگرداں، بے حرکت رہتے ہوئے مجھے ضرور حیران کر دیا تھا۔

اُس نے جلد ہی شیریں شراب کا ضرورت سے زیادہ اشتیاق ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ اتنا زیادہ کہ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ میری نصیحتوں کے باوجود اُس نے اس قسم کی ایک نئی چوری کی ہے تو میں نے اُسے اُس کے والدین کے پاس واپس بھیجنے کی دھمکی دی۔ پھر میں باہر چلا گیا اور میرے کام نے مجھے کافی عرصہ باہر رہنے پر مجبور کیا۔

میری حیرت اور ڈر کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ، جب میں گھر لوٹا تو پہلی چیز جس پر میری نظر پڑی، وہ میری زندگی کا یہ شرارتی ساتھی، یہ چھوٹا سا لڑکا تھا جو الماری کی کھونٹی کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ اُس کے پاؤں فرش کو تقریباً چھو رہے تھے۔ ایک کرسی جسے لازماً اُس نے پاؤں سے ٹھکرایا تھا، اُس کے قریب الٹی پڑی تھی ۔ اس کا سر اعضا میں تناؤ کی وجہ سے ایک کندھے پر جھکا ہوا تھا، اُس کا چہرہ پھولا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں ایک خوفناک ٹکٹکی کے ساتھ کھلی ہوئی تھیں ۔ اس نے پہلی بار مجھے زندگی میں فریبِ نظر دیا۔ اُسے وہاں سے اتارنا اتنا آسان نہ تھا جتنا آپ سمجھتے ہیں ۔ وہ پہلے ہی بہت اکڑ چکا تھا اور اُسے دفعتاً زمین پر گرانے میں مجھے ایک نا قابلِ بیان نفرت محسوس ہوتی تھی ۔ چنانچہ یہ ضروری تھا کہ میں ایک بازو سے اسے تھامتا اور دوسرے بازو سے اُس کی رسی کاٹتا۔ یہ مرحلہ انجام پانے کے بعد بھی تمام کام ختم نہیں ہوا تھا ، اس معصوم وحشی نے بہت ہی پتلی رسی کا استعمال کیا تھا جو اس کی گردن کے گوشت میں بڑی گہری پیوست ہو چکی تھی اور اس کو نکالنے کے لیے اس کی گردن کے دونوں پھولے ہوئے حصوں کے درمیان کسی باریک بلیڈ کا احتیاط سے استعمال کرنا تھا۔

میں ایک بات آپ سے کہنا بھول گیا کہ میں نے مدد کے لیے بڑا شور مچایا مگر میرے تمام پڑوسیوں نے تہذیب یافتہ انسانوں کی روایت کے عین مطابق مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ میں نہیں جانتا کہ یہ لوگ خود کشی کرنے والے انسان سے کیوں واسطہ نہیں رکھنا چاہتے ۔ بالآخر ایک ڈاکٹر آیا جس نے بتایا کہ بچہ کئی گھنٹوں سے مر چکا ہے۔ اس کے بعد جب اسے دفن کرنے کے لیے ہمیں اس کے کپڑے اتارنا پڑے تو اُس کی لاش اتنی اکڑ چکی تھی کہ اُس کے بازوؤں کو جھکانے میں ناکام ہو کر ہمیں اس کے کپڑے کاٹنا پڑے۔

پولیس آفیسر نے، کہ جسے ظاہراً مجھے اس حادثے کی اطلاع دینا دی، مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا اور بولا: ”بہت حیران کن واقعہ ہے!“ ، ٹھیک اسی انداز میں، جس طرح یہ لوگ ہر طور واردات پر مجرم اور متاثر دونوں پر اپنا روایتی خوف جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سب سے اہم کام ابھی باقی تھا، جس کا خیال ہی میرے دل میں ایک خوفناک اضطراب پیدا کرتا تھا۔۔ اس کے والدین کو اطلاع دینا ضروری تھا اور میرے پاؤں اس جانب بڑھنے سے انکار کرتے تھے۔ بالآخر میں نے ہمت یکجا کی اور وہاں چلا گیا، مگر میری حیرانی کی انتہا نہ رہی، جب میں نے اُس کی ماں کو بالکل بے حس پایا۔ اُس کی آنکھ سے ایک آنسو تک نہ ٹپکا تھا۔ میں نے اس انوکھی کیفیت کو اس غم سے تعبیر کیا جو وہ محسوس کر رہی ہوگی۔۔ اور ایک پرانا مشہور قول یاد کیا کہ ’سب سے گہرے درد خاموشی سے سہے جاتے ہیں‘ ، جہاں تک باپ کا تعلق تھا، اُس نے نیم دیوانگی اور نیم خوابی کے لہجے میں کہا: ”بہرحال بہتر ہے کہ ایسا ہوا۔ اُس کا انجام بالآخر کہیں برا ہی ہونا تھا۔“

لاش میرے دیوان پر پڑی تھی اور میں اپنی ایک خادمہ کے ساتھ تدفین کی آخری تیاریوں میں مصروف تھا کہ اس کی ماں میرے اسٹوڈیو میں داخل ہوئی ۔ وہ اپنے بچے کی لاش دیکھنا چاہتی تھی۔ میں درحقیقت اُسے اپنے دکھ سے معمور ہونے سے نہیں روکنا چاہتا تھا اور نہ کسی طور تسلی دے کر ، غم کی انتہاء سے باز رکھنا چاہتا تھا۔

اُس نے مجھ سے کہا کہ اُسے وہ جگہ دکھاؤں، جہاں اُس کا بچہ لٹکا ہوا تھا۔

”نہیں محترمہ!“ میں نے اس کو جواب دیا، ”اس سے آپ کو دکھ ہوگا۔“

اور جونہی غیر ارادی طور پر میری نظریں اس خودکش الماری کی طرف مڑ رہی تھی، میں نے خوف اور غصے سے ملی ہوئی نفرت کے ساتھ دیکھا کہ رسی کے ایک ٹکڑے کے ساتھ، جو ابھی تک لٹک رہا تھا، ایک کیل سامنے کے حصے میں پھنسا رہ گیا ہے۔ میں جلدی سے اس حادثے کے آخری آثار کو اکھاڑنے کے لیے لپکا پھر جونہی میں ان کو کھلی ہوئی کھڑکی سے باہر پھینکنے ہی والا تھا کہ اس غریب عورت نے میرا بازو پکڑ لیا اور مجھے ایک دبی آواز میں کہا: ”جناب! یہ میرے لیے چھوڑ دیجیے۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں، میں آپ سے التجا کرتی ہوں۔“

مجھے یوں محسوس ہوا کہ بلاشبہ اس کے غم نے اُسے اتنا پاگل بنا دیا تھا کہ اب اُس کا دل اس اوزار کے لیے محبت سے بھر پور تھا۔۔ یہ اوزار جو اس کے بچے کے لیے موت کا سبب تھا اور وہ اُسے ایک خوفناک اور محبوب یادگار کے طور پر محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ پھر اُس نے جھپٹ کر کیل اور رسی پر قبضہ کر لیا۔

بالآخر، بالآخر سب کچھ ہو گیا تھا۔ اب مجھے اپنے آپ کو زیادہ جوش سے کام پر لگانا تھا تا کہ اس لاش کو، جو میرے دماغ کے پردوں پر منڈلا رہی تھی اور جس کے بھوت نے مجھے ٹکٹکی لگا کر دیکھنے والی بڑی بڑی آنکھوں سے تھکا دیا تھا، میں اسے اپنے وجود سے نکال سکوں۔۔

مگر دوسرے ہی روز مجھے خطوط کا ایک انبار موصول ہوا۔ کچھ مکان کے مالکوں کے تھے، کچھ ہمسایہ عورتوں کے، ایک پہلی منزل سے، ایک دوسری اور ایک تیسری منزل سے اور اسی طرح دوسری منزلوں سے۔۔ کچھ تو نصف مزاحیہ اسلوب میں تھے جو ظاہری غیر سنجیدگی کے پردے میں کسی طلب کے اخلاص کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ دوسرے گہری بے شرمی کے انداز میں اور بغیر دستخط کے۔۔ مگر تمام کا مقصد ایک ہی تھا، یعنی مجھ سے اس سنگین اور منحوس رسی کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا۔۔ مجھے یہ بتانا چاہیے کہ دستخط کرنے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں کی تھی اور مرد کم۔۔ مگر یہ یقین کیجیے کہ وہ تمام کے تمام نیچ یا گھٹیا طبقے سے ہر گز تعلق نہ رکھتے تھے۔ میں نے یہ خطوط سنبھال کر رکھے ہیں۔

یکایک ، ایک روشنی میرے دماغ میں آئی اور میں جان گیا کہ آخر کیوں وہ غمزدہ ماں مجھ سے رسی کے ٹکڑے اور کیل وصول کرنے کے لیے بضد تھی، اور وہ ان سے کیسے اپنا غم غلط کرنے والی تھی!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close