جنوب مغربی پاکستانی صوبہ بلوچستان کے علاقے پنجگور اور ایرانی علاقے سرآوان میں ہونے والے دو طرفہ فوجی کارروائیوں کے دوران مقامی بلوچ آبادی کو شدید جانی اور مالی نقصانات پہنچنے کی اطلاعات کی تصدیق ہوئی ہے۔
پاک ایران سرحدی علاقوں میں فضائی حملوں سے خطے میں شدید کشیدگی پھیل گئی ہے۔ پاکستان نے ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں مزید فوجی دستوں کو طلب کیا ہے۔ ایران نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی جوابی فضائی کارروائی کے دوران سرآوان میں جو افراد ہلاک ہوئے ہیں، وہ ایرانی شہری نہیں تھے۔
ایران کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی سے سرحدی علاقوں کے رہائشی خوف زدہ جبکہ تاجر اور ایرانی تیل کا کام کرنے والے مزدور پریشان ہیں۔
دوسری جانب جیش العدل کا کہنا ہے کہ ہماری تنظیم کا پاکستانی سرزمین پر کوئی وجود نہیں
پاکستان نے پنجگور سے ہی متصل ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان کے ضلع سراوان میں داغے گئے میزائل حملوں میں بلوچستان میں سرگرم عسکریت پسند تنظیموں بلوچ لبریشن فرنٹ اور بلوچ لبریشن آرمی کے کم از کم پانچ عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا۔ ایران نے اس کارروائی میں نو غیرایرانی باشندوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔
قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ’ایران میں میزائل حملوں میں بلوچ مہاجرین نشانہ بنے۔‘
بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان نے سرحد کے قریب تقریباً سات اہداف کو نشانہ بنایا تاہم ان حملوں میں سب سے زیادہ نقصان جس علاقے میں ہوا، وہ سراوان کا علاقہ شمے سر اور حق آباد کہلاتا ہے۔
حق آباد پاکستانی ضلع پنجگور سے تقریباً ایک سو کلومیٹر دور تحصیل پروم کے قریب واقع ہے۔ پروم کے ایک مقامی رہائشی محمد ظاہر بلوچ بتایا ’حق آباد پہلے شمے سر کہلاتا تھا اور پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد کی حد بندی سے قبل یہ پاکستانی حدود میں آتا تھا۔‘
ایران کی کارروائی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے سرحد کے قریب رہنے والے افراد خوف زدہ ہیں۔
ظاہر بلوچ کے مطابق ’پاکستان اور ایران کی کشیدگی سے سرحد کے قریب رہنے والے تمام لوگ کافی پریشان ہیں۔ چند برس قبل تک ایران کی سے جانب مارٹر گولے داغے جاتے تھے یا کبھی اس کی جانب سے فائرنگ ہوتی تو پاکستانی اہلکار بھی جوابی فائرنگ کرتے۔ اس دوران کئی بار مقامی آبادی بھی ان کا نشانہ بنتی اور جانی نقصان اٹھاتی۔ اب کچھ برسوں سے صورتحال بہتر تھی مگر ایران کی جانب سے جارحانہ اقدام نے دوبارہ خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس سے سب سے زیادہ سرحد کے قریب رہنے والی آبادی متاثر ہوگی۔‘
پروم کے ایک اور رہائشی رحیم بلوچ نے بتایا کہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں کی طرح یہ سرحدی علاقہ بھی زیادہ تر خشک اور بنجر ہے اور زراعت بہت کم ہے۔ ایرانی تیل کے علاوہ یہاں کاروبار کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔
ان کا کہنا تھا ’تین چار برسوں سے صورتحال بہتر تھی، اب اگر کشیدگی بڑھ گئی تو ہمیں خطرہ ہے کہ ایک بار پھر مقامی آبادی اس کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ اسی طرح سرحد پر آمد و رفت میں رکاوٹیں اور ایرانی تیل کے کاروبار پر بھی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔‘
پروم کی سرحد پر تعینات ایک پاکستانی لیویز اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پاکستان کی جوابی کارروائی کے بعد ایران نے جمعرات کو پروم کے مقام پر سرحد کو کئی گھنٹے بند رکھا۔ تاہم شام کو آمد و رفت بحال ہو گئی۔‘
محکمہ داخلہ بلوچستان کے ذرائع کے مطابق ایران کے ساتھ کشیدگی کے باوجود پنجگور میں چیدگی کراسنگ پوائنٹ کے ساتھ ساتھ صوبے کے باقی اضلاع میں تفتان میرجاوا، گوادر میں گبد رمدان، کیچ میں مند پیشین سرحد پر معاملات متاثر نہیں ہوئے۔ آمدروفت اور تجارتی سرگرمیاں بحال ہیں۔
دوسری جانب جیش العدل کے عہدیدار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ”ایرانی حکومت ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے حقائق مسخ کرکے پیش کرتی رہی ہے۔ جیش العدل سے متعلق ایرانی حکومت نے جو حالیہ موقف اختیار کیا ہے، ہم اس کی تردید کرتے ہیں ۔ پاسدارانِ انقلاب ہمیں پاکستان میں ڈھونڈنے کے بجائے اپنی سرزمین پر ہماری موجودگی تسلیم کرے۔ جیش العدل ایران میں مظلوم بلوچ عوام کے حقوق کے لیے سرگرم ہے اور اس تنظیم کے کسی فرد کا پاکستان سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔“
عسکریت پسند تنظیم کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ منگل کی شب ایرانی فورسز نے مغربی بلوچستان کے بعض حصوں میں جو کارروائی کی ہے، اس سے تنظیم کے کسی رکن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے
انہوں نے کہا، ”پاسداران انقلاب نے تنظیمی ارکان کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی، سیستان میں خاش اور ملحقہ علاقوں میں شروع کی تھی۔ اس کارروائی کے دوران جو میزائل ہدف پر فائر کیے گئے تھے، وہ غلط رخ پر پاکستانی حدود میں جا گرے، جس کی وجہ سے وہاں ہماری اطلاعات کے مطابق مقامی آباد ی کو نقصان پہنچا۔“
عسکریت پسند تنظیم جیش العدل نے گزشتہ روز زاہدان کے قریب پاسداران انقلاب کے مقامی ڈپٹی کمانڈر کرنل حسین علی جاویدانفر کو دو محافظوں سمیت ہلاک کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔
پاکستان نے ایرانی فضائی حملے کے ردعمل میں ہونے والی کارروائی کو آپریشن مرگ بر سرمچار کا نام دیا ہے ۔ سرمچار بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی جانثار کے ہیں۔ بلوچ عسکریت پسند خود کو قومی حقوق کے لیے جاری جنگ کے دوران سرمچار کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔
اسلام آباد میں مقیم ایک سینئر سکیورٹی اہلکار نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں روپوش عسکریت پسندوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں کالعدم تنظیم کے کئی اہم سرکرد ہ کمانڈر مارے گئے ہیں۔ ان جے بقول، ”ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے سرآوان میں جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں پاکستان کو مطلوب بی ایل ایف کے کئی عسکریت پسند روپوش تھے۔ کارروائی میں ہلاک ہونے والے افراد میں، رئیس دوستام حاجی ارشاد، بشام، فضل شیر، سوغیر عرف میجر، شاپوک مجید عرف پیرا، یعقوب اور دیگر عسکریت پسند شامل ہیں۔“
دوسری جانب سرآوان میں مقیم مقامی قبائلی رہنماء محمد عزیز ریگی کہتے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران معصوم شہریوں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے مقامی لوگ شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں
انہوں نے کہا، ”ایرانی سرحد کے دونوں اطراف بلوچ قبائل کے لوگ آباد ہیں۔ یہاں شورش کی سب سے بنیادی وجہ وہ نا انصافی ہے، جس کا گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے مقامی لوگ شکار ہیں۔ ایرانی حکام اقلیتی بلوچ آبادی کے ساتھ دیگر عام شہریوں جیسا رویہ اختیار ہی نہیں کرتے۔ جب بھی بد امنی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو بلوچ اکثریتی علاقوں میں آپریشن شروع کر دیئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو بلاوجہ گرفتار اور بعض اوقات زیر حراست قتل کر دیا جاتا ہے۔ انصاف کے لیے لوگ در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔“
عزیز ریگی کا کہنا تھا کہ سرآوان میں پاکستانی کارروائی کے دوران تین خواتین اور چار بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں، جن کی لاشیں ملبے سے نکال لی گئی ہیں
انہوں نے مزید کہا، ”میں نہیں سمجھتا کہ پاکستانی حملے میں جو دعویٰ کیا گیا ہے وہ درست ہوگا کیونکہ جو لاشیں متاثرہ علاقے سے نکالی گئی ہیں، ان کی ابھی تک شناخت بھی ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق بعض لاشیں ایرانی حکام نے تحویل میں لی ہیں، جن کے بارے میں فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم جن خواتین اور بچوں کی جانیں اس حملے میں ضائع ہوئی ہیں، اس پر نہ یہاں ایرانی حکومت کا کوئی واضح موقف سامنے آیا ہے نہ ہی پاکستان کا۔“
ادہر جنوب مغربی بلوچستان کے ضلع پنجگور میں تعینات ایک مقامی انتظامی اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ سبزکوہ نامی دیہات کے جس حصے کو ایران نے ڈرون حملے کا نشانہ بنایا ہے، وہاں صرف مقامی شہری مقیم تھے۔
انہوں نے کہا، ”ایرانی ڈرون حملے سے اس خطے میں یقیناً کشیدگی پھیل چکی ہے تاہم یہ دعویٰ یکسر غلط ہے کہ یہاں عسکریت پسندوں کے کسی ٹھکانےکو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس حملے میں عام شہریوں کی جانیں ضائع ہوئی ہیں، ایرانی حکومت اپنے بے بنیاد دعوے کی کوئی تصدیق نہیں کر سکتی۔ پاک ایران سرحدی علاقوں میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے اور ہماری فورسز کسی بھی ناشگوار واقعے سے بروقت نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔“
ضلع پنجگور میں کوہ سبز کے مقامی سماجی رہنماء مولا بخش دشتی کہتے ہیں کہ علاقے میں مخدوش صورتحال کی وجہ سے مقامی آبادی عدم تحفظ کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا، ”یہ ایک انتہائی پسماندہ علاقہ ہے۔ منتشر آبادی پر مشتمل دیہات پر ایرانی ڈرون حملے سے 2 بچے ہلاک جبکہ 3 بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔ ایرانی حکومت کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ علاقے میں ڈرون حملے سے لوگوں میں شدید خوف وہراس پھیل چکا ہے۔ ڈرون حملوں سے متاثرہ خاندان انصاف کے منتظر ہیں۔ پاکستانی حکومت لوگوں کے تحفظ پر توجہ دے۔“
مولابخش دشتی کا کہنا تھا کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں پر ایرانی فوج کی جانب سے ماضی میں بھی راکٹ فائرنگ کے کئی واقعات پیش آئے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔
پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی سے پنجگور سمیت ایرانی سرحد سے متصل سرحدی اضلاع کیچ، گوادر، واشک اور چاغی کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ ایرانی تیل کا کام کرنے والے بھی پریشان ہیں۔
پنجگور میں تیل کا کام کرنے والے مشتاق احمد نے بتایا کہ پاک ایران سرحد پر ایرانی تیل کی ترسیل ایک خصوصی اجازت نامے کے ذریعے ہوتی ہے جو ٹوکن کہلاتا ہے۔ ٹوکن رکھنے والا شخص 30 سے 45 دنوں میں ایک بار ایرانی سرحد سے ایک پک اپ گاڑی بھر کر ایرانی تیل پاکستان لا سکتا ہے جس سے وہ 60 سے 80 ہزار روپے تک کما لیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب تک تو زیادہ مسئلہ نہیں بنا لیکن سرحد پر کشیدگی برقرار رہی تو پھر یہ کاروبار جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان نے افغانستان کے بعد ایران کے ساتھ 900 کلومیٹر طویل سرحد کے ایک بڑے حصے پر باڑ کا کام مکمل کر لیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں اور سمگلروں کی آمدروفت اور غیرقانونی تجارتی سرگرمیوں کی روک تھام کر سکے۔
کیچ میں ایرانی سرحد پر تعینات ایک پاکستانی سیکورٹی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ”باڑ لگنے سے سرحد پر غیرقانونی سرگرمیوں اور آمدروفت میں کمی آئی ہے تاہم ندی نالوں کی وجہ سے باڑ کو نقصان پہنچنے یا پھر دشوار گزار پہاڑی سلسلوں میں بعض مقامات اب بھی ایسے ہیں، جہاں سے غیرقانونی نقل و حرکت کو روکنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کا فائدہ مسلح تنظیمیں اٹھاتی ہیں۔“
بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار جلال نورزئی کے مطابق، دشوار گزار سرحد پر مسلح تنظیمیں کی کارروائیاں دونوں ممالک کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔ ان کے بقول ”ایران جیش العدل کے ٹھکانوں کی پاکستان میں موجودگی کا دعویٰ کرتا ہے تو بلوچستان میں سرگرم بلوچ مسلح تنظیموں کے عسکریت پسندوں کی ایران میں پناہ لینے کی شکایات پاکستان کو بھی ہیں۔“
انہوں نے کہا ”پاکستان نے کبھی ایران کے ساتھ تعلقات میں جارحانہ انداز نہیں اپنایا۔ اس کے برعکس ایران نے کئی بار اشتعال انگیز اقدامات کئے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں وہ کئی بار سرحدی خلاف ورزیاں کر چکا ہے۔“
جلال نورزئی کے مطابق ”چند برسوں پہلے تک تو فضائی اور زمینی حدود کی خلاف ورزیاں روزانہ کا معمول تھا۔ ماشکیل، پنجگور، تفتان، مند اور تمپ میں آئے روز مارٹر گولے داغے جاتے تھے جس سے کئی بار نہ صرف شہری بلکہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار بھی ہلاکت ہوئے۔“
انہوں نے کہا ”اسی طرح ایرانی فورسز نے پاکستانی حدود کے اندر بھی داخل ہو کر پاکستانی شہریوں کی گرفتاریاں کیں۔ ایک بار تو دس گیارہ ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کو پاکستانی حدود سے گرفتار کیا گیا مگر پاکستان نے انہیں رہا کیا اور معاملے کو نہیں بڑھایا۔“
جلال نورزئی نے کہا کہ ایرانی سرحد سے ملحقہ مکران ڈویژن کے اضلاع گوادر، کیچ اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز پر کئی بڑے حملوں کے بعد پاکستان نے الزام لگایا کہ عسکریت پسند کارروائی کر کے ایران فرار ہو گئے۔ تب بھی کوئی جارحانہ اقدام اٹھانے کی بجائے پاکستان نے سفارتی سطح پر اس معاملے کو اٹھایا
انہوں نے مزید کہا ایران نے اس بار نہ صرف جارحیت کی بلکہ اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کیا، جس کے بعد پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کرنے کے سوا کوئی راستہ بچا ہی نہیں تھا-
پاکستان اور ایران کے درمیان سالانہ تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر ہے اور دونوں ممالک نے گذشتہ برس اسے پانچ ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے گذشتہ برس پاکستان اور ایران نے بلوچستان میں گبد رمدان اور مند پشین کی دو سرحدی منڈیوں کو فعال کیا اور چار مزید بارڈر مارکیٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت کا معاہدہ کیا تھا۔
ایرانی حملے کے وقت پاکستان اور ایران کی سرحدی تجارتی کمیٹی کا اجلاس ایران کے ساحلی شہر چاہ بہار میں طے تھا ، تاہم پاکستان نے احتجاجاً اجلاس منسوخ کر کے اپنا وفد واپس بلا لیا تھا۔
حالیہ کشیدگی پر کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر بدر الدین کاکڑ نے کہا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تناؤ ختم نہ ہوا تو اس کے اثرات تجارت پر بھی پڑیں گے، جس سے صرف کاروباری طبقے کو ہی نہیں بلکہ عام لوگوں اور دونوں ممالک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچے گا۔ سب سے زیادہ سرحدی علاقے کے لوگ متاثر ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا ”ہماری کئی صنعتوں کا انحصار ایران سے درآمد ہونے والے خام مال پر ہے۔ ایران سے پیٹرو کیمیکل، ایل پی جی، سیمنٹ، ٹائلز، سریا، تیل، بسکٹ اور دیگر خوردنی اشیا پاکستان آتی ہیں جبکہ پاکستان چاول، کینو وغیرہ ایران برآمد کرتا ہے۔“
بدر الدین کے مطابق ”پہلے ہی افغانستان کے ساتھ ہماری تجارت بلوچستان کے راستے کئی ماہ سے بند ہے۔ جس کی وجہ سے ہوٹل، ٹرانسپورٹ سمیت کئی شعبوں کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اگر دوسرے ہمسائیہ ملک کے ساتھ بھی تجارت بند ہو گئی تو اس سے بلوچستان میں لوگوں کے لیے مزید معاشی پیدا ہوں گی۔“
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق صدر فدا حسین دشتی کا کہنا ہے ”ایران پاکستان کے ساتھ تجارتی حجم کو بڑھانا چاہتا ہے لیکن پاکستانی حدود کے اندر جارحانہ کارروائی نے نہ صرف دونوں ممالک کے سیاسی، سفارتی و سماجی تعلقات بلکہ باہمی تجارت کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔“
انہوں نے کہا ”پاکستان میں 25 فیصد ایل پی جی گیس ایران سے آتی ہے اور پاکستانی تاجروں نے پیشگی ادائیگی کی ہے، اگر سرحد پر صورتحال مزید خراب ہوئی تو تاجروں کا اربوں روپے کا سرمایہ ڈوب جائے گا۔“