کیا ہم واقعی اپنے دماغ کا صرف 10 فیصد استعمال کرتے ہیں؟

ویب ڈیسک

بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا جاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا صرف 10 فیصد استعمال کرتے ہیں۔ یہ خیال ان کے ذہنوں میں کیسے آیا؟ ایک حد تک ذمہ داری فلموں کی ہے۔ بہت سی فلمیں ایسی ہیں جن میں دکھایا جاتا ہے کہ انسان نے اپنے دماغ کے سوئے ہوئے حصوں کو جگا کر غیر معمولی طاقت حاصل کر لی اور پھر وہ کر دکھایا جس کے بارے میں عام انسان گمان بھی نہیں کر سکتا۔ مثلاً 1996ء کی ہالی وُڈ فلم ’’فینومینن‘‘ میں اداکار جان ٹراولٹا زلزلوں کی پیش گوئی کرنے اور فوراً غیرملکی زبانیں سیکھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ 2014ء کی فلم ’’لوسی‘‘ میں اسکارلٹ جوہنسن مارشل آرٹس کی غیرمعمولی قابلیت حاصل کر لیتی ہے اور ’’لِمٹ لیس‘‘ میں بریڈلے کوپر رات بھر میں پورا ناول لکھ لیتا ہے۔ سائنس کے ساتھ ایسی ہیرا پھیری عام لوگوں کو خاصا متاثر کرتی ہے

یہ تصور فلموں، رسالوں، اور اخباروں کی وجہ سے عام ہے کہ انسان اپنے دماغ کا صرف دس فیصد استعمال کرتا ہے۔ آپ کو اکثر یہ بتلایا جاتا ہے کہ ”انسان اپنے دماغ کا صرف دس فیصد حصہ استعمال کرتا ہے اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اگر آپ اپنے دماغ کا سو فیصد استعمال کرنے لگیں تو آپ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔۔ آپ لوگوں کے خیالات پڑھ سکیں گے۔۔ اسٹاک مارکیٹ کے بہترین انوسٹر بن سکیں گے اور نہ جانے کیا کیا کچھ۔۔۔۔“ لیکن یہ دس فیصد والا قصہ مضحکہ خیز حد تک غلط ہے، اگرچہ بہت سے لوگ اس پر یقین کر بیٹھے ہیں!

سو اس تناظر میں دیکھا جائے تو جو لوگ اپنی ذہانت اور کارکردگی میں راتوں رات غیرمعمولی اضافے کی توقع رکھتے ہیں، ان کے لیے یہ بری خبر ہے، لیکن اچھی خبر بھی ہے۔ اگر محنت کی جائے تو ہماری ذہنی استعداد اور کارکردگی میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ایسے کام کریں، جن میں ذہنی مشق اور چیلنج شامل ہوں تو بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں

دوسرے بہت سے غلط خیالات یعنی myths کی طرح اس بارے میں بھی یہ کہنا مشکل ہے کہ اس دس فیصد والے myth کا آغاز کب ہوا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ابتدا امریکہ کے مشہور ماہرِ نفسیات ولیم جیمز نے کی، جبکہ کچھ لوگ اس کا الزام البرٹ آئن سٹائن کے سر پر ڈالتے ہیں، جس نے غالباً یہ کہا تھا کہ ہم اپنی دماغی صلاحیت کو پوری طرح استعمال نہیں کرتے

البرٹ آئن اسٹائن سے غلط طور پر وابستہ کئی اقوال کو بھی سبب خیال کیا جاتا ہے لیکن دراصل امریکی کی ’’سیلف ہیلپ‘ کی صنعت سے یہ خیال پیدا ہوا۔ 1936ء میں ڈیل کارنیگی کی معروف زمانہ کتاب ’’کیسے دوست بنائے جائیں اور لوگوں پر اثر انداز ہوا جائے‘‘ کے دیباچے میں اس کا اولین ذکر ملتا ہے۔ اس کے بعد یہ خیال کہ ہم نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی استعمال کیا ہے، سیلف ہیلپ کے ماہرین کا پسندیدہ حوالہ بن گیا ہے

1936 میں، امریکی مصنف لوویل تھامس نے ڈیل کارنیگی کی کتاب "How to Win Friends and Influence People” کے تعارف میں ایک بات لکھی، جو بعد ازاں بار بار دہرایا جانے والا دعویٰ بن گئی ”ہارورڈ کے پروفیسر ولیم جیمز کہتے تھے کہ اوسط آدمی اپنی پوشیدہ ذہنی صلاحیت کا صرف 10 فیصد استعمال کرتا ہے“

اگرچہ یہ غیر یقینی ہے کہ آیا جیمز، جسے امریکی نفسیات کا باپ سمجھا جاتا ہے، نے اس بیان کی ابتدا کی، لیکن یہ یقینی ہے کہ یہ ناقابل تردید طور پر غلط ہے

حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کے تمام حصوں کا استعمال کرتے ہیں۔ آپ خواہ کتاب پڑھ رہے ہوں، موسیقی سن رہے ہوں، چل پھر رہے ہوں یا پھر سو رہے ہوں، آپ کے دماغ کے بیشتر حصے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بات ہم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں؟ دماغ کے PET scan یا MRI کے ذریعے نیورو امیجنگ سے ہم دماغ کو کام کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ دماغ کی ان تصویروں سے ہم آسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ سیدھے سادے کاموں مثلاً چلنے پھرنے اور بات چیت کرنے میں بھی دماغ کے تمام حصے استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم دماغ کے تمام حصے بیک وقت استعمال کر رہے ہوتے ہیں، جس طرح ہم جسم کے تمام عضلات یعنی muscles ایک ساتھ استعمال نہیں کرتے، اسی طرح دماغ کے تمام حصے بیک وقت کام نہیں کرتے، تاہم ان اسکینز سے صاف ظاہر ہے کہ ہم ہر روز دماغ کے تمام حصے کسی نہ کسی طور پر استعمال کرتے ہیں

چند ایسی تکنیک ہیں، جن سے دماغ کی سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ’’پوزیٹرون امیشن ٹوموگرافی‘‘ (پی ای ٹی) اور ’’فنکشنل میگنیٹک ریزونینس امیجنگ‘‘ (ایف ایم آر آئی) داخلی سرگرمی کی تصویر بنانے کی تکنیک ہیں جن کی مدد سے ڈاکٹر اور سائنس دان دماغ کی اندرونی سرگرمیوں کا براہِ راست مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کے ڈیٹا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر طرح کی سرگرمی کے لیے 10 فیصد سے کہیں زیادہ، دماغ کا ایک بہت بڑا حصہ استعمال میں آتا ہے۔ یہ کوئی سادہ سی سرگرمی ہو سکتی ہے، جیسے کسی تصویر کو دیکھنا، یا پھر کوئی پیچیدہ کام جیسے مطالعہ یا ریاضی کا سوال حل کرنا

ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر دماغ کا 90 فیصد حصہ واقعی استعمال نہ ہوتا تو یہ ممکن ہونا چاہیے تھا کہ اپینڈکس اور ٹانسلز کی طرح دماغ کا 90 فیصد حصہ آپریشن کر کے نکال دینے کے بعد بھی لوگ نارمل کام کرنے کے قابل ہوتے۔۔ دماغی امراض کی وجہ سے دماغ کے کچھ حصوں کے ضائع ہو جانے کا بھی کچھ اثر نہ ہوتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دماغ کا ایک بھی حصہ ایسا نہیں ہے، جسے نقصان پہنچے اور اس کے نتیجے میں کوئی جسمانی یا ذہنی کمی واقع نہ ہو

دراصل ہم ہر وقت کم و بیش اپنا پورا دماغ استعمال میں لاتے ہیں ۔ اگر واقعی 10 فیصد دماغ سے ہمارا گزارا ہو سکتا ہے تو اس کے زیادہ تر حصے پر ضرب لگنے سے قابلِ ذکر اثر نہیں پڑنا چاہیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ دماغ کے تھوڑے سے حصے کو بھی اگر نقصان پہنچے تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ فرد حواس کھو سکتا، فالج کا شکار ہو سکتا ہے، یا اس کے کچھ اعضا کارآمد نہیں رہتے۔ نظامِ قدرت کا اصول ہے کہ بے مقصد حصے جسم میں باقی نہیں رہتے

آپ نے غالباً فنیس گیج Phineas Gage کے بارے میں سن رکھا ہوگا، جو کہ انیسویں صدی میں ریلوے کا ملازم تھا۔ ایک حادثے میں اس کے سر میں لوہے کا سریا ایک میزائل کی طرح اس کے جبڑے سے داخل ہوا اور کھوپڑی کو توڑتا ہوا نکل گیا۔ خوش قسمتی سے اس کی موت واقع نہیں ہوئی اور وہ زندہ بچ گیا۔ اس کی یادداشت اور اس کی پیشہ وارانہ مہارتیں اسی طرح قائم رہیں، جیسی حادثے سے پہلے تھیں۔ البتہ اس کی شخصیت بالکل بدل گئی۔ اس حادثے سے پہلے وہ ایک مہذب شخص تھا، لیکن اس حادثے کے بعد وہ انتہائی گھٹیا اور اخلاق سی گری حرکتیں کرنے لگا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سریے نے اس کے فرنٹل کارٹیکس frontal cortex کے کچھ حصے کو تباہ کر دیا۔ frontal cortex دماغ کا وہ حصہ ہے، جو انسان کو غلط کاموں سے روکتا ہے اور جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے نہ ہونے سے گیج کو جذبات پر کنٹرول ختم ہو گیا

اسی طرح کلائیو ویئرِنگ Clive Wearing ایک پیانو بجانے والا برطانوی شخص تھا۔ ایک وائرل بیماری نے اس کے دماغ کے ایک حصے Hippocampus کو تباہ کر دیا، جو یادیں اسٹور کرنے کا کام کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنی بیوی کے علاوہ کسی کو پہچاننے سے قاصر ہو گیا اور تیس سیکنڈ سے زیادہ دیر کے لیے کچھ بھی یاد نہیں رکھ سکتا

کوئی انسانی عضو اتنی توانائی صَرف نہیں کرتا، جتنی دماغ کرتا ہے۔ یہ کل جسمانی توانائی کا 20 فیصد تک استعمال میں لاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اپنے دماغ کو برقرار رکھنے کے لیے انسان اپنے قیمتی وسائل کا بہت بڑا حصہ تفویض کر دیتا ہے۔ یہ بلاوجہ تو نہیں!

دماغ کے ہر حصے کا کچھ نہ کچھ مخصوص کام ہوتا ہے اور یہ تمام حصے مل کر وہ شخصیت بناتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں۔ ہم یہ وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ دماغ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے ہر وقت خوراک اور توانائی کی ضرورت رہتی ہے۔ ایک عام آدمی کے دماغ کا وزن اس کے جسم کے وزن کا تقریباً تین فیصد ہوتا ہے لیکن اپنا کام کرنے کے لیے اور نیورونز کی فائرنگ کے لیے اسے جسم کی کل توانائی کے 20 فیصد حصے کی ضرورت ہوتی ہے – ہمارا دماغ کئی سو کیلوریز صرف اس لیے استعمال کر دیتا ہے تاکہ وہ دل کو مسلسل دھڑکنے کا حکم دے سکے اور آپ کے جسم کو روزمرہ کے کاموں کے بارے میں ہدایات جاری کر سکے۔ ہمیں ہر وقت خوراک کی ضرورت رہتی ہے اور خاص طور پر ایسی خوراک کی، جس میں چکنائی اور غذائیت ہو۔ اس ضرورت کی وجہ یہی ہے کہ دماغ ہر وقت مصروف رہتا ہے۔ اگر دماغ کا 90 فیصد حصہ واقعی استعمال نہیں ہوتا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ارتقاء نے دماغ جیسے غیر ضروری لیکن غذائیت کے متلاشی حصے کو بلاوجہ اتنی ترقی کیوں دی؟

اگرچہ یہ درست ہے کہ ہم صرف ذہنی قوت کے ذریعے چیزوں کو حرکت نہیں دے سکتے لیکن ہمارا دماغ بہت سی حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک ہے۔ ہم شاید ابھی دماغ کی تمام صلاحیتوں کا احاطہ نہیں کر پائے ہیں۔ ہمیں دماغ کے کام کی تضحیک کرنے کی بجائے اس کا شکر گذار ہونا چاہیے کیونکہ دماغ ہمارے لیے بہت کچھ کرتا ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں ارتقائی نیورو سائنس کے اسسٹنٹ پروفیسر ایرن ہیچٹ نے لائیو سائنس کو بتایا، ”ہم ہمیشہ اپنے تمام دماغ کا استعمال کرتے ہیں۔“

ایک علمی عصبی سائنس دان اور ڈیلاس کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں برین ہیلتھ پروجیکٹ کے آپریشنز کی سربراہ جولی فراتنٹونی کہتی ہیں، ”یہ محض ایک مضحکہ خیز افسانہ ہے“ وہ اس بات کا بھی یقین نہیں رکھتی کہ آیا 10 فیصد سے مراد حجم ہے یا کچھ اور۔۔ وہ کہتی ہیں ”کیا یہ 10 فیصد انرجی میٹابولزم ہے؟ کیا یہ برقی سرگرمی کا 10 فیصد ہے؟ کیا یہ خون میں آکسیجن کی سطح ہے؟“

ایرن ہیچٹ کا کہنا ہے ”یہ افسانہ اتنا وسیع ہے کہ طلباء اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ میری کلاسوں میں، جب بھی کوئی اس افسانے کو سامنے لاتا ہے، تو میں کہتا ہوں، ’اگر آپ اپنے دماغ کا صرف 10 فیصد استعمال کر رہے ہیں، تو شاید آپ کو وینٹی لیٹر پر لگا دیا جائے گا“

ایرن ہیچٹ نے دماغ کی سرگرمی کو دل سے تشبیہ دی، جب جسم آرام میں ہوتا ہے۔ دل پمپ کرتا رہتا ہے، چاہے وہ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام نہ کر رہا ہو۔ اسی طرح، پورے دماغ اور اس کے خلیے، جنہیں نیوران کہتے ہیں، ہمیشہ ایک بنیادی سطح پر بھی متحرک رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا ”نیورونز کو خود کو صحت مند رکھنے کے لیے کسی نہ کسی قسم کی بنیادی سطح پر فائر کرنا پڑتا ہے۔“

جولی فراٹنٹونی اور ایرن ہیچٹ کے مطابق، جب کہ دماغ کو مجرد علاقوں میں درجہ بند کیا جاتا ہے، یہ عضو مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے کام کرتا ہے۔ کوئی ایک خطہ کبھی اکیلے میں کام نہیں کرتا ہے۔ فراٹنٹونی نے پہلے سے طے شدہ موڈ نیٹ ورک کی مثال دی، جس میں سوچ اور سماجی تعاملات کو پروسیس کرنے کے لیے کئی علمی شعبے شامل ہیں

تو، ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ دماغ کے کون سے حصے فعال ہیں؟ دماغی سرگرمی کی پیمائش کرنے کے لیے ہمارے پاس بہترین ٹول فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (fMRI) ہے۔ اس نیورو امیجنگ تکنیک میں کسی کو مختلف محرکات کا جواب دیتے ہوئے ٹیوب نما اسکینر میں لیٹنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکینر دماغ میں خون کے بہاؤ کی تبدیلیوں کی پیمائش کرتا ہے، جو مختلف علاقوں میں توانائی کے استعمال میں اضافے کی نشاندہی کرتا ہے

ہیچٹ کہتے ہیں ”خیال یہ ہے کہ دماغ کے وہ حصے جو زیادہ خون حاصل کر رہے ہیں وہ زیادہ توانائی جلا رہے ہیں، اور اس وجہ سے، وہ زیادہ فعال طور پر اس میں شامل ہیں، جس کے بارے میں آپ سوچ رہے ہیں“

ہمارے دماغ ان مہارتوں کے لیے کم وسائل استعمال کرتے ہیں، جن کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ جب ہم کسی ہنر کی مشق کرتے ہیں تو ہمارا دماغ چند قابلِ مشاہدہ طریقوں سے بدل جاتا ہے۔ ہیچٹ کے مطابق، سب سے پہلے اس مہارت کے علاقوں سے منسلک دماغی بافتیں جسمانی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محققین یہ قیاس کرتے ہیں کہ یہ نمو پڑوسی نیوران کے ساتھ جڑنے کے لیے شاخوں سے نکلنے والے نیورونز ، یا بڑھتی ہوئی ویسکولرائزیشن سے ہو سکتا ہے جو زیادہ خون کے بہاؤ کو آسان بنائے گا۔ ایک ہی وقت میں، دماغ جتنی زیادہ مشق کرتا ہے ایک مہارت پر ہوتا ہے، یہ اتنا ہی زیادہ کارآمد ہوتا ہے اور اس کے لیے کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہیچٹ نے کہا ”جیسا کہ آپ کسی ایسی چیز میں زیادہ ماہر ہو جاتے ہیں جسے آپ کرنا سیکھ رہے ہیں، آپ کا دماغ کم فعال ہوتا ہے“

فراٹنٹونی نے کہا کہ دماغی توانائی، یا کسی کام کو مکمل کرنے کے لیے خرچ کی جانے والی شعوری کوشش، افراد کے لیے اپنے ذاتی دماغ کے استعمال کی پیمائش کرنے کا ایک اور مؤثر طریقہ ہے۔ چونکہ کوئی سائنسی طور پر ذہنی توانائی کی جانچ نہیں کر سکتا، یہ میٹرک سبجیکٹیوٹی کی اجازت دیتا ہے۔

”میرا خیال ہے کہ اس کے بارے میں سوچنے کا ایک بہتر طریقہ ہے، کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کی صلاحیت کیا ہے؟ آپ اپنی مکمل صلاحیتوں تک پہنچنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟“ ہیچٹ کے خیال میں، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ جو بھی ہنر پیدا کر رہے ہیں اس پر مستعدی سے مشق کریں

بالآخر، دماغ کا 10 فیصد استعمال کرنے کا تصور نہ صرف غلط ہے، بلکہ غیر متعلق بھی ہے۔ ہیچٹ نے ذکر کیا کہ ایک کمزور چوٹ یا فالج کے بعد ، کچھ لوگ دماغ کے دوسرے حصوں کے ساتھ اس طرح کی فنکشن سنبھالنے کے ساتھ صلاحیتوں کو تقویت دے سکتے ہیں، جسے خراب شدہ علاقے نے کنٹرول کیا تھا۔ ناقابل یقین حد تک دماغ کا جب کوئی حصہ کھو جاتا ہے یا خراب ہو جاتا ہے تو خود کو دوبارہ جوڑ سکتا ہے، اس لیے جو 100 فیصد پر مشتمل ہوتا ہے وہ بدل سکتا ہے۔ یہاں تک کہ دماغ کا ایک حصہ زخمی یا ہٹا دیا گیا ہے، ہر دماغ اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرنے کا راستہ تلاش کر سکتا ہے

تو قارئین کرام، ابھی تک سائنس دانوں کو دماغ کا وہ حصہ نہیں ملا، جو کوئی کام نہ کرتا ہو۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close