کوئی نہ سر اٹھا کے چلے۔۔ (افسانہ)

امر گل

شہر کا آسمان سرمئی تھا، جیسے حقیقت اور فریب کے درمیان کشمکش جاری ہو۔ لوگ سڑکوں پر چلتے، اپنی دنیا میں مگن تھے، لیکن ان کی نظروں میں ایک عجیب سا خالی پن تھا۔ اس شہر کا ہر کونہ محرومی کی ایک داستان سنا رہا تھا، لیکن وہ داستانیں کہیں دفن تھیں، حکومت کے پھیلائے ہوئے پروپیگنڈا کی دبیز تہہ کے نیچے۔۔

یہ ایک ایسے ملک کا شہر تھا، جہاں صرف جھوٹ اور دھوکہ دہی، بدعنوانیوں اور جبر کا دور دورہ تھا۔ ہر ٹی وی چینل، ہر اخبار اور ریڈیو تک حکومت کے قابو میں تھا۔ خبریں اس طرح ترتیب دی جاتیں کہ حقیقت کہیں پیچھے رہ جاتی، اور لوگوں کو وہی دکھایا جاتا جو حکومت چاہتی تھی۔

اسی ماحول میں، ایک نوجوان، نبیل، اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ نبیل ایک عام آدمی تھا، مضطرب دل اور بے چین روح کا مالک ، جس کے اندر ایک اضطراب تھا، ایک ایسی آگ جو اسے حقیقت جاننے اور لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے پر مجبور کرتی تھی۔ اس مقصد کے لیے نبیل کا واحد سہارا سوشل میڈیا تھا، ایک ایسا آئینہ جو حکومت کی چمکتی ہوئی دیواروں کے پیچھے چھپی سچائی دکھاتا تھا۔

ایک دن، نبیل نے اپنے فون پر ایک ویڈیو دیکھی۔ یہ ویڈیو ایک چھوٹے سے گاؤں کی تھی، جہاں حکومت نے ترقیاتی منصوبے کے نام پر لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ ویڈیو میں دکھایا گیا کہ لوگ کیسے اپنی زمین کے چھن جانے پر رو رہے تھے، اور حکومتی مشینری ان کی فریادوں کو کچل رہی تھی۔ نبیل کے دل میں ایک چبھن ہوئی۔ یہ وہ کہانی تھی جو مین اسٹریم میڈیا نے کبھی نہیں دکھائی۔۔ وہاں صرف ترقیاتی منصوبے کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا۔

نبیل نے فیصلہ کیا کہ وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ اس نے ویڈیو کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر شیئر کیا اور اس کے ساتھ ایک آرٹیکل لکھا: ’حقیقت کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔‘ یہ پوسٹ تیزی سے وائرل ہو گئی۔ لوگ اسے دیکھنے اور پڑھنے لگے، یوں سچائی کا آئینہ کئی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔

مگر جیسے ہی یہ پوسٹ حکومت کی نظر میں آئی، نبیل کی زندگی بدل گئی۔ ایک دن، اس کے گھر پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو باہر چند لوگ کھڑے تھے۔۔

”نبیل خان؟ تمہیں شرپسندی کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے،“ ایک تند مزاج افسر نے ترش لہجے میں کہا، اور اس کے ساتھ ہی افسر کے پاس کھڑے سپاہیوں نے نبیل کو پکڑ لیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے، لیکن نبیل کے چہرے پر ڈر کے بجائے ایک عجیب سا سکون تھا۔

دوسری طرف، حکومت نے سوشل میڈیا پر سخت پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ نئے قوانین نافذ کیے گئے، اور جو لوگ ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف بات کرتے، انہیں یا تو غائب کر دیا جاتا یا شرپسند قرار دے دیا جاتا۔ لیکن آوازیں تھیں، کہ دبنے کی بجائے مزید بلند آہنگ کے ساتھ پھیلتی جا رہی تھیں۔۔

گرفتاری کے بعد کئی دنوں تک نبیل کا کچھ پتا نہ چلا۔۔ اس کی آزادی کے لیے لوگوں نے آواز بلند کرنا شروع کی، پھر ایک دن اچانک اس کی گرفتاری کو ظاہر کرکے اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔۔ جہاں اس کی حالت دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ اسے شدید تشدد اور تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ عدالت نے نبیل کو جیل بھیج دیا۔

اسے ایک چھوٹے سے سیل میں، جہاں صرف ایک دھندلی روشنی کی کرن آتی تھی، رکھا گیا، جہاں دیگر قیدی بھی موجود تھے۔ ان سب کی حالت ناگفتہ بِہ تھی۔ یہ سب قیدی بھی مختلف وجوہات کی بنا پر حکومت کے عتاب کا شکار تھے، لیکن ان سب میں ایک چیز مشترک تھی: سچ بولنے کا جذبہ۔۔ جو اس دیس میں اک گناہ اور جرم ٹھہرا دیا گیا تھا۔۔

رات کے وقت، جب تمام قیدی دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے، نبیل نے گفتگو شروع کی، ”آپ سب یہاں کیوں ہیں؟“

ایک بوڑھا شخص، جس کی آنکھوں میں تلخ تجربوں کی جھلک تھی، بولا: ”میں ایک استاد ہوں۔ میں نے اپنے شاگردوں کو سچائی سکھانے کی کوشش کی۔ حکومت کو یہ پسند نہیں آیا کہ میں نے سرکاری نصاب سے ہٹ کر سوالات اٹھائے۔“

”آپ کو خوف نہیں ہوا؟“

”خوف؟ خوف تو تب ہوتا جب میں جھوٹ کے ساتھ سمجھوتا کرتا۔ سچ بولنا آسان نہیں، لیکن اگر ہم نہ بولیں گے، تو کون بولے گا؟“

ایک قیدی نے ہنستے ہوئے کہا، ”میں ایک رپورٹر تھا۔ ایک دن حکومت نے دعویٰ کیا کہ شہر کی تمام سڑکیں بالکل درست حالت میں ہیں اور بارش کے دوران بھی ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔ لیکن میں نے ویڈیو بنائی جس میں وزیر صاحب اپنی گاڑی سمیت سڑک کے بیچوں بیچ گڑھے میں پھنسے ہوئے تھے۔ ویڈیو وائرل ہو گئی، اور مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ویڈیو جعلی تھی اور گڑھے میں پھنسنا دراصل ایک منصوبہ بند معائنہ تھا!“

ایک نوجوان، جس کے ہاتھوں پر شکنجے کے نشانات تھے، دھیمی آواز میں بولا، ”میں ایک کسان ہوں۔ ہماری زمینیں ترقیاتی منصوبے کے نام پر ہم سے چھین لی گئیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو ڈالی تھی، اور اگلے دن مجھے اٹھا لیا گیا۔“

نبیل نے اس کی طرف دیکھا، ”تم نے ہار کیوں نہیں مانی؟“

”کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میری آنے والی نسلیں سچائی کے ساتھ زندہ رہیں، جھوٹ کے ساتھ نہیں۔“

ایک گوشے میں بیٹھا شخص، جو اب تک خاموش تھا، اچانک بولا، ”میں نے حکومت کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ میرے بھائی کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اور میں نے یہ کہانی دنیا کو بتائی۔ وہ مجھے ملک دشمن کہتے ہیں، لیکن میرے دل میں بس ایک ہی سوال ہے: سچائی کب سے دشمن بن گئی؟“

ایک اور قیدی، جس کے بڑے بال اس کے چہرے پر بکھرے ہوئے تھے، ہنسی دباتے ہوئے بولا، ”میری گرفتاری کا سبب یہ تھا کہ میں نے ایک تقریب میں جبر کے اس نظام کا مذاق اڑایا۔ میں نے کہا تھا کہ اب یہ حکمران کہیں گے کہ شہد کی مکھیاں بھی ہماری حکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں زیادہ شہد بنا رہی ہیں۔۔ بس، وہ بات انہیں پسند نہ آئی!“

چند قہقہے بلند ہوئے۔۔ لیکن اس ہنسی کے پیچھے ایک گہری تلخی چھپی ہوئی تھی۔۔ اور پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ شخص گویا ہوا، ”ایک بار میں نے لکھا کہ اب یہ حکومت کہیں یہ دعویٰ نہ کر بیٹھے کہ وہ ایک ایسا منصوبہ لا رہے ہیں، جس کے تحت مرغی کے انڈے سے بجلی پیدا کی جائے گی۔۔ اس پر انہیں اتنی چڑ لگی کہ انہوں نے مجھے ملکی ترقی کا دشمن قرار دے کر یہاں ڈال دیا۔“

ایک ادھیڑ عمر قیدی، جس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے، زید کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ”تم نوجوان ہو، تمہارے پاس وقت ہے۔ ہم نے اپنی زندگیاں دی ہیں، لیکن تمہیں امید کا دیا جلانا ہوگا۔ جیل کی دیواریں اونچی ضرور ہیں، مگر سچ کی آواز ان سے بھی بلند ہوتی ہے۔“

نبیل نے عزم کے ساتھ جواب دیا، ”یہ دیواریں ہمیں وقتی طور پر قید کر سکتی ہیں، لیکن ہمارے الفاظ ان دیواروں کے پار جا رہے ہیں۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔“

رات گہری ہو چکی تھی۔ سب قیدی اپنے اپنے کونوں میں بیٹھ گئے، لیکن ان کے دلوں میں ایک عجیب سی روشنی تھی۔ نبیل نے چاند کی طرف دیکھا اور خود سے کہا،
”سچائی وہ شعلہ ہے جسے جتنا دبایا جائے، اتنا ہی بھڑکتا ہے۔“

نبیل کو جیل میں کئی دن ہو چکے تھے، لیکن اس کے اندر کا اضطراب تھما نہیں تھا۔ جیل کی دیواریں اونچی تھیں، مگر نبیل کا جذبہ ان سے کہیں بلند تھا۔

نبیل کی گرفتاری کے بعد، اس کی پوسٹیں اور ویڈیوز مزید مقبول ہو گئیں۔ لوگ اسے ایک ہیرو کے طور پر دیکھنے لگے۔ نوجوان نسل نے نبیل کے نظریے کو اپنایا اور سچ کی تلاش میں مزید سرگرم ہو گئی۔ جیل میں نبیل کی آواز بند تھی، لیکن باہر اس کے الفاظ گونج رہے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close