زندگی کی صبح (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

پرل ایس بک (ترجمہ: یوسف ظفر)

”ڈاکٹر! اس کے لیے جگہ نہیں ہے!!“ نرس نے کہا، ”تمام وارڈ بھرے ہوئے ہیں!“

”کسی نجی کمرے میں جگہ نکال لو!“ سرجن نے اپنا سفید کوٹ اتارتے ہوئے کہا۔

”نجی کمرے بھی بھرے ہوئے ہیں۔ البتہ اس کمرے میں جگہ ہے جس میں مسٹر میکلوڈ ہیں۔ لیکن انھیں آکسیجن دی جا رہی ہے۔ مشکل ہی سے رات کاٹیں گے۔ ان کے گھر کے لوگ بری خبر سننے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔“

”یہ بچہ انھیں پریشان نہیں کرے گا۔ کم از کم آج کی رات تو جاگے گا نہیں۔“ سرجن نے کہا۔ وہ اپنا بڑا کوٹ اور ٹوپی پہن چکا تھا۔

آدھی رات ہونے کو آ گئی تھی۔ وہ تھکا ہوا تھا۔ اس نے باہر نکلتے ہوئے دروازے کے کواڑ دھڑ سے بند کیے۔

نرس نے لڑکے کو دیکھتے ہوئے سوچا، خبر نہیں یہ اس نیند سے جاگے گا یا نہیں!

وہ غیر محتاط سا لڑکا تھا۔ سر کے بال بھورے اور لمبے، چہرہ لمبوترا اور تیکھا، پتلا جسم، اتنا دُبلا کہ اس کی ایک ایک پسلی گنی جا سکتی تھی۔ بالعموم ایسے ہی لڑکے رولر کے تلے آکر کچلے جاتے ہیں۔ دبیز سفید پٹیوں کی تہوں تلے اس کا جیسا چہرہ ویران نظر آ رہا تھا۔ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔ اس کے پاس سے ایسی کوئی چیز بھی نہ نکلی تھی، جس سے اس کا پتہ چلایا جا سکتا۔ کم از کم اس کے مالک کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ یہ ظاہر تھا کہ یہ اٹھارہ سال کا لڑکا ہے معلوم تو سترہ اٹھارہ ہی کا ہوتا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ سولہ کا ہو۔ اس کی عمر کا اندازہ ٹھیک نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ جب سے اسے لایا گیا تھا، اُس وقت سے بے ہوش ہی تھا اور اس کے جسم سے خون نکل رہا تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ اس قصبے میں ہسپتال تھا ہر چھوٹے قصبے میں ہسپتال نہیں ہوتا۔

”اسے تیٔس نمبر میں لگا دو!“ نرس نے اردلیوں سے کہا۔

اردلی اسے پہیوں دار پلنگ پر ڈالے ہوئے لے گئے۔ اور نرس ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔

رات زیادہ ہو گئی تھی۔ اس لیے ہسپتال میں سناٹا تھا۔ کوئی بچہ تک نہیں رو رہا تھا۔ گھنٹے دو گھنٹے بعد جب پُو پھٹنے لگے گی تو بُلاوا شروع ہو جائے گا۔ گھنٹیاں بجنے لگیں گی، بیمار آہیں بھرنے لگیں گے یا درد و کرب سے چلانے لگیں گے۔ اور بچے ایک دوسرے کو جگانے لگیں گے۔۔۔

تئیس نمبر میں خاموشی طاری تھی، صرف آکسیجن کی ‘سُوں سُوں’ کی آواز آ رہی تھی۔ دھیمی روشنی میں، نرس کو مسٹر میکلوڈ بستر پر پڑے ہوئے نظر آ رہے تھے، جن پر جانے سے پہلے اسے ایک نظر ضرور ڈالنی تھی۔

”لڑکے کے سر کا خیال رکھنا!“ اس نے اردلیوں سے کہا۔

”ہمیں معلوم ہے۔“ بوڑھے اردلی نے کہا، ”جب اسے لایا گیا تھا تو ہم دیکھ رہے تھے۔“

”کار تو ٹوٹ پھوٹ کر ختم ہی ہو گئی!”دوسرا اردلی بولا۔

انھوں نے اسے اپنے بڑے بڑے ہاتھوں سے نرمی کے ساتھ اٹھا کر بستر پر لٹا دیا اور اس کے بازوؤں اور ٹانگوں کو سیدھا کر دیا۔

”کوئی اور خدمت مس مارٹن!“ بوڑھے اردلی نے نرس سے پوچھا۔

”بس۔ شکریہ!“ اس نے شکریہ کہا۔

وہ چلے گئے۔ نرس نے لڑکے کے جسم پر چادر اور پتلی سی رضائی ڈال دی۔ وہ سانس تو لے رہا تھا مگر اُکھڑے اُکھڑے۔۔ نرس نے اس کی نبض ٹٹولی۔ وہ تیز چل رہی تھی۔ لیکن اس کی توقع ہی تھی۔ ڈاکٹر نے آخری انجکشن لگانے کے بعد یہ ہدایت کی تھی کہ اسے کوئی مسکّن دوا نہ دی جائے۔

ہال میں فون کی گھنٹی بجی۔ نرس فون سننے کے لیے چلی گئی۔ رات کے وقت ہسپتال کی نچلی منزل میں صرف ایک نرس کافی نہیں تھی، لیکن وہاں تو یہی دستور تھا، زیادہ نرسیں تھیں ہی نہیں۔ مسٹر میکلورڈ کے پاس ایک نرس کا موجود رہنا ضروری تھا اور اب یہ لڑکا۔۔۔

”ہیلو!“ نرس نے فون میں نرمی سے کہا۔

”مس مارٹن!“ ایک صاف محتاط اور ٹھہری ہوئی آواز آئی۔ نرس نے یہ آواز پہچان لی۔

”جی مسز میکلوڈ!“

”مجھے نیند نہیں آ رہی۔ ہم میں سے کوئی بھی نہیں سو سکتا۔۔ ذرا دیکھئے تو کہ آیا۔۔۔۔“

”ضرور!“

نرس نے فون رکھ دیا اور کمرے میں واپس آ گئی۔ لڑکے کی نبض پہلے سے بہتر تھی لیکن نرس نے اس کے چہرے پر نظر نہ ڈالی۔ مسٹر میکلوڈ بالکل ساکت پڑے تھے۔ ان کے بارے میں وہ یقین سے نہیں کہہ سکتی تھی کہ آیا یہ بوڑھا سانس لے بھی رہا ہے یا نہیں۔ اس نے ان کی نبض ٹٹولی لیکن کچھ پتا نہ چلا وہ بھاگی بھاگی فون پر پہنچی۔

”مسز میکلوڈ!“

”آپ آ ہی جائیں!“

”بہتر۔ ابھی آئی!“

نرس نے ہسپتال کے اندرونی فون پر متعین ڈاکٹر کو بتایا، ”ڈاکٹر! میں نے مسٹر میکلوڈ کے گھر کے لوگوں کو بلا لیا ہے!“

”اچھا! کیا اس کا آخری وقت آ پہنچا؟“

”جی ہاں۔“

”میں ابھی آیا۔ انجکشن تیار رکھو!“

”بہت اچھا!“

اس نے چھوٹی ٹرے میں ضروری سامان رکھا اور سوئیوں کو جراثیم سے پاک کپڑے پر رکھ دیا۔ ان سب کا مصرف اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ کسی بوڑھے مریض کو لمحہ بھر کے لیے ہوش میں لایا جا سکے تا کہ موت سے پہلے اپنے عزیزوں کی شکل دیکھ لے لیکن دستور چلا آرہا تھا۔ اور کوئی ڈاکٹر ہی اس کو توڑ سکتا تھا۔

وہ ٹرے اٹھا کر کمرے میں لے گئی اور آواز کیے بغیر جگہ پر رکھ دی۔ بوڑھا آدمی اس طرح بےحرکت پڑا تھا۔ لڑکا بھی اس طرح لیٹا ہوا تھا لیکن لڑکے کی نبض پہلے سے بہتر تھی۔ نرس نے آکسیجن کا خیمہ ٹھیک کیا اور آکسیجن کا بہاؤ ذرا تیز کر دیا۔ پھر اس نے بستر سے لگی ہوئی بتی روشن کی اور دو فاضل کرسیاں لا کر رکھ دیں۔

کل جب ڈاکٹر کے کمرے میں مسز میکلوڈ کو بتایا گیا تھا کہ اس کا شوہر ایک آدھ دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا تو اس کا چہرہ اس کے بالوں کی طرح سفید پڑ گیا تھا، پھراس نے کہا تھا، ’میں ایک درخواست کرتی ہوں۔ جب ان کا آخری وقت قریب آئے تو مجھے بلا لیا جائے۔ میں گھر پر ہی رہوں گی!‘

اس پر ڈاکٹر نے نرس کو ہدایت کی تھی کہ ‘جب تم دیکھو وہ وقت قریب ہے تو مسز میکلوڈ کو بُلا لینا!‘

ڈاکٹر آ گیا۔ وہ پستہ قد کا ایک تندرست و توانا جوان تھا، جس کا چہرہ بھرا ہوا اور گول سا تھا۔

”سب تیار ہے ڈاکٹر!“ مس مارٹن نے کہا۔

”خوب! میں ذرا دیکھ لوں۔ آکسیجن کا خیمہ اٹھا لو!“

نرس نے اس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ڈاکٹر نے مریض کو جلدی سے دیکھا بھالا۔ ”یہ تو آخری گھڑیاں گن رہا ہے۔۔ جیسے ہی وہ لوگ آئیں گے، میں ٹیکہ لگادوں گا۔“

”یہ رہا وہ!“ مس مارٹن نے کہا۔

”یہ اسے زیادہ دیر تک تو زندہ نہیں رکھ سکتا“ ڈاکٹر نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ”زیادہ سے زیادہ آدھ گھنٹہ یا گھنٹہ بھر! یہ دوسرا مریض کون ہے؟“

”یہ حادثہ کا کیس ہے۔“

”ہاں ۔ آج کل حادثے بہت ہو رہے ہیں۔“

”جی۔“

اِدھر اُدھر کی یہ باتیں اس لیے کی جارہی تھیں کہ ان سے جان بوجھ کر موت کے احساس سے لاعلم رہنا مقصود تھا۔ اس موت کے احساس سے جو جوان کو بھی آتی ہے اور بوڑھے کو بھی۔۔

”میں اندر آ سکتی ہوں ؟“ مسز میکلوڈ دروازہ میں کھڑی تھی۔

”آئیے آ جائیے!“ ڈاکٹر نے کہا، ”میں ان کے ٹیکا لگانے ہی کو تھا تاکہ یہ سنبھالا لے سکیں اور آپ ان سے بات کر سکیں۔“

”شکریہ ڈاکٹر صاحب!“ مسز میکلوڈ کے چہرے سے اضطراب بالکل ظاہر نہیں ہو رہا تھا۔ وہ پستہ قد کی عمر رسیدہ مگر مضبوط عورت تھی جس کے چہرے پر ضبط و تحمل کا اثر نمایاں تھا۔ اور یہ بات صرف مس مارٹن نے دیکھی تھی کہ ٹوپی سر سے اتارتے وقت اس کے چھوٹے سے توانا ہاتھ کانپ رہے تھے۔

”بیٹھ جائیے مسز میکلوڈ!“

”اور سب بھی آئے ہیں!“ مسز میکلوڈ نے کہا۔

”آئیے! آجائیے! اس سے انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔“ ڈاکٹر نے کہا۔

سب آ گئے۔۔۔ بیٹا، لمبے قد کا جوان جس کے بے نقش چہرے پر کرب کے آثار تھے۔ اس کی بیوی، دبلی پتلی، بھورے بالوں والی عورت، جو منہ پر رومال رکھے رو رہی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ بیٹی، حسین اور جوان، اپنے باپ کی طرح پکے رنگ کی۔

مِس مارٹن ان سب کو جانتی تھی۔ ان کے نام تھے، جارج، روتھ اور میری۔

سب ایک دوسرے کو چاہتے تھے اور روزانہ اپنے باپ کو دیکھنے آتے رہتے تھے۔ ان سب نے آپس کے صلاح مشورے سے آپریشن کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ آپریشن کامیاب ہو گیا تھا، یعنی اس سے مسٹر میکلوڈ اس چھوٹے سے کمرے میں تین مہینے اور زندہ رہنے کے قابل ہو گئے تھے۔

”اس دوسرے مریض کے بارے میں کیا خیال ہے؟“ جارج نے دوسرے بستر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

”یہ بے ہوش ہے۔“ مس مارٹن نے بتایا، ”اس کے لیے اور کہیں جگہ نہیں نکل رہی۔ ہسپتال بھرا ہوا ہے۔ آپ اس کا خیال نہ کریں اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔“ وہ مسٹر میکلوڈ کے سوکھے ہوئے بازو پر الکوہل مل رہی تھی۔ ڈاکٹر نے سوئی ان کی لٹکتی ہوئی جلد میں گاڑ دی۔

”آپ کو ایک گھنٹہ مل جائے گا مسز میکلوڈ، میں دروازہ کے باہر رکا رہوں گا۔“

”شکریہ ڈاکٹر!“ مسز میکلوڈ نے کہا۔

وہ ڈاکٹر اور نرس کے باہر جانے تک رکی رہی، پھر اس کے اشارے پر جارج اور روتھ بستر کے قریب بیٹھ گئے۔ میری آکر اس کے برابر دوزانو ہو گئی۔

”بال! ہم سب تمھارے پاس موجود ہیں!“ مسز میکلوڈ نے صاف آواز میں کہا، ”جارج اور روتھ آج رات کھانے پر آئے ہوئے تھے۔ ہم نے بکرے کے گوشت کا دم پخت اسی طرح تیار کیا جس طرح تمھیں پسند ہے۔ باغیچہ بہار پر آیا ہوا ہے۔ میں نے دم پخت کے لیے آج تھوڑی سی چھوٹی چھوٹی گاجریں اکھیڑی تھیں۔ بہت عمدہ تھیں وہ گاجریں!“

”ابا، ہم نے نقل کے لیے لیمو کی مٹھائی تیار کی تھی۔“ جارج بولا، ”آپ کی بہو بھی امی کی طرح مٹھائی بنانا سیکھ رہی ہیں۔ مگر میں نے انھیں مجبور نہیں کیا! کیوں جی؟“

”بالکل نہیں“ روتھ بولی۔ اس کے آنسو تھم چکے تھے لیکن ہونٹ کپکپا رہے تھے۔

”یہ کھانے خوب تیار کرتی ہیں، امی کی طرح !“

”میں اتنی عمر میں اتنا اچھا کہاں پکاتی تھی!“مسز میکلوڈ نے کہا، ”کیوں بال! تمھیں یاد ہے وہ سب سے پہلی مٹھائی جو میں نے تیار کی تھی؟ اوپر سے جلی ہوئی اور تہ میں کچی۔ وہ لیموں کی نہیں گلاس کی مٹھائی تھی جو تمھاری مرغوب مٹھائی ہے۔ میں تو رو پڑی ہوتی لیکن تم ہنس دیے اور کہا میں نے تم سے مٹھائی بنوانے کے لیے تو شادی نہیں کی ہے۔“

”گلاس کا درخت اب کے برس پھل سے لدا ہوگا، ابا!“ میری نے کہا۔ اس نے اپنی کہنیاں بستر پر لگا دیں۔ اس کی نظریں باپ کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں، ”جب پھل پکنے لگے گا تو جارج آپ کےتوڑنے کے لیے اس پر جال ڈال دے گا۔ طوطے تو ابھی سے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔“

جارج ہنسا ”وہ طوطے ابا وہ تو کبھی باز ہی نہیں آئیں گے۔۔ آپ کو تو معلوم ہے کس طرح ہر سال آ آ کر جال پر بیٹھ کر جال کے اندر کے پھل کو گھورتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ان کی بولی بھی کچھ کچھ آپ کی سمجھ میں آجاتی ہے تو خیر اس سال بھی وہی سب کچھ ہوگا۔“

میری ملائم آواز میں بولی، ”گلاس کی مٹھائی اور پکنک۔ جب یہ ہوں تو میں بجھتی ہوں کہ بہار آگئی۔“

”مجھے بھی پکنک بہت پسند ہے۔“ مز میکلوڈ نے کہا، ”ویسے تو میں بوڑھی ہو چکی ہوں لیکن پھر بھی مجھے پکنک پسند ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ منگنی سے پہلے تمھارے ابا کی اور میری ملاقات اسکول کی پکنک میں ہوئی تھی۔“

”ابا! آپ کو وہ زمانہ یاد ہے جب ہم چار جولائی کو پارسن جھیل پر پکنک کرنے گئے تھے۔“ جارج پھر بول رہا تھا ، ”آپ نے مجھے جال ڈالنا سکھایا تھا اور پہلی ہی بار میرے جال میں ایک بھیڑیا مچھلی آ پھنسی تھی تو میں نے چیخ چیخ کر سب کو بلا کر دکھا دیا تھا۔“

”مجھے موسمِ بہار بہت پسند ہے!“ میری اسی طرح خواب ناک آواز میں کہہ رہی تھی، ”لیکن جب خزاں آتی ہے، تب بھی میں بہت خوش ہوتی ہوں۔ آپ کو اخروٹ کا درخت یاد ہے ابا؟ اور مجھے اپنا اسکول بھی بہت پسند تھا۔ سچ ابا۔۔ منہ کیوں چڑا رہے ہو جارج! کیا اس لیے کہ تمھیں اپنا اسکول پسند نہیں تھا؟“

”ارے ارے!“ مسز میکلوڈ بننے کی کوشش کرتے ہوئے بولی، ”کیا تم دونوں بحث کرنے سے کبھی بھی باز نہیں آؤ گے؟“

دوسرے بستر پر لڑکے کے پپوٹے تھر تھرائے لیکن یہ بات کسی نے دیکھی نہیں۔ لڑکے کو خود بھی پتا نہیں تھا کہ اس کے پیوٹے تھر تھرا رہے ہیں، اسے تو بس اپنے ذہن کی گہرائیوں میں آوازیں گونجتی معلوم ہو رہی تھیں۔

”کتنا پیارا زمانہ تھا وہ، جب ہم ننھے بچے تھے!“ میری کہنے لگی، ”بعض اوقات تو میرا جی چاہنے لگتا ہے کہ وہی زمانہ لوٹ آئے۔۔ میں ہوں، تم ہو، امی اور ابا آپ ہوں۔“

”ہش!“ مسز میکلوڈ نے کہا، ”چپ ہو جاؤ! وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں!!“

سب آگے کو جھکے۔ روشنی میں ان کے چہرے ترشے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان کی نظریں بوڑھے کے سنجیدہ چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اس کے ہونٹ کا نپے۔ اس نے ایک آہ بھری، پھر آنکھیں کھولیں اور باری باری ہر ایک کے چہرے کو دیکھا۔

”میرے سرتاج!“ مسز میکلوڈ نے کہا، ”گھر تمھارے بغیر سُونا ہے۔ آج رات جب برتن دھو کر فارغ ہوئے تو ہم نے سوچا کہ تمھارے ہی پاس آ بیٹھیں۔“ وہ جواب سننے کے لیے رکی۔۔۔

مسٹر میکلوڈ نے اس کی طرف رخ کیا۔ ”مارتھا۔۔۔۔!“ یہ اس کی آواز تھی ، ایک آہ! ایک سرگوشی۔۔۔

”ہاں ہاں! میں تمھارے پاس ہوں۔ ہم سب تمھارے پاس ہیں۔ بچے بھی آگئے ہیں تم سے باتیں کرنے کے لیے!“ اس نے سر سے ان کی طرف اشارہ کیا۔

”ننھے بال اور جارجی نے کہا تھا کہ ابا کو ہمارا بھی سلام پہنچا دینا۔“

روتھ نے جلدی سے کہا، ”وہ اس وقت سو رہے ہیں۔ میں بیکر کو ان کے پاس بٹھا آئی ہوں، وہی جو ساتھ کے مکان میں رہتی ہے۔ بڑی اچھی لڑکی ہے۔۔ ہال نے کہا ہے کہ جیسے ہی آپ گھر لوٹیں گے، وہ آپ کو اپنی تین پہیوں کی سائیکل دکھائے گا جو آپ نے ہمیں اس کی سالگرہ پر لے کر دینے کو کہا تھا۔۔ وہ تو ابھی سے بڑے دن کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ جارج نے کہا۔ کل وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ ابا بڑے دن پر مجھے سائیکل کے لیے ہارن لے دیں گے نا؟“

”مجھے بڑا دن بڑا اچھا لگتا ہے!“ میری پھر اس طرح خواب ناک آواز میں کہہ رہی تھی، ”ہر بڑے دن کے موقع پر مجھے گزرے ہوئے سب بڑے دن یاد آتے ہیں۔ ہماری جرابیں آتش دان کی کارنس پر لٹکی ہوتی تھیں اور ابا آپ کی اور امی کی اس کے سروں پر ہوتی تھیں اور جارج اور میری درمیان میں! اور رات کے وقت بڑے دن کا نغمہ گانے والے نغمہ سناتے تھے۔ ہا! با! کھڑکی کے باہر سے آتی ہوئی نغمہ کی آواز اس حالت میں کتنی پیاری لگتی تھی جب میں اپنے گرم گرم بستر میں لیٹی ہوتی تھی۔“ وہ دہیمی لے میں گانے لگی۔۔ ”کون ہے یہ ننھا! کس نے اسے سلایا ہے؟“

دوسرے بستر میں لڑکے کی آنکھیں آدھی کھل چکی تھیں۔ اس نے اپنا سر گھمایا۔ دکھائی تو کچھ نہ دیا،
مگر اب آواز صاف سنائی دینے لگیں۔ اسے گانا سنائی دیا۔

”مجھے یاد ہے۔۔۔ سب کچھ!“ مسٹر میکلوڈ نے کہا۔

”بڑا دن“ مسز میکلوڈ نے کہا۔ اس کی پُر شوق نظریں شوہر کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں، ”ہمیشہ خالص خوشی کا دن ہوتا ہے۔ میں اس دن اوروں کو بلانے کے قابل نہیں۔ ہم سب اکٹھے ہوں، یہی کافی ہے اور اب تو خیر سے ننھا بال اور جارجی بھی ہو گئے ہیں۔ اور اب میری کی شادی ہو جائے گی۔“

”جارج بولا ”تو ہماری تعداد اور بڑھ جائے گی۔ لیکن ہم بدلیں گے نہیں۔“

میری نے کہا ”ابا اور امی ہمارے والدین ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ ہم آپ کا خاندان ہیں ابا ہمارے بڑے ہو جانے سے اس میں کوئی فرق نہیں آ سکتا۔“

”میں امید کرتا ہوں کہ میں بھی آپ جیسا اچھا باپ بن سکوں گا ابا!“ جارج نے کہا۔

دوسرے بستر پر لیٹا ہوا لڑکا اب ان لوگوں کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ اس نے ساتھ کے بستر پر ایک بوڑھے آدمی کو لیٹا دیکھا، جس کے اردگرد کچھ لوگ تھے۔

”سعادت مند بچے!“ بوڑھے نے جیسے غنودگی میں کہا۔ وہ نیم خوابیدہ معلوم ہو رہا تھا۔

”آپ دونوں کو کیسے معلوم ہو جایا کرتا ہے کہ ہمیں کیا چاہیے ہے۔“ میری کی آواز میں بڑی نرمی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ گڑیا، جو نو برس کی عمر میں میرے پاس ہوا کرتی تھی۔۔ اور وہ انگوٹھی بھی جو جب میں پندرہ برس کی ہوئی تھی، اس وقت ایک درخت پر سے ملی تھی۔ وہ میری پہلی انگوٹھی تھی۔ لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ مجھے زمرد کی انگوٹھی چاہیے ہے۔“

”چھوٹی سی تھی وہ انگوٹھی!“ اس کی ماں نے کہا، ”اس میں دونوں طرف ہیرے جڑے ہوئے تھے !“

میری نے کہا، ”میرے پاس اب تک ہے وہ انگوٹھی!! اور مجھے وہ اب بھی بڑی عزیز ہے!“

”جب میں بارہ برس کا ہوا تو آپ نے مجھے برف پر پھسلنے کے لیے جوتوں کے ساتھ باندھے جانے والی شی (SKI) لے دیے۔“ جارج نے کہا، ”خبر نہیں آپ کو کیسے معلوم ہو گیا کہ مجھے ان کی ضرورت ہے ابا! میں نے تو آپ سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ ان کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ یہ اس سال کی بات ہے، جب میری آنتوں کا آپریشن ہوا تھا۔“

”تمہارے ابا بیوی بچوں کی ہر بات مانتے ہیں اور بڑے دن کے موقع پر تو جو کہو، وہ مان لیتے ہیں۔“

”مگر اتنا آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا تھا کہ اپنے امتحان کے وقت مجھے جھٹکے سے بھی نہ رکنے والی گھڑی کی اتنی زیادہ آرزو تھی کہ جیسے ڈگری سے زیادہ گھڑی چاہیے ہے مجھے؟“ جارج نے پوچھا۔

”ہمیں۔۔۔۔ معلوم تھا۔“ مسز میکلوڈ نے کہا۔ ان کی آواز ڈوب گئی۔ ان کی آنکھیں پھڑکنے لگیں۔

دوسرے بستر پر لیٹے ہوئے لڑکے نے اپنا سر گھمایا تا کہ ان لوگوں کو اور اچھی طرح دیکھ سکے۔ اس سے اسے بڑی تکلیف ہوئی۔ کوئی سویا ہوا اور جاگ اٹھا جب کار ٹرک سے ٹکرائی تھی، اس وقت وہ کہاں جا رہا تھا؟ کہیں نہیں، کہیں بھی نہیں۔۔ بس یہ تھا کہ حالات اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گئے تھے۔ اس میں کسی بات کی تاب نہ رہی تھی۔ اس کا کوئی نہ تھا۔ اس کا کہیں ٹھکانہ نہ تھا۔ اس پر وحشت طاری ہو گئی تھی۔ بازاروں میں آوارہ پھرتا رہا کیونکہ کسی کو اس سے کوئی غرض نہ تھی کہ وہ کیا کرتا ہے، اسے کوئی بھی ایسا یاد نہ تھا کہ جس نے کبھی اس کا خیال کیا ہو اور بڑا دن تو اس نے کبھی منایا ہی نہیں تھا۔

”اگلے اتوار کو ایسٹر ہے۔“ مسز میکلوڈ کہہ رہی تھی، ”آبی نرگس کے پھول کھلنے کو ہیں اور سوسن پر بہار آئی ہوئی ہے۔ اس سال اس کی ہر ایک شاخ پر چھ چھ پھول کھلے ہیں۔ میرا خیال ہے پہلے اس کی ہر ایک شاخ پر تین تین پھول ہی کھلتے رہے ہیں۔ ہے نا ؟“

مسٹر میکلوڈ نے بڑا زور لگا کر کہا ”پانچ“

”دیکھا“ مسز میکلوڈ نے فخر سے کہا، ”انھیں مجھ سے زیادہ یاد ہے۔ ہاں ایک سال پانچ ہی لگے تھے۔“

دوسرے بستر پر لیٹا ہوا لڑکا سن رہا تھا۔ ایسٹر! اسے تو یہ معلوم تھا کہ ایسٹر کیا ہوتا ہے۔ اس روز لوگ اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور گرجا جاتے ہیں۔۔ لیکن کس لیے، یہ معلوم نہ تھا۔

مسٹر میکلوڈ کی آنکھیں مند گئیں۔ مسز میکلوڈ نے سر سے اشارہ کیا۔ جارج نےدروازے پر پہنچ کر پکارا۔ ”ڈاکٹر صاحب! آجائیے!“

ڈاکٹر پنجوں کے بل چلتا ہوا آیا اور مسٹر میکلوڈ پر جھک گیا۔ اس نے ان کی نبض دیکھی۔ وہ ساکت تھی پھر چند مرتبہ چل کے رہ گئی۔
مسز میکلوڈ کا چہرہ دھوئے کپڑے کی طرح سفید پڑ گیا۔ لیکن اس کی آواز بھرائی نہیں جب اس نے کہا، ”بچو! اب تم گھر جا کر آرام کرو، تمھیں نیند لینے کی ضرورت ہے۔ تمھاری کچی عمریں ہیں۔ میں تھوڑی دیر اور تمھارے ابا کے پاس ٹھہروں گی۔“

انھوں نے ایک دوسرے کی طرف اس طرح دیکھا جیسے ماں کی بات کا مطلب سمجھ گئے ہیں۔ روتھ نے کوشش سے آنسو پئے۔ ”کمرے سے باہر نکلنے تک ضبط سے کام لو“ جارج نے اس سے کہا تھا۔

”اچھا ابا شب بخیر!“ جارج نے کہا، ”صبح کو آپ سے ملنے آئیں گے۔“

”ہاں میرے پیارے ابا۔ ہم صبح آئیں گے۔“ میری نے کہا۔ وہ اپنے باپ پر جھکی۔ اس کی ساری اُنسیت اس کے چہرے پر کھنچ آئی تھی، ”صبح کو جب خوب روشنی ہوگی!“ اس نے کہا۔

مسٹر میکلوڈ کی آنکھیں کھلیں۔۔ لیکن وہ بولے کچھ نہیں۔

تینوں بچے چلے گئے۔ ڈاکٹر بھی رکتا رکتا سا ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔

دوسرے بستر سے لڑکا دونوں بوڑھے انسانوں کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے سوچا، ’ہائے دونوں بوڑھے ہیں، اب کیا ہوگا اس کا۔۔‘ جی چاہا کہ رو دے لیکن ان پر نہیں، اپنے اوپر، کیونکہ اس کے سر پر باپ کا سایہ کبھی رہا ہی نہیں تھا۔ اور اس کی ماں اس وقت مر گئی تھی، جب وہ بچہ سا تھا۔ غرض اس کا گھر در کہیں نہ تھا۔ اس کے ساتھ یہی تو مصیبت تھی کہ اس کا کوئی نہ تھا۔ کوئی بچہ یتیم خانہ میں اور بچوں کے ساتھ پل بڑھ کر چاہے سمجھنے کو سمجھ لے کہ بس جی سب ٹھیک ہے، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔

بوڑھی عورت بوڑھے سے کہہ رہی تھی، ”بال! یہ تمام یادیں جو بچوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہیں اور تمھارے اور میرے دلوں میں تو ان سے بھی کہیں زیادہ یادیں ہیں۔ تم بڑے اچھے شوہر ہو بال۔۔ اچھے شوہر کی بیوی ضرور خوش و خرم رہتی ہے۔ میرا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ تم کماؤ پُوت ہو۔ بے شک تم کماؤ پُوت بھی ہو۔ مگر بڑی بات تو یہ ہے کہ بحیثیت انسان تم نے مجھے بہت خوش رکھا ہے۔۔ اور ہم تم نے خوش رہ کر بچوں کو خوش رکھا۔“

وہ رکی اپنی آواز پر قابو پایا۔ پھر کہنے لگی، ”میں درختوں کے اس جھنڈ کے پاس سے، جہاں تم نے مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی، اس وقت تک نہیں ہٹتی جب تک تصور کی آنکھ سے خود کو تمھیں اپنا ہاتھ تھامے ہوئے نہیں دیکھ لیتی۔“

بوڑھے کا ہاتھ بیوی کے ہاتھ کو تلاش کر رہا تھا۔ عورت نے اسے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا۔ ”میں یہ رہی میرے سرتاج! میرے پیارے! میرے پیارے!!“

اس کی آواز رندھ گئی۔۔ اور وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ ”اے خدا! میری مدد کر!!“ پھر جب اس کی آواز میں دوبارہ توانائی آگئی تو کہنے لگی، ”میں ہمیشہ اُس جھنڈ میں تمھیں کھڑا دیکھا کروں گی! وہاں سے گزرتے میں اس وقت تک جھنڈ سے آگے قدم نہیں بڑھاؤں گی، جب تک تصور کی آنکھ سے خود کو اور تمھیں پاس پاس کھڑا نہ دیکھ لوں گی!!“

”مارتھا ؟“ بوڑھے نے یہ نام اتنے آہستہ سے لیا کہ سکوت برابر قائم رہا لیکن عورت نے سن لیا۔

”ہاں ہاں! میں یہاں ہوں اور یہیں رہوں گی!“

بوڑھے نے اچانک آنکھیں کھول دیں اور بیوی کو دیکھ کر مسکرایا۔ ”اچھی۔۔۔۔ زندگی!“ اس کی آواز خاموشی میں کھو گئی۔ اس کا باتھ ڈھیلا پڑ گیا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئیں۔

بوڑھے کا آخری وقت آ پہنچا تھا۔

لڑکے کا جی چاہا کہ رونے لگے۔ وہ بچپن کے اس زمانے سے اب تک کبھی نہ رویا تھا، جب ایک بڑے لڑکے نے اس کے سر پر کچھ مار دیا تھا۔ اسے اس کے مارنے پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ مار کھانے کا تو وہ عادی تھا، لیکن اس لڑکے سے مار نہیں کھانی چاہتا تھا۔ وہ اس لیے رویا تھا کہ اگر اس کا اپنا کوئی بھائی ہوتا تو شاید اس لڑکے جیسا ہوتا۔

ادھر مسز میکلوڈ بھی رو رہی تھی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہ رہے تھے۔ چند لمحہ بعد اس نے شوہر کا ہاتھ بستر پر رکھ دیا۔ ”خدا حافظ پیارے!“ وہ بولی، ”اگلی ملاقات تک خدا حافظ!“

وہ دروازے پر گئی، ”میں اب گھر جاتی ہوں ڈاکٹر صاحب!“ اس نے ڈاکٹر سے کہا۔

وہ اندر آیا۔ ”آپ کے شوہر چل بسے۔ قصہ ختم ہو گیا! آپ نے بڑی بہادری دکھائی مسز میکلوڈ!“

”میں نے کوئی بہادری نہیں دکھائی۔۔“ وہ کہنے لگی، ”اور قصہ بھی ختم نہیں ہوا۔ وہ زندگی جو ہم دونوں نے مل کر شروع کی تھی، ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گی۔۔ وہ ابدی ہے۔“ کہہ کر وہ چلی گئی۔

”ہاں۔ بے شک“ ڈاکٹر نے بات پوری سنے بغیر ہی کہہ دیا۔
لیکن لڑکا سمجھ گیا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

وہ لیٹا ہوا چھت کی طرف دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔۔۔
پہلے اُسے معلوم نہیں تھا کہ زندگی کس لیے ہوتی ہے یا اس سے کیا مراد ہے لیکن اب جان گیا تھا۔ بات صاف تھی۔ زندگی کسی سے اتنی زیادہ محبت کرنے کے لیے ہوتی ہے کہ دونوں کا ساتھ رہنے اور گھر بنانے کو جی چاہتا ہے۔ اب اسے اس سے غرض نہ تھی کہ اسے آج تک کوئی محبت کرنے والا نہ ملا تھا یا کسی کو اس کی محبت کی ضرورت نہ ہوئی تھی۔ اب وہ خود اپنا گھر بار بنا سکتا تھا۔

”ارے جوان!“ ڈاکٹر اس پر جھکا، ”کب سے جاگ رہے ہو تم؟“

”کچھ زیادہ دیر سے نہیں۔“ لڑکا بولا، ”یہی کوئی آدھ گھنٹہ ہی ہوا ہو گا۔“

اور وہ مسکرایا باچھیں پھیلا کر لیکن ڈاکٹر پریشان ہو گیا۔

”بہت بڑی بات ہے کہ تم یہ سب کچھ دیکھ رہے ہو!“

اس نے گھنٹی بجائی نرس اندر داخل ہوئی۔

”نرس یہاں پردہ لگوا دو!“

”بہتر ڈاکٹر صاحب!“

پردہ لگوادیا گیا۔ تھوڑی دیر میں دو آدمی آئے اور بوڑھے کو اٹھا کر لے گئے۔

لڑکا کچھ نہ بولا ۔ اسے سب معلوم تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اس بوڑھے کے گھر میں سب لوگ جمع ہوں گے جارج اپنی ماں سے کہہ رہا ہوگا۔۔۔ ’تم غم نہ کرو امی! ہم اور ننھے بچے تو تمہارے پاس ہیں۔۔۔‘ پھر بھی، اس نے سوچا، وہ عورت اس بوڑھے کو کبھی بھی نہ بھول سکے گی۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔۔۔ اور۔۔۔۔ ہمیشہ کرتے رہیں گے۔

لڑکے کو چین سا آ گیا۔ اب اسے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ کیوں پیدا ہوا ہے۔۔۔۔ اور۔۔۔ اب وہ ہر گز نہیں مرے گا۔ صرف موت کی نیند سو جائے گا۔

وہ دیر سے جاگا۔۔۔ کمرہ صاف تھا۔ پردہ ہٹایا جا چکا تھا۔ دوسر ابستر خالی تھا۔ اس پر اجلی چادر ڈال دی گئی تھیں۔ کھڑکیوں میں سے دھوپ اندر آ رہی تھی۔

وہ اکیلا تھا۔۔۔۔ لیکن زندگی میں پہلی بار تنہا نہیں تھا۔ اب اسے آئندہ تنہا رہنے کی ضرورت ہیں نہیں۔ وہ اپنا گھر بسا سکتا ہے۔۔ اب اسے گھر بسانے کی ترکیب معلوم ہوگئی تھی۔ وہ ملازمت کرے گا، کسی لڑکی سے محبت کرے گا، کسی اچھی سی لڑکی سے۔۔ لڑکی اچھی ہو سکتی ہے۔ وہ بوڑھی عورت یقیناً کبھی بڑی اچھی لڑکی ہوگی۔ اور وہ بوڑھا بھی کبھی جوان رہا ہوگا۔۔ لمبا دبلا پتلا سا لڑکا، درختوں کے جھنڈ میں کھڑا لڑکی سے شادی کی درخواست کر رہا ہوگا۔ اور لڑکی فوراً مان گئی ہوگی۔

وہ بھی ایسی ہی کوئی لڑکی تلاش کرے گا۔ جو اپنے بچوں سے محبت کرے۔ کھانا پکانا جانتی ہو۔ اوربڑے دن کے درخت کو کاٹ چھانٹ کر خوب صورت بنا سکے۔ اور وہ تین پہیوں والی سائیکل! ہاں! جب وہ بچہ تھا تو اسے ایسی سائیکل کا کیسا ارمان تھا۔۔ لیکن اسے ایسی سائیکل کبھی نہ ملی۔ ایسی چیزیں انھی بچوں کو ملتی ہیں جن کے ماں باپ ہوں۔۔۔! خوش نصیب بوڑھا اتنے آرام اور سکون سے مرا تھا۔ اس کے بچے اسے رخصت کرنے آئے ہوئے تھے۔ جب کسی کو وہ سب میسر ہو، جس کے لیے زندہ رہنے میں مزا ہے تو اسے مرنا بھی بُرا نہیں معلوم ہوتا۔

نرس اندر آئی۔ اس کا لباس صاف ستھرا اور کلف دار تھا، ”ناشتہ کروگے جوان؟“ اس نے بڑی خوش آئند آواز میں پوچھا۔

وہ ہنسا اور ایک انگڑائی لی۔

”میری طبیعت اب بالکل ٹھیک ہے۔“ وہ بولا، ”کھانا کھلاؤ۔ کھانا۔۔۔ بڑی سخت بھوک لگ رہی ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close