پاکستان، سن 47 میں کیا ہو رہا تھا

یاسر پیرزادہ

کچھ دن پہلے مجھے ایک صاحب نے فون کیا، ریٹائرڈ سرکاری افسر تھے، انہوں نے کوئی کتاب لکھی تھی اور وہ مجھے ارسال کرنا چاہتےتھے، یہ بات میرے لیے کوئی نئی نہیں تھی سو میں نے انہیں پتا دے دیا، چند دن بعد مجھے اُن کی کتاب مل گئی۔اتفاق سے اسی دن مزید پانچ کتابیں بھی موصول ہوئیں۔

یار لوگ ازراہِ محبت کتاب لکھ کر خاکسار کو بھجوا دیتے ہیں، اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اُس پر تبصرہ کردوں لیکن خاکسار اِس معاملے میں خاصا بدلحاظ ہے۔ میں پہلے کتاب کو سونگھتا ہوں اگر خوشبو اچھی لگے تو چکھتا ہوں ورنہ بند کرکے رکھ دیتا ہوں۔ گھر کی چھوٹی سے لائبریری میں ایسی کتابوں کے لیے ایک علیحدہ گوشہ ہے، جس کا نام میں نے ’گوشہِ ناکارہ کتب‘ رکھ چھوڑا ہے۔ جو پانچ کتابیں مجھے موصول ہوئیں، وہ اسی گوشے کی زینت بنیں۔

بہت کم کتابیں ایسی ہوتی ہیں، جو پڑھنے پر مجبور کرتی ہیں اور اُن میں سے بھی کوئی ایک آدھ کتاب ایسی نکلتی ہے، جس پر تبصرہ کرنے پر دل آمادہ ہوتا ہے۔ جن ریٹارئرڈ سرکاری افسر کی میں بات کر رہا ہوں ، اُن کا نام محمد سعید ہے۔ میں زندگی میں اُن سے کبھی نہیں ملا، جو فون انہوں نے کیا وہ اُن کا مجھے پہلا اور تا دمِ تحریر آخری فون تھا۔ میں انہیں بالکل نہیں جانتا مگر جو کتاب انہوں نے مرتب کی ہے، وہ ایسی ہے کہ جس نے پہلے صفحے سے ہی مجھے جکڑ لیا۔ کتاب کا نام ہے ’پاکستان ‘ اور اِس میں یکم اگست 1947ع سے لے کر 31 دسمبر 1947ع تک پاکستانی اخبارات سے حیرت انگیز ، ناقابل یقین اور چونکا دینے والی خبروں کا انتخاب ہے۔خوبصورتی اِس کی یہ ہے کہ مولف نے نہایت عرق ریزی سے اُس زمانے میں شائع ہونے والے پاکستانی اخبارات کی سُرخیاں، مدیر کے نام خطوط اور اشتہارات، بلا تبصرہ ایک جگہ اکٹھے کر دیئے ہیں۔

جن اخبارات سے مولف نے استفادہ کیا ہے، اُن میں پاکستان ٹائمز لاہور، ڈیلی گزٹ کراچی، سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور اور ڈیلی ڈان کراچی شامل ہیں۔ بدقسمتی سے نیشنل آرکائیو میں 1947 کا کوئی اردو روزنامہ اخبار موجود نہیں۔

اِس کتاب کو پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ جس وقت پاکستان معرض وجود میں آرہا تھا، اُس وقت ملک میں کس قسم کا ماحول تھا، فسادات کی نوعیت کیا تھی، پاکستان کی کٹی پھٹی ریاست کس حال میں تھی، کیا اُس برے حال میں بھی حکومت پاکستان نے کفایت شعاری اپنائی جبکہ قائد اعظم زندہ تھے اور گورنر جنرل تھے، کیا پاکستان کو سیکولر ریاست بنائے جانے کے بیانات دیےجاتے تھے، اخبارات میں اشتہارات کس نوعیت کے شائع ہوتے تھے، سونے اور جائیداد کی قیمتیں کیا تھیں، رمضان میں سحر اور افطار کے اوقات کیا اِس وضاحت کے ساتھ لکھے جاتے تھے کہ یہ سنّیوں کے ہیں یا شعیوں کے!

چند نمونے کی خبریں اور اشتہارات دیکھیں:

پنجاب کے سابق وزیر میجر عاشق حسین کو چوبرجی لاہور کے قریب اشارے کے باوجود نہ رکنے پر کانسٹیبل نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پولیس نے فُٹ کانسٹیبل غلام حسین کو گرفتار کرلیا ہے۔

لاہور میں امنِ عامہ کی صورتحال خاصی بہتر۔ آگ لگانے کے صرف تین واقعات ہوئے۔

آج کراچی میں فی تولہ سونے کا بھاؤ ایک سو آٹھ روپے گیارہ آنے پہ بند ہوا۔

تین ہزار تین سو مربع گز پر تعمیر شدہ بلڈنگ بندر روڈ کراچی پہ برائے فروخت، قیمت صرف پچانوے ہزار روپے۔

کلکتہ میں ایک برٹش انڈسٹریل فرم کو سینئیر اسسٹنٹس کی ضرورت ہے ، صرف مسلم امیدوار رابطہ کریں۔

لاہور میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 42 اور کم سے کم 31 درجے ریکارڈ کیا گیا۔

حکومت پاکستان کے عملے کے لیے مختص عمارتوں میں بجلی اور روشنی کے انتظامات کے لیے چار لاکھ روپے مخصوص کیے گئے ہیں ۔تین لاکھ روپوں کے ایرانی قالینوں کا آرڈر بھی دیا جا چکا ہے، جو وزرا کے بنگلوں اور سیکریٹریوں کے دفاتر میں بچھائے جائیں گے۔(واضح رہے کہ سونا اُس وقت 108 روپے تولہ تھا، اُس حساب سے سات لاکھ روپے آج کے ایک ارب سے زیادہ بنتےہیں، ویسے ہمیں مطالعہِ پاکستان میں پڑھایا گیا تھا کہ افسران کے پاس کاغذ پنسل بھی نہیں ہوتی تھی)

ویسٹ بنگال (انڈیا) حکومت سے کہا ہے کہ وہ یوم آزادی پر اپنا پرچم لہرائیں گے ۔ تاہم چراغاں کا اہتمام نہیں ہوگا کیونکہ بنگال کی تقسیم سے آدھی بنگالی قوم دکھی ہے۔

ایک نرس کی ضرورت ہے ، کوالیفائیڈ یا نان کوالیفائیڈ، رابطہ کریں۔ تنخواہ 70 روپے ماہوار۔

کراچی کلفٹن پر چار لاکھ روپوں کی لاگت سے ایک acquarium (مچھلی گھر) تعمیر کیا جائے گا، جو اپریل 1948ع تک مکمل ہوجائے گا۔(کٹی پھٹی نوزائدہ ریاست کی ترجیحات)

کراچی میں روزانہ تھیٹر دیکھیں۔’سلطانہ ڈاکو‘ اور ’آنکھ کا نشہ‘۔

مدیر کے نام خط:
جناب والا! مغربی پنجاب کے دارالحکومت کے لیے لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے بارے میں تجاویز سامنے آ رہی ہیں۔ میں نے بھی اِس معاملے پر بہت غور کیا ہے اور اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ موزوں ترین شہر لائل پور ہے، جسے پنجاب کا دارالحکومت بنادیا جائے۔
(نذیر احمد، انسپکٹر سینٹرل ایکسائز، جھنگ)

قیام پاکستان کی تقریبات کے سلسلے میں کراچی میں 15 اگست کو بیس ہزار لوگوں کے کھانے کا اہتمام کیا جائے گا۔ اِس کا فیصلہ ایک سب کمیٹی نے کیا، جس کی صدارت مسٹر جمشید نسروان جی نے کی۔

آج نئی دہلی جنرل ہیڈکوارٹرز میں انڈین آرمی کی طرف سے پاکستان آرمی کے لیے الوداعی تقریب ہوئی (اس تقریب کا احوال پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ، دونوں ممالک کی افواج نے جس بھائی چارے کا اظہار اِس تقریب میں کیا، وہ باتیں آج دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں)

کے ایل ایم (KLM) کے ذریعے کراچی۔ایمسٹرڈم ۔نیویارک۔صرف 48 گھٹوں میں (روانگی ہر جمعرات)

قائد اعظم نے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے اعزاز میں کراچی میں دیے گئے state dinner میں برطانیہ کے بادشاہ کے لیے toast propose کیا۔ (مراد یہ کہ جام اٹھا کر بادشاہ کی صحت سلامتی کی دعا کی)

پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں وزیر اعظم مسٹر لیاقت علی خان نے ایک قرارداد پیش کی، جس میں کہا گیا ہے کہ محمد علی جناح کو سرکاری کاغذات میں قائد اعظم کے نام سے لکھا اور پکارا جائے ۔ اِس قرارداد پر گرما گرم بحث ہوئی۔

میں یہ کتاب پڑھتا جا رہا ہوں اور حیرت میں ڈوبتا جا رہا ہوں، میری بہت سی غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں، یہ کتاب پڑھ کر اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم کسی اور ہی عہد میں زندہ ہیں ، ماضی کا جو نقشہ ہمارے ذہنوں میں نصابی کتابوں نے بنا رکھا ہے، اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔

اِس کتاب میں قائد اعظم کی 11 اگست کی تقریر کا بھی احوال ہے، جس کا ذکر ڈیلی گزٹ کراچی نے کیا اور اُس تقریر کا متن بھی موجود ہے، جو قائد اعظم نے ماؤنٹ بیٹن کے اعزا ز میں دیے گئے ڈنر کے موقع پر کی اور اُس میں جارج ششم کی صحت کا ٹوسٹ تجویز کیا۔ اخبارات کے مطالعے سے اُس وقت ہونے والے فسادات کا بھی پتاچلتا ہے کہ حالات کس قدر خراب اور کنٹرول سے باہر تھے اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ کیسے ایک شکستہ حال مملکت شاہ خرچیوں میں مصروف تھی۔

یقیناً یہ کتاب کوئی پہلی کوشش نہیں ، اِس سے پہلے بھی بہت سے لوگوں نے تاریخ کو یوں مرتب کیا ہے ، اِس ضمن میں سب سے بہترین کام عقیل عباس جعفری نے کیا، جنہوں نے ’پاکستان کرانیکلز‘ کے نام سے پچھتر برس کی تاریخ کو گویا کوزے میں بند کر دیا ۔ محمد سعید نے اپنی کتاب میں جس طریقے سے صرف خبروں ، مدیران کے نام خطوط اور اشتہارات کو اکٹھا کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ یہ سلسلہ جاری رکھیں اور اِس کتاب کا اگلا حصہ بھی مرتب کریں جو یکم جنوری 1970 سے لے کر 31 دسمبر 1971 پہ محیط ہو، تاکہ قوم یہ جان سکے کہ جب ملک ٹوٹ رہا تھا تو ارباب اختیار کیا کر رہے تھے، کاروبارِ زندگی کیسے چل رہا تھا اور عوام کس انداز میں سوچ رہے تھے!

میرا بس چلے تو اِس قسم کی کتابوں کو پڑھنا لازمی قرار دے دوں، تاکہ ہمارے ذہنوں میں اِس ملک کے قیام کا تصور درست ہو سکے، یہ تصور ٹھیک ہوگا تو ہم آگے بڑھنے کے قابل ہوسکیں گے ورنہ یونہی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے ۔

بشکریہ: روزنامہ جنگ
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close