بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، جو اسلام آباد سے دھرنا ختم کرنے کے بعد لانگ مارچ کے دیگر شرکا کے ساتھ کوئٹہ پہنچیں، جہاں ہزاروں افراد نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ جبکہ 27 جنوری کو کوئٹہ میں ان کی کال پر جو جلسہ منعقد کیا گیا، اسے کوئٹہ کی تاریخ کے بڑے جلسوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے
ڈاکٹر ماہ رنگ نے جلسہ عام سے خطاب میں کہا، ”ہم ہر بلوچ کے گھر جا کر یہ بتائیں گے کہ کس طرح آپ کی خواتین کی سروں سے چادر کھنیچی گئی اور کس طرح ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا“
دوسری جانب دھرنا ختم کرنے اور واپسی کے حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا ”لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ سمیت جو دیگر مطالبات ہم لے کر گئے تھے، وہ اسلام آباد نے تسلیم تو نہیں کیے لیکن ہم نے وہاں دھرنے کے ذریعے بہت سارے مقاصد اور کامیابیاں حاصل کیں، اس لیے ہم وہاں دھرنا ختم کر کے واپس اپنے لوگوں کے پاس آ گئے تاکہ ہم انہیں ان مظالم کے خلاف منظّم کریں جو ریاستی ادارے ان پر ڈھا رہے ہیں“
ان کے مطابق ”ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ ہم پوری دنیا کو یہ بتانے میں کامیاب ہو گئے کہ ریاست کس طرح بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے اور کس طرح اس کے تمام ادارے اس کو روکنے میں ناکام ہیں“
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ جس میں پریس کلب کے سامنے ہم بیٹھے تھے، وہاں سے کوئی سہولت اور کوریج ملنا تو دور کی بات، اس کے مینیجر نے ہمیں خطرہ قرار دے کر پولیس کو یہ درخواست تحریر کی کہ مارچ کے شرکا کو وہاں سے ہٹایا دیا جائے
ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق ”ہم نے اسلام آباد پریس کلب کے لوگوں کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی میڈیا چینل ہمیں کوریج نہیں دیتا، اس لیے ہم اسلام آباد پریس کلب آئے ہیں تاکہ ہمیں کوریج دی جائے لیکن کوریج کی بجائے انہیں وہاں ہمارا بیٹھنا بھی گوارا نہیں ہوا“
انھوں نے کہا کہ یہ امر باعث افسوس ہے کہ ریاست اور اس کے زیر اثر دانشور اور میڈیا جبری گمشدگی جیسے ایک سنگین مسئلے کا جواز پیدا کرنے میں لگے ہوئے تھے
ان کا کہنا تھا ”وزیر اعظم انوار کاکڑ نے ہمیں دہشت گردوں کا ہمدرد قرار دیا۔ وزیر اعظم کے بیان کے بعد ہم نے دیکھا کہ کوریج کرنے والے صحافیوں کی تعداد میں کمی آئی۔۔ اس کے علاوہ بلوچستان حکومت کے وزیر اطلاعات نے ہمارے دھرنے کے دوران سات پریس کانفرنسز کرکے بے بنیاد الزامات لگائے“
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے بتایا کہ تیس دنوں میں ریاستی اداروں نے ہر لمحہ کوئی ایسی کوشش کی، تاکہ ہم جذباتی ہو جائیں اور ان کو تشدد کا جواز ملے لیکن ہم نہیں چاہتے تھے کہ ان کو ایسا موقع دیں
انہوں نے کہا ”حکومت مذاکرات کی بجائے اپنی پوری طاقت اس بات پر لگا رہی تھی کہ کس طرح اس پر امن تحریک کو دیوار سے لگایا جائے اور پھر اس کے خلاف ایک چھوٹا بیانیہ بنایا جائے۔ ہمارے ساتھ جو شرکاء تھے ان کی عمریں ایسی تھیں کہ ریاستی ادارے ان پر تشدد کر سکتے تھے اور بالخصوص اس کے جواز کے لیے اپنے ٹولے کے لوگوں کو لا کر ہمارے سامنے بٹھایا گیا تھا“
انھوں نے کہا کہ اگر ہم جذباتی ہوتے تو وہ ہمارے دھرنے کے شرکاء کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے ٹولے کو جواز بناتے ہوئے یہ کہتے کہ یہ تو دو گروہوں کا مسئلہ ہے
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کی وجہ سے ہم نے اسلام آباد میں اپنا دھرنا ختم کیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما نے کہا کہ ہمارے دھرنے کے مطالبات پر غور کرنے کی بجائے حکومت نے ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا۔
انھوں کے مطابق ”ریاستی اداروں کے اس عمل کو ہم ایکسپوز کرنا چاہتے تھے اور پاکستان سمیت دنیا کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ نہ صرف ریاست بلکہ اس کا ہر ادارہ بلوچ نسل کشی میں باقاعدہ سہولت کار ہے“
انھوں نے بتایا ”اسلام آباد میں بہت سارے لوگ ہمارے کیمپ میں آئے جن میں عام شہریوں کے علاوہ باضمیر صحافی اور دانشور شامل تھے۔۔ انہوں نے ہماری مدد کی، جس پر ہم ان کی تہہ دل سے مشکور ہیں۔ وہاں کی عام آبادی ہمارے بیانیے کے ساتھ تھی“
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا ”ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ اسلام آباد میں موجود دنیا کے سفیروں اور پوری دنیا نے دیکھا کہ ریاست اور اس کے اداروں کا رویہ اور طرزعمل کیسا ہے۔ وہ کن کن انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور اس کے ادارے ان انسانی مسائل کے حل میں کس بری طریقے سے ناکام ہوچکے ہیں۔“
ان کے مطابق، ساٹھ دنوں کی اس جدوجہد میں ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی اور مبینہ جعلی مقابلوں میں ہلاکتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی پامالی کے جو مسائل تھے، ان کو ہم نے بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا اور دنیا کو آگاہ کیا کہ آگے ریاستی ادارے ہماری پر امن تحریک کو ختم کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں
ڈاکٹر ماہ رنگ نے بتایا کہ ان کامیابیوں کے علاوہ ہم نے پاکستان بھر میں اپنے پیغام کو پہنچایا۔ ”ہم نے دیکھا کہ محکوم اقوام کی جو تحریکیں ہیں وہ سب ہمارے ساتھ ہیں اور پنجاب کی جو عام آبادی ہے اس نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔“
ڈاکٹر ماہ رنگ کے مطابق ”چونکہ اسلام آباد جانے کے ہمارے جو مقاصد تھے، وہ پورے ہو چکے تھے، اس لیے ہم نے یہی سوچا کہ ہم بلوچستان کی جانب جائیں اور اپنے لوگوں منظم کریں گے۔“
اس سوال پر کہ آپ لوگ کسی نتیجے کے بغیر اسلام آباد سے واپس آئے تو کیا اب دوبارہ اسلام آباد جانے کا منصوبہ ہے، اس بارے میں انہوں نے ہاں یا ناں میں جواب دینے کی بجائے کہا ”فی الحال ہم بلوچستان میں لوگوں کو متحرک کریں گے۔“
انھوں نے بتایا ”ہم جب تربت سے نکلے تھے تو مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے لوگوں کو مبینہ بلوچ نسل کشی کے خلاف متحرک کریں کیونکہ ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کو کچھ پتہ نہیں کہ ان کو کیا کرنا ہے۔ ان کو ریاستی اداروں، ڈیتھ اسکواڈز اور سرداروں کی جانب سے ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا ہے۔ حتٰی کہ لاپتہ افراد سے متعلق حکومتی کمیشن میں بھی جب لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کا کیس لے جاتے ہیں تو ان کو وہاں بھی ہراساں اور بلیک میل کیا جاتا ہے“
انہوں نے کہا ”ہم اپنے لوگوں کو ایک طاقت دینا چاہتے تھے کیونکہ بالاچ مولا بخش کا اکیلا کوئی کیس نہیں تھا بلکہ سینکڑوں لوگوں کو اب تک مبینہ جعلی مقابلوں میں مارا گیا ہے۔ ہم پچھتر سال سے پھیلائے جانے والے اس خوف کو، جس کے باعث لوگ ایک پر امن احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے تھے، ختم کرنا چاہتے تھے اور ہم اس میں بھی کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں“
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا ”ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل ہماری منظم تحریک ہوگی، جس کے لیے ہم بلوچستان میں ہر اس جگہ جائیں گے، جہاں لوگ بڑی تعداد میں ہمارے لیے نکلے۔ ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کو منظم کرکے ان کی طاقت بنیں گے۔“