تیندوا کھیرتھر میں کہاں سے آیا؟

ویب ڈیسک

دو روز قبل سندھ کے شہر کوٹڑی کی ایک عدالت میں اس وقت غیر معمولی صورتحال پیش آئی، جب کمرۂ عدالت میں ایک تیندوے کی لاش پیش کی گئی، جسے کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا

یہ تیندوا بچل سونہیرو گاؤں میں مارا گیا تھا، یہ گاؤں کانبھو پہاڑ کے قریب واقع ہے اور ایم نائن موٹروے سے 70 کلومیٹر دور ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق انہوں نے تیندوے کو اس لیے مارا کیونکہ وہ ان کی بکریوں کا شکار کر رہا تھا

کھیرتھر نیشنل پارک کراچی، جام شورو، دادو اور بلوچستان کے حب کے پہاڑی علاقوں پر پھیلا ہوا ہے اور کھیرتھر پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے، جو 3,087 مربع کلومیٹروں پر پھیلا ہوا ہے۔

اس کو 1974 میں محفوظ مقام یا ’پروٹیکٹو ایریا‘ قرار دیا گیا تھا۔ ہنگول نیشنل پارک کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے۔

کھیرتھر کے بیس لائن سروے کے مطابق یہاں ہرن، جنگلی بکروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی دو سو اقسام پائی جاتی ہیں، اس علاقے میں انسانی آبادی محدود ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں، جبکہ روڈ نیٹ ورک بھی دستیاب نہیں۔

’پاکستان کے ممالیہ‘ کے مصنف ڈاکٹر تھامس جونز رابرٹس نے 1977 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں کھیرتھر میں تیندوؤں کی موجودگی کا ذکر کیا تھا۔

اس بارے میں انھوں نے 1968 کے واقعے کا ذکر کیا ہے، جس میں ڈاکٹر رضوی نامی شخص نے حب پہاڑی میں تیندوے کا شکار کیا تھا۔

وہ لکھتے ہیں ”کھیرتھر کی کرچات پہاڑیوں میں اور قلات و مکران (بلوچستان) کے پہاڑی سلسلوں میں یہ تیندوے پائے جاتے ہیں۔“

محکمۂ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کے مطابق ”ڈاکٹر رضوی کے بعد کھیرتھر میں تیندوے کے شکار کا یہ دوسرا واقعہ ہے، جبکہ پچھلے برسوں میں ریکارڈ پر ایسا کوئی اور واقعہ نہیں۔“

انسپیکٹر غفار جمالی 2012 سے محکمہ جنگلی حیات کے ملازم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سروے کے دوران انھوں نے پہاڑوں میں تیندوے کے قدموں کے نشان دیکھے تھے تاہم ان کے ساتھیوں کا موقف تھا کہ یہ لگڑ بگھے کے پیروں کے نشان ہیں۔

وہ کہتے ہیں ”اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ تیندوے کے پنجوں کے ہی نشان تھے۔“

ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنسلٹنٹ معظم خان کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنی ملازمت کے دوران تیندوے کو بلوچستان میں دیکھا ہے

وہ بتاتے ہیں ”بلوچستان کا جو دُریجی اور کنراچ کا علاقہ ہے، وہاں سے لے کر مکران کے ساحلی علاقے تک تیندوا پایا جاتا تھا اور وہاں سے یہ سفر کرتا کرتا نکل جاتا ہے کیونکہ یہ جانور بہت سفر کرتا ہے۔“

محکمۂ جنگلی حیات کے چیف کنزرویٹر جاوید مہر کہتے ہیں ”کھیرتھر میں تیندوے کی موجودگی کے تاریخی شواہد موجود ہیں۔ یہ مقامی جانور ہے اور مذکورہ تیندوا بھی صحت مند ہے یعنی یہ بھٹکا ہوا نہیں اگر ایسا ہوتا تو یہ کمزور نظر آتا۔ یہ اگر یہ بھٹکتا تو یہ مقامی طور پر کئی مقامات پر نظر آتا۔“

محکمۂ جنگلی حیات کے حکام کا ماننا ہے کہ گذشتہ چند سال سے کھیرتھر پر اچھی بارشیں ہوئی ہیں، جس سے وافر مقدار میں شکار دستیاب ہے، اس لیے تیندوے جیسے جانور سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان میں تیندوؤں کی چار اقسام پائی جاتی ہیں جن میں ہمالین اور پرشیئن نسل کے تیندوے شامل ہیں۔ ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے آئی یو سی این کی معدوم ہونے والے چرند پرند کی فہرست میں یہ تیندوے بھی شامل ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق تیندوے ہمارے ماحولیاتی نظام کے سب سے بڑے شکاری ہیں اور وہ ماحول کی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سبزہ خور جانوروں کی آبادی پر کنٹرول رکھتے ہیں اور غیر صحت مند جانوروں کو اس کے مسکن سے ہٹا دیتے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close