ایک روز گھر لوٹتے ہوئے بچاری بینک کلرک کی نظر پوستینیں بیچنے والے کی دُکان کی الماری میں سرخ لومڑی کی پوستین سے بنے کوٹ پر پڑی۔ وہ باہر رک گئی۔ اُسے خوشی بھری جھرجھری محسوس ہوئی اور اُس کے اندر خواہش جاگ اُٹھی۔ یہی وہ کوٹ تھا، جس کی اُس نے ہمیشہ تمنا کی تھی۔ اُس نے دھاتی ریک میں لٹکے اور زربفت کے سونے پر آراستہ کیے گئے دوسرے کوٹوں پر نظر دوڑاتے ہوئے سوچا کہ اُس جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ وہ نایاب تھا اور بے مثل بھی۔ اُس نے اُس سے قبل ایسا رنگ نہیں دیکھا تھا، چمکدار تانبئی کے ساتھ سنہرا رنگ۔۔ وہ اتنا بھڑکیلا تھا جیسے آگ پر رکھا ہوا ہو۔
وہ اندر داخل ہونے کے ارادے سے دروازے کو دھکیلنے ہی لگی تھی کہ دُکان بند ہو گئی۔ وہ اگلے روز جتنی جلد ممکن ہو سکا واپس آئے گی، دو پہر کے کھانے کے وقفے کے دوران یا صبح کےوقت۔ ہاں، وہ صبح کے وقت کسی بھی بہانے سے کھسک لے گی۔
اُس رات وہ بہت کم سوئی اور بار بار پریشانی اور اضطراب محسوس کرتی رہی۔ اُس نے دُکان کھلنے تک کا وقت لمحہ لمحہ گن کر گزارا۔ اُس کی نظریں متعدد افراد کو بھگتانے کے دوران دیوار گیر کلاک سے کلائی کی گھڑی کا سفر کرتی رہیں۔ جیسے ہی اُسے دُکان پر جانے کا موقع ملا وہ بھاگ نکلی ۔ اُسے اس خیال ہی سے جھرجھری آ رہی تھی کہ کوٹ بِک نہ گیا ہو۔ یہ دیکھ کر کہ کوٹ ابھی تک فروخت نہیں ہوا تھا، اُس کی سانس میں سانس آئی، دل کی دھڑکن متوازن ہو گئی اور اُسے محسوس ہوا کہ اُس کے چہرے پر اکٹھا ہو جانے والا خون پھر سے رواں ہو گیا تھا۔
”یہ آپ ہی کے لیے بنا ہے۔“ جب بینک کلرک نے کوٹ پہن کر آئینے میں اپنا جائزہ لیا تو سیلز وومن نے کہا، ”یہ کندھوں اور کمر پر مکمل طور پر پورا آیا ہے اور اس کی لمبائی بھی بالکل ٹھیک ہے۔۔ اور یہ سچ مچ آپ کی جِلد سے لگا کھاتا ہے۔۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اسے خرید لینے کے لیے آپ پر دباؤ ڈال رہی ہوں ۔“ اُس نے جلدی سے اضافہ کیا۔ ”ظاہر ہے کہ آپ اپنی پسند کے انتخاب میں آزاد ہیں لیکن اگر آپ میری بات کا بُرا نہ مانیں تو واقعی یوں لگتا ہے جیسے یہ کوٹ آپ ہی کے لیے بنا ہو، صرف آپ کے لیے۔۔“ اُس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ دوبارہ کہا۔
”یہ کتنے کا ہے؟“ بینک کلرک نے تھوڑا سا مڑ کر کوٹ کی جھولتی ہوئی سنجاف کو ٹھیک کیا۔ اُسے آئینے میں اپنے عکس پر سے نظریں ہٹانا دشوار ہو رہا تھا۔
جواب سن کر اُسے دھچکا لگا۔ وہ ہکا بکا رہ گئی۔ اُس کی قیمت اُس کی سوچ سے بہت زیادہ اور اُس کی استطاعت سے پانچ گنا زائد تھی۔
”اگر آپ چاہیں تو ہم قیمت کی قسطیں بھی کر سکتے ہیں۔“ سیلز وومن نے شفقت سے کہا۔
بینک کلرک نے سوچا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنی چھٹیوں کی قربانی دے سکتی تھی یا کار کے لیے جو قرض وہ لینے والی تھی، اُس کی کچھ رقم منتقل کر سکتی تھی۔ وہ حرارت کے لیے ایندھن اور کھانے کی مقدار کم کر سکتی تھی۔ واقعی یہی اُس کے لیے بہتر بھی تھا کیوں کہ اُس کا وزن بھی کچھ بڑھ گیا تھا۔
”ٹھیک ہے۔“ وہ اپنے ذہن میں حساب کتاب لگاتے ہوئے بولی، ”میں تمہیں کچھ جمع کروا دوں گی اور اگلے ہفتے سے ادائیگی شروع کروں گی۔ لیکن اب یہ حتماً میرا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟“
”یقیناً۔“ سیلز وومن نے کوٹ پر ’فروخت شد‘ کی چٹ لگاتے ہوے جواب دیا، ”آپ اسے تیسری قسط کی ادائیگی کے بعد لے جا سکتی ہیں۔“
اُس نے کھڑکی سے کوٹ کو دیکھنے کے لیے ہر رات دُکان بند ہو جانے کے بعد، جب اُسے دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا، آنا شروع کر دیا اور ہر بار اُس نے اُسے زیادہ لطف دیا۔ ہر بار وہ زیادہ تاباں، زیادہ شعلہ فشاں نظر آیا، سُرخ شعلوں کی طرح جو جلتے نہیں بلکہ اُس کے بدن پر نرمی سے حرکت کرتے ہوں۔۔ جیسے دبیز، کشادہ اور تہہ دار جلد جو اُس کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتی ہو۔
اُس کی ویسے ہی تحسین کی جائے گی جیسے وہ کر رہی تھی۔ لوگ اُسے مڑ مڑ کر دیکھیں گے لیکن اُس کے اندر مسکراہٹ اس وجہ سے نہیں پھوٹ رہی تھی بلکہ اُسے ادراک ہوا کہ کہ اندرونی طمانیت، مہم تیقن اپنے آپ کے ساتھ متوازنیت کی بناء پر تھا، جو ہر روزن سے بہہ رہی تھی۔ اُسے یوں لگ رہا تھا جیسے اُس کی سانسوں کا ردھم تبدیل، پُر سکون اور گہرا ہو چکا تھا۔ اُس پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ شاید ایسا بہت عرصے سے تھکن محسوس نہ کرنے کی وجہ سے تھا۔ وہ پھرتیلی اور اُس کے قدم سرعت بھرے ہو گئے تھے۔ اُس کی ہر شے ہلکی اور سبک ہو گئی تھی۔ اُس کی کمر، کندھے اور ٹانگیں سب کچھ بہ آسانی حرکت کر رہے تھے۔
اُس نے سوچا کہ اُس کا سب کچھ اس لیے بالکل ٹھیک کام کر رہا تھا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر اُس نے باقاعدگی سے ورزش کرنا شروع کر دی تھی۔ چند مہینوں سے وہ ٹریک پر دو گھنٹوں کی دوڑ لگا رہی تھی لیکن اُسے جنگل میں، شہر کی بیرونی پٹی پر دوڑ لگانا بہت پسند تھا، جہاں پیروں کے نیچے مٹی کی چرمراہٹ اور جس جگہ اُس کے قدم پڑتے تھے اُس زمین سے مختلف طور پر مکمل اور قریبی تعلق کا احساس ہوتا تھا۔ وہ اپنے بدن کی بہت اچھی طرح شناسا تھی۔ وہ اب زیادہ زندہ اور چست تھی۔ اُس کی تمام حسیات تیز ہو گئی تھیں۔ وہ دور کی آوازیں بھی سن سکتی تھی۔ حتیٰ کہ ایسی بہت مدھم آوازیں بھی جو پہلے سنائی نہیں دیتی تھیں، مثلاً چلیپائیہ کا پتوں پر تیز تیز قدموں سے بھاگنے، چھپے ہوے چوہے کا کسی ننھی سی شاخ کو کترنے، بلوط کے پھل کے زمین پر گرنے، پرندے کے جھاڑی پر بیٹھنے کی آوازیں۔۔
وہ ماحول میں آنے والی تبدیلیوں کا، جیسے ہوا کے رخ کی تبدیلی، فضا میں رطوبت کی بڑھوتری، بارش کا سبب بننے والا ہوا کا دباؤ ، قبل از وقت ادراک کر سکتی تھی۔۔ اور پھر تمام چیزوں کے ایک اور پہلو کا بھی اُسے حتمی ادراک ہونے لگا تھا۔ اُس نے بوؤں کو دریافت کر لیا تھا۔ بوؤں کی ایک پوری دنیا تھی۔ وہ رستوں اور پگڈنڈیوں کو محض اُن کی بُو کی وجہ سے پا سکتی تھی۔ یہ حیرت ناک بات تھی کہ اس سے قبل اُس نے اس پر توجہ نہیں دی تھی کہ ہر شے کی ایک بُو ہوتی ہے۔ زمین، درختوں کے تنوں، پودوں، پتوں، حتیٰ کہ ہر جانور بھی اپنی مخصوص بُو کی بناء پر علیحدہ طور پر شناخت کیا جا سکتا تھا۔ بوؤں کی ایک مکمل محراب جو اُس تک ہوا کی لہروں کے دوش پر پہنچتی تھی، جنہیں وہ اکٹھا اور الگ الگ غیر محسوس طور پر اپنا سر اُٹھا کر ہوا میں سونگھ کے محسوس کر سکتی تھی۔
وہ اچانک ہی جانوروں میں غیر معمولی دلچسپی لینے اور انسائیکلو پیڈیاؤں کے اوراق پلٹ پلٹ کر سفید ، نرم اور نازک پیٹ والے خار پشت، غیر یقینی طور پر تیز رفتار ، اچھلتے کودتے اور سبک رو خرگوش کی تصویر میں دیکھنے لگی تھی۔ وہ پرندوں کے جسموں کا بغور معائنہ کرتی اور اُن کے پروں کے نیچے موجود گوشت کی نرمی پر غور کرتے ہوئے سحر زدہ ہو جاتی۔ تب اُس کے ذہن میں مسلسل ایک ہی لفظ کی تکرار ہونے لگی: ماقبل تاریخ کا۔
اُسے خیال آیا کہ اُسے بہت بھوک لگی تھی۔ اس نے کتابیں رکھیں اور باورچی خانے میں چلی گئی۔ ورزش کے اس منفی پہلو نے اُسے از حد نا خوش کیا۔ اُس نے کچھ کھانے سے گریز کرنے کی کوشش کی اور کوئی اور شے تلاش کی۔ کھانے پینے کی پہلے والی چیزوں کو اُس کا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ اُسے وہ چیز نہیں ملی جس کی وہ متلاشی تھی۔ کافی کی بُو اُس کے لیے نفرت انگیز ہو گئی تھی اور اُس سے اُسے متلی ہونے لگی تھی۔ نہیں، اُسے تو کچھ اور ہی چیزوں کی اشتہا تھی اگرچہ وہ نہیں جانتی تھی کہ اُسے کس شے کی بھوک تھی، شاید پھل کی۔۔ وزن کم کرنے کا یہ بہترین موقع ہو سکتا تھا۔ اُس نے کثیرمقدار میں انگور اور سیب خریدے اور اُنہیں ایک ہی دن میں چٹ کر لیا۔ لیکن اُس کی بھوک ختم نہیں ہوئی تھی، ایک پوشیدہ بھوک جو اُسے اندر سے کاٹتی تھی اور کبھی ختم نہیں ہوتی تھی۔
ایک غیر متوقع پارٹی کی دعوت ملنے پر اُسے بہت خوشی ہوئی کہ یہ تبدیلی اُسے اپنی بے ہودہ اشتہا کو بھول جانے میں مدد دے گی۔ پارٹی کی تیاری کے لیے لباس تبدیل کرنے، ہونٹوں پر سرخی لگانے اور ناخنوں کو گلنار بنانے کے عمل سے اُسے لطف ملا۔ اُس نے دیکھا کہ اُس کے ناخن بہت لمبے تھے۔ حتٰی کہ اُس کے ہاتھ بھی پہلے سے زیادہ حساس اور لمبے لگ رہے تھے۔
اُس نے اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر سوچا کہ وہ اُس رات پارٹی میں جس کو بھی چھوئے گی، وہ ہمیشہ کے لیے اُس کی طاقت کے زیرِ اثر آجائے گا۔ اُسے لگا کہ اُس کے چہرے پر بلی کی سی مسکراہٹ تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں بھینچیں اور مسکراہٹ کو اپنے پورے چہرے پر پھیلا لیا، جس سے اُس کے چہرے کی بناوٹ نے دل فریب مستطیلی شکل اختیار کر لی، جسے اُس نے میک اپ سے مزید نمایاں کیا۔
پارٹی کے وسط میں اُس نے دیکھا کہ ایک شخص گوشت کے قتلے بنا رہا تھا۔ اُسے خیال آیا کہ ہلکا ہلکا بھنا ہوا بڑے کا گوشت: گو اس کے لیے ان الفاظ کے معنی یکا یک ختم ہو گئے تھے۔ اُس نے ہاتھ بڑھایا اور ایک سالم قتلہ نگل گئی۔ آہا، تقریباً کچے گوشت کا ذائقہ، اُسے دانت گھسیڑنے کے عمل، خون پھوٹ نکلنے، زبان پر اور منھ میں خون کا ذائقہ، سالم قتلے کو ہڑپ کر جانے کی معصومیت کا خیال آیا اور اُس نے پہلے سے ہی محسوس کرتے ہوئے کہ ہاتھ کا استعمال محض وقت کا زیاں تھا اور اُسے براہ راست منھ سے اُٹھانا چاہیے، ایک اور قتلہ اُٹھا لیا۔
اُس کے قہقہے پھوٹ نکلے اور وہ خون میں لتھڑے اپنے ہاتھ ہوا میں لہرا لہرا کر رقص کرنے لگی۔ اُسے اپنا خون بھی جوش مارتا ہوا محسوس ہونے لگا، جسے کسی اندرونی ہنگامہ پرور طاقت کو آزاد کر دیا گیا ہو، ایک مضرت رساں طاقت جو وہ دوسروں میں منتقل کر سکتی تھی، ایک وبا یا بددعا لیکن یہ خیال با ایں ہمہ مزے دار، پُر سکون اور تقریباً مسرت خیز تھا۔ اُسے محسوس ہوا جیسے وہ جھومنے لگی ہو۔ اُس پر دھیما سا نشہ طاری ہو گیا تھا۔ وہ اپنے ہی قہقہوں کی گونج سن رہی تھی۔
تمام رات وہ اُن نئی آزاد ہونے والی طاقتوں کی حکمرانی میں بسر کرے گی اور صبح ہوتے ہی جا کر کوٹ حاصل کرے گی کیوں کہ وہ دن آ چکا تھا، جب اُس نے اُس کی ملکیت بننا تھا۔ وہ اُس کے وجود کا حصہ تھا۔ وہ اُسے بند آنکھوں سے بھی صرف چھو کر پہچان لے گی۔ اُس کی جلد جلاتی ہوئی، اُس کے ریشوں کو نوچتی ہوئی نرم، موٹی کھال جب تک کہ وہ جلد ہی جلد کو جلد سے راغب نہ کر لیتی۔
”یہ آپ ہی کے لیے بنا ہے۔“ سیلز وومن نے ہینگر سے کوٹ اُتارتے ہوئے دوبارہ کہا۔
کوٹ اُسے نوچنے لگا تا آنکہ وہ جلد ہی جلد کو جلد سے راغب نہ کر لیتی۔ جیسے ہی اُس نے آئینے میں دیکھا اور جیسے ہی کالر کو اپنے سر کے گرد منڈھا اُس کے خدو خال بگڑنے لگے۔ اُس کا چہرہ اچانک ہی دبلا پتلا ہو کر لمبا نظر آنے لگا۔ اُس کی آنکھیں تنگ، بے قرار اور جلن بھری۔۔۔
”خدا حافظ اور شکریہ۔“ اُس نے تیزی سے دُکان سے نکلتے ہوئے کہا۔
اُسے ڈر تھا کہ وقت کم ہے اور لوگ چوکنا ہو کر اُسے دیکھنے کے لیے ٹھہر جائیں گے کیوں کہ اچانک ہی چاروں پیروں پر آنے اور بس دوڑتے جانے کی شدید تمنا شدت اختیار کر گئی تھی۔ اُس کا بدن نئی ساخت حاصل کر رہا تھا اور اُس کے جانور والے جسم کو دریافت کر رہا تھا۔ اُسے دوڑنے اور اُس نے شہر کو پیچھے چھوڑنے اور بس بھاگتے جانے سے پہلے کار تک پہنچنے کے لیے بشری استطاعت سے زیادہ کوشش کرنا پڑی تھی۔ اُسے اپنے بدن اور اُس کی کپکپاہٹ پر صرف مزید ایک منٹ کے لیے دروازے کو دھڑام سے بند کرنے سے پہلے سختی سے قابو رکھنا پڑا تھا۔ آخر کار اپنی پشت اور دُم کو ہلاتے، فضا، زمین، ہوا کو سونگھتے، لطف و انبساط بھری چنگھاڑ مارتے ہوئے اُس نے اپنے پیروں پر پہلی اصلی چھلانگ لگائی اور جنگل کی پنہائیوں میں غوطہ لگا گئی۔