یک طرفہ شادی (چینی ادب سے منتخب افسانہ)

یانگ چن شنگ (ترجمہ: کوثر جمال)

قریب الختم خزاں کی ایک دوپہر سے ذرا پہلے، آسمان پر دھواں دھواں بادلوں کی اڑتی ٹکڑیاں دھوپ کے راستے سے ہٹیں تو گلیا،ں جنہیں ہوا صاف کر چکی تھی، چمکنے لگیں۔ عورتیں اور بچے اپنے اپنے دروازوں کے باہر کھڑے، خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ہوا اپنے ساتھ ترم کی صدا لے کر لائی، صاف اور ماتمی۔۔

”دیکھو وہ آ گئے۔“ ایک عورت نے بگلے کی طرح اپنی گردن لمبی کرتے ہوئے کہا۔

جلوس میں شامل افراد کی ناہموار قطار نمودار ہوئی۔ انیوں نے ہاتھوں میں بینرز اٹھا رکھے تھے۔ ان کے پیچھے نیلے رنگ کی نمدہ پوش ڈولی تھی جس کے اندر ایک چوبی لوح کو لٹایا گیا تھا۔ اس کے عقب میں ویسی ہی ایک اور نیلی نمدہ پوش ڈولی تھی جس میں ایک اٹھارہ انیس برس کی لڑکی بیٹھی تھی۔ لڑکی نے ماتمی لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے سر کو ڈھانپنے والے سیاہ ریشمی کپڑے کے کنارے اس کے کندھوں پر جھول رہے تھے۔ اس کی رنگت پر پیلاہٹ کا غلبہ تھا۔ ایک بس اس کے لبوں میں کچھ رنگ موجود تھا۔

”وہ چانگ خاندان کی بیٹی ہے۔“ ایک عورت نے دوسری ڈولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک بڑھیا کو بتایا، ”وہ کہتے ہیں کہ منگنی کے چند ہی مہینوں کے بعد اس کا منگیتر چل بسا۔ اس نے تو اسے کبھی دیکھا بھی نہیں تھا۔“

”ہائے۔۔۔۔ اتنی پیاری بچی، اس کے والدین نے بھلا اس کے ساتھ کیسے۔۔۔۔ یوں۔۔۔۔“ بڑھیا کی بات مکمل ہوئے بغیر ہی اس کی کھانسی کے دورے میں ڈوب گئی۔

”کیا یہ جنازہ ہے ماں؟“ ایک چھوٹے بچے نے اپنا سر اٹھا کر اپنی ماں سے پوچھا۔

”چپ رہو،“ اس کی ماں نے سرزنش کی، ”وہ دلہن کو اپنے گھر لا رہے ہیں۔“ {۱}

”تو پھر دولہا کہاں ہے؟“ بچے نے ایک سوال کیا۔

”وہاں پہلی ڈولی میں۔“ اس کی ماں نے بے صبری سے جواب دیا۔

چھوٹے لڑکے نے غور سے دیکھا، پھر اس کا منہ تعجب سے کھل گیا۔ وہ کچھ اور پوچھنے ہی والا تھا کہ اس کی ماں مڑ کر اپنی کسی ہمسائی سے باتوں میں مصروف ہو گئی۔ بچے نے ناک بھوں چڑھا کر سر جھکا لیا۔

”وہ تو بس ایک چوبی تختی ہے۔“ وہ بڑبڑایا۔

جب وہ جلوس ایک بڑے احاطے کے گیٹ تک پہنچا تو لمبے چغوں پر چھوٹی جیکٹس پہنے دو آدمیوں نے پہلی ڈولی میں سے چوبی لوح کو اتارا۔ {۲} ۔۔۔۔ سفید ماتمی لباس میں ملبوس دو عورتوں نے دلہن کو ڈولی میں سے اترنے میں مدد دی۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھے، چوبی تختی آگے، دلہن اس کے پیچھے، دونوں کو تقریباً دس فٹ لمبے سیاہ ریشمی کپڑے سے گرہ لگائی گئی تھی۔ بینڈ خوفناک دھنیں بجا رہا تھا۔ وہ نیلے رنگ کے قالین پر ساتھ ساتھ کھڑے ہو گئے۔۔ چوبی تختی بائیں طرف، لڑکی دائیں طرف۔۔۔ وہ زمین و آسمان کے سامنے اور پھر آبا کی مقدس یادگار کے سامنے جھک کر آداب بجا لائے، پھر وہ ہال کمرے میں داخل ہوئے اور دولہا کے باپ اور ماں کے سامنے جھک گئے۔ اس کے بعد ایک بار پھر تختی کی سربراہی میں دلہن اس کے پیچھے، سیاہ رشیم کی گرہ سے بندھی ہوئی، وہ حجلہ عروسی میں داخل ہوئے۔

جب وہ کمرے میں داخل ہوئے تو ان کے عین سامنے قربانی کی میز تھی جس پر دولہا کی لوح افقی طور سے رکھی گئی تھے۔ تیل سے جلنے والا لیمپ میز کے سامنے دھرا تھا۔ اس کی لو سے نیلے رنگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ کھڑکی کے ساتھ پڑے تانبے کے پلنگ پر سفید براق چادر بچھی تھی۔ تکیوں کے غلافوں پر نر اور مادہ بطخوں کی تصویریں کڑھی ہوئی تھیں۔ {۳}

اس رات دیر گئے جب ہر طرف سناٹا چھا گیا تو دلہن یادگاری لوح کے برابر ایک کرسی پر بیٹھ کر اپنی سیج کو دیکھنے لگی۔ مغربی ہوا کا ایک جھونکا کھڑکی کے راستے کمرے میں داخل ہوا، جس سے لیمپ کی لو تھرتھرائی اور دھوئیں کا مرغولہ کسی تاریک سائے کی طرح اس میں سے نمودار ہوا۔ باہر، بانس کے پتے ایک عالمِ بے چینی میں پر شور سرسراہٹ پیدا کر رہے تھے۔

بہار ختم ہونے کو تھی، جب ایک سہ پہر کو دلہن سوتے سے بیدار ہوئی اور گھر کے پائیں باغ میں چلی گئی۔ ہوا میں پھولوں کی مہک بسی ہوئی تھی۔ اسے اس سمے اپنے اعضا میں لذت بھری نرمی اور سکون کا احساس ہوا۔ بیدِ مجنوں کی لمبی لچکدار ٹہنیوں کے سرے دہرے تہرے ہو کر زمین پر گیندوں کی طرح لڑھک رہے تھے۔ تتلیوں کے جوڑے پھولوں میں سے نکلے اور اس کے چہرے کو چھو کر ناچتے کودتے گزر گئے۔ اس نے عالمِ بیکاری میں بید کی کچھ نازک ٹہنیاں توڑیں اور سنگی باغیچے کے ایک پتھر پر کچھ بنانے کو بیٹھ گئی۔ لیکن کیا؟ وہ کچھ بھی سوچ نہ سکی۔

اس نے ایک نظر گلِ ہائے لالہ کو دیکھا۔ ان کی نصف پتیاں جھڑ چکی تھیں۔ وہ جو ابھی عالمِ غیر یقینی میں اپنی مسند سے جڑی ہوئی تھیں، ہوا کے کسی جھونکے کے رحم و کرم پر تھیں۔ چڑیوں کا ایک جوڑا خاک نشین پتوں پر بنے اپنے آشیانے میں اپنے پر جھاڑ رہا تھا، چونچوں سے چونچیں ملا رہا تھا، ڈوبتے سورج کی نارنجی روشنی میں محبت کرنے میں مصروف تھا۔ دو گلہریاں ایک شاخ پر سے کود کر نیچے آئیں تو چڑیاں پر پھڑپھڑاتی ہوئی اڑ گئیں، ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے ساتھ ہی پھولوں کی کئی پتیاں زمین پر آ رہیں۔ گلہریاں بھی جس تیزی سے آئی تھیں، اسی تیزی سے بھاگ گئیں۔

لڑکی حقیقت کی دنیا میں واپس آئی تو اسے احساس ہوا کہ اس نے بید کی نازک ٹہنیوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کتر دیا تھا۔ یہ ٹکڑے زمین پر جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ اس نے کھڑے ہو کر ہاتھوں سے اپنے کپڑوں کو ہموار کیا۔ پھر وہ مردہ دلی سے قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں واپس چلی آئی۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کا چہرہ کسی آگ سے جل رہا تھا۔ اس نے آئنے میں خود کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر سفید اور گلابی دھبوں کا پھیلاو تھا۔ اس کے گال قرمزی پھولوں سمان تھے۔ وہ کچھ قدم پیچھے ہٹ کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ بے جان نگاہوں سے اس نے چوبی تختی کو دیکھا۔

دوسری صبح اس نے اپنے کمرے سے باہر قدم نہیں رکھا۔۔ حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں، جب دھوپ نے کمرے کے دریچے روشن کر دیے تھے۔ ایک ملازمہ کئی بار صبح کے غسل کے لیے پانی لے کر آئی لیکن لڑکی کا دروازہ بند رہا۔ کمرے کے اندر مکمل خاموشی تھی۔ ملازمہ کو کچھ شک گزرا تو اس نے کھڑکی میں سے اندر جھانکا۔ اور کسی منظر کی دید نے اسے خوف سے گنگ کر دیا۔ پھٹی آنکھوں کے ساتھ وہ دولہا کی ماں، مادام لی کے کمرے کی طرف بھاگی۔ کتنی ہی ساعتیں گزر جانے کے بعد وہ یہ کہ پائی: ”دولہن نے پھندا لگا لیا۔“

نوٹس:
{۱} ۔۔۔ قدیم چین میں منگنی کے بعد اگر لڑکے کا انتقال ہو جاتا تو اس کی منگیتر کو "یک طرفہ شادی” کی ساری رسوم سے گزر کر اپنے سسرال میں ایک بیوہ کی سی زندگی گزارنا پڑتی تھی۔
{۲} قبل از انقلاب کے چین میں لمبے چغوں پر جیکٹیں پہننا شرفا اور امیر طبقے کے مردوں کا پہناوا تھا۔
{۳} نر اور مادہ بطخوں کا جوڑا مرد و زن کی دائمی محبت اور جڑت کی علامت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close