ہزاروں گدھے، انسانوں کی خوبصورت اور جوان نظر آنے کی خواہش کی بھینٹ چڑھنے لگے۔۔

ویب ڈیسک

چین میں گدھے کی کھال میں موجود ایک خاص قسم کے جیلیٹن سے ایک دوا ایجیاؤ تیار کی جاتی ہے، جسے روایتی ادویات میں ایک جزو کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ چین میں اس دوا کی بہت مانگ ہے

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق چین میں گدھے کی کھال کا استعمال کرکے تیار کیے جانے والی اس دوا کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس میں صحت کو بڑھانے اور جوانی کو محفوظ رکھنے والی خصوصیات ہیں، جیلیٹن نکالنے کے لیے گدھے کی کھالوں کو ابال کر پاؤڈر، گولیاں یا مائع بنایا جاتا ہے یا کھانے میں شامل کیا جاتا ہے۔

گدھے کی کھالوں کی اس تجارت کے خلاف سنہ 2017 سے سرگرم عمل برطانیہ کی ایک فلاحی تنظیم ’دی ڈنکی سینکچوری‘ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اندازاً عالمی سطح پر ہر سال کم از کم انسٹھ لاکھ گدھوں کو کھال کے حصول کے لیے مارا جا رہا ہے۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ان گدھوں کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

ایجیاؤ ایک وسیع پیمانے پر مقبول اور آسانی سے قابل رسائی مصنوعات میں تبدیل ہو گیا ہے، تاہم ایجیاؤ انڈسٹری کو سپلائی کرنے کے لیے کتنے گدھے مارے جاتے ہیں، اس کی درست تعداد کے حوالے سے کچھ بتانا مشکل ہے۔

چین کی زراعت اور دیہی امور کی وزارت کے مطابق ملک میں گدھوں کی تعداد 1990 میں ایک کروڑ دس لاکھ سے گھٹ کر 2021 میں صرف بیس لاکھ رہ گئی ہے۔

دوسری جانب چینی کمپنیوں نے ملک سے باہر جانوروں کی کھال کے حصول کے وسائل تلاش کیے اور افریقا، جنوبی امریکا اور ایشیا کے کچھ حصوں میں گدھوں کے مذبح خانے قائم کیے، جس کے بعد افریقا میں اس کی وجہ سے تجارت پر ایک سنگین جنگ چھڑ گئی۔

ایتھوپیا میں گدھے کے گوشت کا استعمال ممنوع ہے اور 2017 میں عوامی احتجاج اور سوشل میڈیا پر شور شرابے کے بعد ملک کے گدھوں کے دو مذبح خانوں میں سے ایک کو بند کر دیا گیا تھا۔

عالمی میڈیا کے مطابق تنزانیہ اور آئیوری کوسٹ سمیت کئی ممالک نے 2022 میں گدھے کی کھالوں اور برآمدات پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن پاکستان اس تجارت کو قبول کرتا ہے۔

پاکستان کی میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال کے آخر میں گدھوں کی کچھ بہترین نسلوں کی پرورش کے لیے ملک کے پہلے گدھوں کی افزائش کے فارم کا اعلان کیا گیا تھا۔

یونیورسٹی آف سڈنی سے تعلق رکھنے والے اسکالر پروفیسر لارین جانسٹن کے مطابق چین میں ایجیاؤ مارکیٹ 2013 میں تقریباً 2.5 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2020 میں تقریباً 7.8 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔

یہ صحت عامہ کے اہلکاروں، جانوروں کی بہبود کے لیے مہم چلانے والوں اور یہاں تک کہ بین الاقوامی جرائم کے تفتیش کاروں کے لیے بھی تشویش کا باعث بن گیا ہے۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گدھے کی کھالوں کی کھیپ کو دیگر غیر قانونی جنگلی حیات کی مصنوعات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اندازے کے مطابق دنیا میں گدھوں کی آبادی پانچ کروڑ تیس لاکھ گدھے ہیں اور ان میں سے تقریباً دو تہائی گدھے افریقی ممالک میں موجود ہیں۔ افریقی ممالک میں جانوروں کی فلاح و بہبود سے متعلق قوانین میں خامیاں پائی جاتی ہیں جن کا فائدہ گدھوں کی کھالوں کی تجارت میں ملوث گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔

گدھے کی کھال کی برآمد کچھ ممالک میں قانونی ہے اور کچھ ممالک میں غیر قانونی ہے، لیکن کھالوں کی زیادہ مانگ اور کھال کی زیادہ قیمتیں گدھوں کی چوری اور انھیں مارنے کو ہوا دیتی ہے۔

’دا ڈنکی سینکچوری‘ کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ گدھوں کو بین الاقوامی سرحدوں کے پار اُن مقامات تک لے جایا جا رہا ہے، جہاں اُن کی تجارت قانونی ہے۔

مگر اب شاید صورتحال کچھ بہتر ہو جائے کیونکہ اس صورتحال کے پیش نظر بیشتر افریقی ممالک کی حکومتیں اور برازیل گدھوں کی کم ہوتی ہوئی آبادی کے تناظر میں گدھوں کو ذبح کرنے اور اُن کی برآمد پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہیں۔

’دا ڈنکی سینکچوئری‘ سے منسلک سولومن اونیاگو کا کہنا ہے ”سنہ 2016 اور 2019 کے درمیان ہمارے اندازے کے مطابق کینیا میں گدھوں کی کل آبادی کی نصف تعداد کو کھال کی متنازع تجارت کے لیے مارا گیا ہے۔“

یہ وہی گدھے ہیں جو افراد، اشیا، پانی اور خوراک کی نقل و حمل میں استعمال ہوتے ہیں اور جو غریب دیہی آبادی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

لہٰذا ان کی کھالوں کی تجارت میں تیز رفتار ترقی نے اس کاروبار کے خلاف سرگرم اداروں اور ماہرین کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور کینیا میں اس ضمن میں مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

افریقی یونین کے سربراہی اجلاس میں پورے افریقہ میں اس پر غیر معینہ مدت کے لیے پابندی کی تجویز ایجنڈے کا حصہ ہے۔

افریقہ بھر میں ممکنہ پابندی پر غور کرتے ہوئے گدھوں کے ذریعے باربرداری کر کے اپنی روزی کمانے والے اسٹیو کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس سے جانوروں کی حفاظت میں مدد ملے گی بصورت دیگر ’اگلی نسل کے پاس گدھے نہیں ہوں گے۔‘

لیکن کیا پورے افریقہ اور برازیل میں پابندی اس تجارت کو کسی اور جگہ منتقل کر سکتی ہیں؟

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گدھے کی کھالوں کی کھیپ کو دیگر غیر قانونی جنگلی حیات کی مصنوعات کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پریشان ہیں کہ تجارت پر قومی پابندیاں اس تجارت کو مزید زیر زمین چلے جانے پر مجبور کر دیں گی۔

ریاستی رہنماؤں کے لیے، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ترقی پذیر معیشتوں کے لیے مردہ گدھے زندہ گدھوں سے زیادہ قیمتی ہیں؟

فیتھ برڈن ’دا ڈنکی سینکچوری‘ کے چیف ویٹرنری سرجن ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ دنیا کے کئی حصوں میں یہ جانور دیہی زندگی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ مضبوط، موافقت پذیر جانور ہیں۔ ’ایک گدھا شاید 24 گھنٹے بغیر کچھ کھائے پیے چل سکتا ہے اور بغیر کسی پریشانی کے بہت تیزی سے ’ری ہائیڈریٹ‘ کر سکتا ہے۔‘

لیکن اپنی تمام خوبیوں کی وجہ سے گدھے کی آسانی سے یا جلدی افزائش نہیں ہوتی ۔ لہٰذا مہم چلانے والوں کو خدشہ ہے کہ اگر اس تجارت کو کم نہ کیا گیا تو گدھوں کی آبادی کم ہوتی چلی جائے گی، جس سے غریب ترین لوگوں کو اپنی ’لائف لائن‘سے محروم کر دیا جائے گا۔

پروفیسر جانسٹن کا کہنا ہے کہ گدھوں نے ہزاروں سالوں سے ’غریبوں کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔‘

اور اس میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ ایجیاؤ کی مارکیٹنگ بنیادی طور پر امیر چینی خواتین کے لیے بھی کی جاتی ہے۔

یہ ایک ایسا علاج ہے، جو ہزاروں سال پرانا ہے اور جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے خون کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے، بے خوابی دور ہوتی ہے اور ’فرٹیلٹی‘ یعنی بچے کو جنم دینے کی صلاحیت بڑھنے جیسے بے شمار فوائد ہیں۔ لیکن یہ سنہ 2011 کا ایک چینی ٹی وی شو تھا، جو اس طریقہ علاج کی مانگ میں اضافے کا سبب بنا۔

ان کے مطابق اس شو کے ذریعے اس دوا کے استعمال کو خوبصورتی کے ساتھ بھی جوڑا گیا اور اب خود افریقی خواتین بھی اس کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔

اس متنازع تجارت کے خلاف سرگرم تنظیمیں ایسی مؤثر قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس سے گدھوں کے ذریعے روزگار کرنے والے غریب لوگوں سے ان کا روزگار نہ چھن سکے اور کچھ ایسے متبادل تلاش کیے جائیں تا کہ دنیا میں گدھوں کی کھال کی تجارت پر پابندی عائد کی جا سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close