ماسکو کی اونچی سوسائٹی کی پارٹی عروج پر تھی۔ میزبان ایک بینک کا مالک تھا۔ مہمانوں میں جرنیلوں، سیاست دانوں اور اعلٰی افسروں کے علاوہ ایک نوجوان وکیل بھی شامل تھا۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ گفتگو نہ جانے کیسے سزائے موت اور عمر قید کی قانونی باریکیوں پر پہنچ گئی۔
کچھ کا خیال تھا کہ سزائے موت بھیانک سزا ہے جس کا روس جیسے تہذیب یافتہ ملک میں کوئی جواز نہیں۔ کچھ کا کہنا تھا کہ سزائے موت میں تو ملزم صرف ایک دفعہ مرتا ہے لیکن عمر قید میں ہر دن ایک بتدریج موت کا دن ہوتا ہے۔
نوجوان وکیل کی رائے تھی کہ زندگی ایک بہت قیمتی امانت ہے جس کو دوسرے انسان سے چھین لینا گناہ ہی نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف ایک جرم بھی ہے۔
بینکر کہہ رہا تھا اگر مجھے ان دونوں میں ایک کو منتخب کرنا پڑے تو میں یقیناً سزائے موت چنوں گا۔ تنہائی کی قید میں عمر گزارنے سے بڑا اور کوئی عذاب نہیں۔ ساری عمر تو کیا، میں شرط لگاتا ہوں کہ اگر کوئی پانچ سال بھی قیدِ تنہائی میں گزار لے تو میں اس کو بیس لاکھ روبل انعام دوں گا۔
”آپ پانچ سال کہتے ہیں، بیس لاکھ روبل کے لئے تو میں پندرہ سال کی قید تنہائی کے لئے تیار ہوں۔“
”ٹھیک ہے۔ اگر تم پندرہ سال مکمل تنہائی میں گذار لو تو قید کی مدت ِختم ہوتے ہی بیس لاکھ روبل تمھارے۔“
”منظور،“ نوجوان وکیل نے کہا، ”آپ اپنے بیس لاکھ روبل داؤ پر لگائیں اور میں اپنی زندگی کے پندرہ سال داؤ پر لگاتا ہوں۔“
بعد میں کھانے کی میز پر میزبان نے وکیل کو سمجھانے کی کوشش کی۔
”دیکھو، تم ابھی نوجوان ہو۔ میرے لئے تو بیس لاکھ روبل ہاتھ کا میل ہیں مگر تم کیوں زندگی کے پندرہ سال گنوانے پر تلے ہوئے ہو؟“
لیکن اس نوجوان وکیل کو بھی ضد چڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنا فیصلہ واپس لینے سے انکار کر دیا اور یوں یہ احمقانہ اور ہولناک شرط پکی ہو گئی۔
شرط کے مطابق طے پایا کہ پندرہ نومبر اٹھارہ سو ستر سے پندرہ نومبر اٹھارہ سو پچاسی کی رات کے بارہ بجے تک وکیل کو بینکر کے نوکروں کی ایک مقفل کوٹھری میں بند رہنا ہوگا۔ ایک چھوٹی سی کھڑکی سے اسے کھانے، کتابیں، شراب، سگرٹ اور دوسری ضروریات کی چیزیں مہیا کی جا سکیں گی۔ اسے کسی سے ملنے، بات کرنے یا اخبار پڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ البتہ وہ خط لکھ سکے گا اور کمرے میں رکھا ایک پیانو بجا سکے گا۔
سب سے کڑی شرط یہ تھی کہ مقررہ وقت سے ایک منٹ پہلے بھی کوٹھری سے نکلنے پر وہ بیس لاکھ روبل سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔
آج اس شرط کو پندرہ سال ہو چکے تھے۔ رات کے دو بجے تھے۔ ابھی شرط کی مدت میں بائیس گھنٹے باقی تھے۔ بینکر کے ذہن میں بیتے ہوئے پندرہ سالوں کی ایک مسلسل تصویر چل رہی تھی۔
اسے یاد آیا کہ پہلے سال کی قید کے دوران نوجوان وکیل شدید افسردہ دلی کا شکار رہا۔ کوٹھری سے اکثر پیانو پر اداس دھنوں کے بجانے کی آواز آتی۔
دوسرے سال پیانو کی آواز آنی بند ہو گئی تھی اور وہ کلاسیکل لٹریچر منگوانے لگا تھا۔ پانچویں سال پیانو پھر بجنا شروع ہو گیا تھا لیکن اب اس نے شراب نوشی شروع کر دی تھی۔ پہرہ داروں نے بینکر کو بتایا کہ اس کے کمرے سے آہیں بھرنے اور دیر دیر تک رونے کی آوازیں آتی تھیں۔ اس نے کثرت سے لکھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ بعض مرتبہ ساری ساری رات لکھتا لیکن صبح ہوتے ہی سب لکھا ہوا پھاڑ کر پھینک دیتا۔
بینکر کو یاد آیا کہ چھٹا سال ختم ہونے کے قریب تھا کہ وکیل نے مختلف زبانیں سیکھنے کی کتابیں منگوائیں۔ طویل مدت تک وہ زبانوں کے مطالعہ میں دن رات مصروف رہا۔ اس دوران اسے اور کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔ چار سال کے عرصے میں اس نے تقریباً پانچ سو کتابیں منگوا کر پڑھیں اور سات زبانوں پر مہارت حاصل کر لی۔ ایک دن بینکر کے نوکروں نے اسے ایک خط لا کر دیا، جس میں لکھا تھا:
’میرے عزیز جیلر،
میں یہ چند سطریں سات مختلف زبانوں میں لکھ رہا ہوں۔ آپ انہیں لسانیات کے ماہرین کو دکھائیں۔ اگر وہ سب اس بات پر متفق ہو جائیں کہ میری تحریر میں ایک بھی غلطی نہیں ہے تو آپ پستول سے میری کوٹھری کے باہر ایک فائر کر دیں۔ چونکہ مجھ سے گفتگو قید کی شرائط کے خلاف ہے، مجھے گولی چلنے کی آواز سے پتہ چل جائے گا کہ میں اپنی اس کاوش میں سرخرو ہوا ہوں۔ دنیا بھر کے دانش مند مختلف زبانیں بولتے ہیں لیکن عقل و فہم کا پیغام ہر زبان میں ایک ہی ہے۔ میں نے ہر خطے کے دانش وروں کی کتابیں پڑھیں۔ میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دنیاوی حرص و طمع بالکل بے معنی ہے۔ دولت اور منصب کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ ہی ان میں انسان کی بھلائی ہے۔ کاش آپ اندازہ کر سکتے کہ زندگی کا یہ راز جان کر میرے ذہن کو کتنا اطمینان اور دل کو کتنا قرار ملا ہے۔‘
بینکر نے اپنے قیدی کی یہ خواہش پوری کی اور ہر زبان کے عالموں نے تصدیق کی کہ اس کی تحریر میں کوئی خامی نہیں تھی۔
کوٹھری کے باہر پستول سے گولی چلا کر قیدی پر یہ عیاں کر دیا گیا کہ اس کی محنت رایئگاں نہیں گئی۔
دسویں سال میں وکیل نے صرف مذہبی کتابیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر اس کے ذوقِ مطالعہ نے ایک جھٹکا کھایا اور اس نے ہر قسم کی کتابیں، رسالے، اور مسودے پڑھنے میں اگلے پانچ سال لگا دیے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ علم کے ایسے سمندر میں تیر رہا ہے، جہاں اس کے شعور کا جہاز ڈوب گیا ہو اور اب وہ ہر ایسے تنکے کا سہارا لے رہا تھا، جس کے آسرے وہ تیر کر اپنی سمجھ کے ساحل تک جا سکے۔
بینکر روحانی اذیت میں مبتلا، پنجرے میں بند جنگلی جانور کی طرح، ڈرائنگ روم کے اِس کونے سے اُس کونے تک جاتا۔ پائپ کے کش لگاتا اور پھر قدِ آدم آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے آپ کو دیکھتا۔
ان پندرہ سالوں میں وہ کافی بوڑھا ہو چکا تھا۔ صحت جواب دے چکی تھی۔ پندرہ سال پہلے والی دولت کی ریل پیل جا چکی تھی۔ سٹہ کھیلنے میں اس کا سرمایہ ختم ہو چکا تھا۔ اب بیس لاکھ روبل کے نقصان کا تصور بھی اس کے لئے نا قابل برداشت تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ کل رات بارہ بجے وہ شرط ہار جائے گا۔ وکیل آزاد ہو جائے گا۔۔ اور اپنے بیس لاکھ روبل کا مطالبہ کرے گا۔ اگر یہ رقم نکل گئی تو اس کے پاس کچھ بھی نہ رہے گا۔ اب تو شاید اس کا اپنا پرانا بینک بھی اس کو قرضہ نہ دے۔ اسے اپنا مکان بیچنا پڑے گا۔ فاقوں کی نوبت آ جائے گی۔
بینکر پاگلوں کی طرح خود کلامی میں مصروف تھا۔ نہیں نہیں میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں یہ غربت برداشت نہیں کر سکوں گا۔۔ اور غربت سے بھی زیادہ تکلیف دہ یہ بات ہوگی کہ میری حالت کو دیکھ کر وکیل میری مدد کرنے کی پیشکش کرے گا۔ میں یہ تذلیل نہیں سہہ سکتا۔ نہیں، ہر گز نہیں، اس کا بس ایک ہی علاج ہے۔ اس آدمی کی موت۔
دیوار پر لگی گھڑی نے رات کے تین کا گجر بجایا۔ گھر میں سناٹا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ کانپتے ہاتھوں سے بینکر نے فولادی تجوری کھولی۔ اس میں سے گولیوں سے لدا ایک پستول نکالا۔ وکیل کے کمرے کی چابی نکالی اور تجوری کو بند کر کے کوٹھری کی طرف چلا۔
سردی کے باوجود وہ پسینے میں شرابور تھا۔ اس نے زنگ آلود تالے میں چابی لگائی اور چند جھٹکوں کے بعد تالہ ایک کڑکڑاہٹ کے ساتھ کھلا۔
قیدی کا بستر خالی تھا۔ ایک میز پر لالٹین جل رہی تھی۔ جس کی روشنی میں پچیس سال کے خوبرو نوجوان کی جگہ ایک ڈھانچہ سا کرسی پر بیٹھا دکھائی دیا۔ اس کے بال سفید ہو چکے تھے۔ چہرے کی سوکھی ہڈیوں پر کھال چمٹی ہوئی تھی۔ آنکھیں بند اور دھنسی ہوئی تھیں۔ وکیل بیٹھے بیٹھے غافل سو رہا تھا۔ یقین کرنا ناممکن تھا کہ اس بوڑھے آدمی کی عمر صرف چالیس سال ہے۔ بینکر نے اس کا گلا دبانے کے لئے دونوں ہاتھ اٹھائے۔ اچانک اس کی نظر میز پر پڑے ایک کھلے کاغذ پر پڑی جس پر بڑی خوش خطی سے کچھ تحریر تھا۔ بینکر نے لالٹین کی روشنی میں وہ کاغذ پڑھنا شروع کیا۔ اس پر لکھا تھا،
’میرے عزیز جیلر،
آج رات کو بارہ بجے میں آزاد ہو جاؤں گا۔ بیس لاکھ روبل میرے ہوں گے۔۔ لیکن آزاد ہونے سے پہلے میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے اس کال کوٹھری میں پندرہ سال گزارے ہیں۔ ان پندرہ سالوں میں میری صحبت دنیا کی عظیم ترین ہستیوں کے ساتھ رہی۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ سب سے بڑی بات یہ سیکھی کہ تمہاری یہ دنیاوی آسائشیں سوائے ایک دھوکے اور فریب کے اور کچھ بھی نہیں۔ جو آزادی مجھے ملنے والی ہے، مجھے اس سے نفرت ہے۔ مجھے زندگی سے نفرت ہے۔ مجھے ہر اس چیز سے نفرت ہے جسے تم جیسے انسان کامیابی کی نشانی سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پندرہ سال میرا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں رہا لیکن میں نے دنیا کے بارے میں کتابوں سے وہ کچھ سیکھا جو تم جیسے کھوکھلے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
ان کتابوں کے طفیل میں نے اپنی ایک الگ دنیا بسائی۔ میں نے ہمالیہ کی چوٹیوں کو سر کیا۔ افریقہ کے ریگستان عبور کیے، کتابوں کی اس دنیا میں مجھے حسن ملا، پیار ملا، سکون ملا، حسینوں اور دانش مندوں کی صحبت ملی۔ تمہاری کتابوں کے طفیل میں نے خدا کو پہچانا۔ اپنے آپ سے آگاہی ہوئی۔ تم ایک سراب کا تعاقب کرنے میں اپنی زندگی صرف کر دیتے ہو اور موت تم سے وہ سب چھین کر لے جاتی ہے۔ میں ان تمام آرزوؤں سے ماورا ہو چکا ہوں۔ مجھے تمہاری دنیا نہیں چاہیے، مجھے تمہاری آسائشیں نہیں چاہئیں۔ مجھے تمہارے بیس لاکھ نہیں چاہئیں۔۔
اور صرف تمہیں اس بات کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے کہ میں تمہارے ان بیس لاکھ روبل کو رد کرتا ہوں اور بقائم ہوش و حواس ان سے دست بردار ہوتا ہوں، میں کل رات بارہ بجنے سے کچھ گھنٹے پہلے یہاں سے فرار ہو جاؤں گا۔ تاکہ میں یہ جیتی ہوئی شرط خود ہی ہار جاؤں۔‘
جذبات کی یورش میں گھرے ہوئے بینکر نے ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو انتہائی احترام سے دیکھا، اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور خط کو اسی طرح واپس رکھ کر کوٹھری کے دروازے میں دوبارہ تالا لگا دیا۔ گھر آتے ہوئے بینکر زاروقطار رو رہا تھا۔ اتنے آنسو تو اس نے اپنی اس وقت بھی نہیں بہائے تھے جب وہ سٹے میں اپنی دولت لٹا بیٹھا تھا۔ گھر واپس آ کر اس نے کوشش کی کہ سو جائے لیکن جذبات کے تلاطم نے اسے بے قرار کیے رکھا۔
رات کے دس بجے کے قریب کسی نے زور زور سے اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھبرایا ہوا چوکیدار سامنے کھڑا تھا۔
”حضور۔ قیدی فرار ہو گیا ہے۔ وہ کھڑکی پھلانگ کر، پائیں باغ سے ہوتا ہواحویلی کے بڑے پھاٹک سے باہر چلا گیا ہے۔“
بینکر نوکروں کو لے کر کوٹھری میں گیا۔ تالا کھولا اور دیکھا کہ رات والا خط اسی طرح میز پر رکھا تھا۔ نوکروں سے نظر بچا کر بینکر نے وہ خط اٹھا لیا جس میں قیدی نے بیس لاکھ روبل کو ٹھکرا دیا تھا۔
گھر واپس پہنچتے ہی بینکر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس خط کو پستول کے ساتھ اپنی فولادی تجوری میں بند کر دیا۔