ہو جمالو کی کہانی سے جُڑا دریائے سندھ پر قائم 134 سالہ قدیم پل اب تفریحی مقام بنے گا۔۔

ویب ڈیسک

سکھر میں دریائے سندھ پر 134 سالہ قدیم فولادی لینس ڈاؤن برج، جسے سندھ ہائی کورٹ نے قومی ورثہ قرار دے رکھا ہے، حال ہی میں اس پل کی مرمت اور اسے تفریحی مقام میں تبدیل کرنے کے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے۔

برطانوی دور میں سندھ کے جُڑواں شہروں سکھر اور روہڑی کو ملانے والے لینس ڈاؤن برج کی تعمیر 1890 میں مکمل ہوئی۔

یہ وہ پل ہے، جس سے مشہور سندھی لوک گیت ’ھو جمالو‘ کی کہانی کو بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ پل ٹرین چلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب انگریزوں نے سکھر کے قریب دریائے سندھ پر بغیر ستونوں کے پل تعمیر کیا تو ریلوے کا کوئی ڈرائیور اس طویل پل سے ریل گاڑی گزارنے پر آمادہ نہیں تھا۔ انگریز سرکار نے اعلان کیا جو شخص اس پل سے گاڑی گزارے گا، اسے انعام دیا جائے گا۔

سندھی ادیب عبدالکریم سندیلو اپنی تصنیف ’پہاکن جی پاڑ‘‘ میں لکھتے ہیں سکھر جیل میں جمالو شیدی نام کا ایک قیدی سزائے موت کاٹ رہا تھا۔ اس نے انگریز سرکار کا اعلان سنا تو اپنے آپ کو اس شرط پر ریل گاڑی چلانے کے لیے پیش کیا کہ اگر اس نے پل کراس کر لیا تو اس کی جان بخشی کر دی جائے گی۔ حکومت نے جمالو شیدی سے وعدہ کیا کہ اگر وہ پل سے ٹرین گزار گیا تو اس کی باقی سزا ختم کر دی جائے گی۔ جمالو شیدی نے ٹرین گزار لی تو اسے حسبِ وعدہ جیل سے رہائی مل گئی۔جب وہ رہا کر اپنے گوٹھ پہنچا تو کہا جاتا ہے کہ اس کی بیوی نے خوشی کے عالم میں یہ گیت گانا شروع کر دیا۔ ’’ہو منھنجو کھٹی آیو خیر ساں، ہو جمالو۔۔۔۔ ہو جیکو روہڑی واری پل تاں، ہو جمالو۔۔۔۔ ہو جیکو سکھر واری پل تاں، ہو جمالو۔‘‘

اگرچہ یہ روایت مقبول عام ہے لیکن مؤرخین اور محققین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ’’ہو جمالو‘‘ کی تاریخ کے حوالے سے یہ روایت درست نہیں ہے۔

بہرحال اس بحث سے قطع نظر یہ پُل انیسوی صدی میں انجینیئرنگ کا نادر نمونہ سمجھا جاتا تھا۔ 240 میٹر طویل یہ پل ’کینٹی لیور‘ طرز پر تعمیر کیا گیا، جس کے تحت پل کا وزن اس کے کونوں پر مرکوز ہے اور پل کے نیچے کوئی سہارا نہیں۔

یہ پل ٹرین چلانے کے لیے بنایا گیا تھا، جس پر 73 سال تک ٹرینیں چلتی رہیں لیکن بعد میں پُل کی خستہ حالی کے باعث ٹرینوں کی آمد و رفت بند کر دی گئی۔

نومبر 2023 میں ایک مقامی وکیل کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ نے نہ صرف پُل کو قومی ورثہ قرار دیا بلکہ اس کی مرمت کر کے محفوظ بنانے کا بھی حکم دیا۔

اب اس کی مرمت کا کام شروع ہو گیا ہے۔ بہت جلد یہ اثاثہ اپنی اصل شکل میں بحال ہوگا اور سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گا۔

پل کی بحالی کے لیے مقدمہ لڑنے والے وکیل سہیل میمن کا تعلق بنیادی طور ہر روہڑی سے ہے اور وہ بچپن سے اسے دیکھ رہے ہیں۔

سہیل میمن کہتے ہیں، ”اس سے خاصی انسیت ہے۔ جب پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو وہاں مختلف قومی اثاثوں کو دیکھتے ہیں کہ کس ذمہ داری اور خوبصورتی سے ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو پاتا۔۔ بدقسمتی سے ایک قومی ورثہ انتظامی لاپرواہی کی وجہ سے مسلسل تباہی سے دوچار رہا، جس پر 2000ع میں سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔

سہیل میمن نے بتایا ”محکمہ ریلوے نے فنڈز کی کمی کی وجہ سے دیکھ بھال سے معذرت کی تو مختلف محکموں سے مسلسل خط و کتابت کے بعد 2023 میں سندھ ہائی کورٹ نے اسے قومی ورثہ قرار دے کر حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت کو اس کی تزین وآرائش کے احکامات صادر کیے۔“

سہیل کے مطابق پہلے مرحلے میں پل پر سے کَئی فٹ مٹی، گرد و غبار اور کچرہ صاف کرنے کا کام جاری ہے۔ ”پل کے دونوں اطراف پیدل چلنے کی گزر گاہوں پر عرصہ دراز سے مختلف کمپنیوں نے بہت بھونڈے انداز میں اپنے فولادی پائپ گزارے تھے جس سے ایک تو یہ راستہ عوام کے لیے ناقابل استعمال ہو گیا بلکہ اس سے لکڑی کے تختے بھی بوسیدہ ہو گئے۔“

انہوں نے بتایا کہ دوسرے مرحلے میں اس کی مرمت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ ”فٹ پاتھ پر اور دیگر حصوں کی مرمت کی جائے گی، جس کے بعد اس کے رنگ و روغن کا مرحلہ آئے گا۔ وہ بھی جلد شروع کیا جائے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے یہ قومی اثاثہ محفوظ ہوگا بلکہ سیاحتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملے گا۔“

انہوں نے بتایا ”جب اس پل کے بوسیدہ تختوں سے ایک چودہ سالہ بچہ جو اپنی ماں کے ساتھ گزر رہا تھا دریا میں گر گیا تو اس وقت میِں نے تہیہ کیا کہ اس حوالے سے کچھ کرنا چاہیے۔“

محقق اور تاریخ دان سید امداد علی شاہ نے بتایا کہ ’اس پل کو سر الیگزینڈر میڈوز رینڈل نے ڈیزائن کیا۔ یہ پل 1889 میں مکمل ہونے پر دنیا کا سب سے بڑا کینٹی لیور پل تھا۔ اس فولادی پل کی تیاری میں 3,300 ٹن فولاد استعمال ہوا۔‘

انہوں نے کہا ”لندن میں ویسٹ ووڈ، بیلی کی فرم نے تیار کیا تھا اور اسے ایف ای رابرٹسن اور ہیکیٹ نے تعمیر کیا۔۔ پل سے سندھ اور بلوچستان کے درمیان ریل رابطہ باآسانی ممکن ہوا۔ اس پل کا نام ہندوستان کے وائس رائے لارڈ لینس ڈاؤن کے نام سے موسوم کیا گیا۔“

ان کے مطابق ”پل کا افتتاح 28 مارچ، 1889 کو بمبئی کے گورنر لارڈ رے نے کیا۔ تقریب میں پل کے آہنی دروازوں پر لگا آرائشی تالہ کھولا گیا (جس کا ڈیزائن جے ایل کپلنگ، سی آئی ای، لاہور کے میو سکول آف آرٹ کے پرنسپل اور مشہور شاعر اور مصنف جوزف روڈیارڈ کے والد نے کیا تھا) جو اب بھی وہاں محفوظ ہے۔“

امداد علی کا کہنا ہے کہ اس پل پر تالے اور اس کے آرکیٹیکٹ کے ہاتھ کاٹ دینے، اور ٹرین گزارنے پر ہو جمالو گانے سے متعلق بہت سی من گھڑت کہانیاں ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پل کی تعمیر کے دوران چھ مزدوروں کی جانیں گئیں۔ چار آدمی چکرا کر بلندیوں سے گرے اور دو بھاری اوزار گرنے سے جان سے گئے۔ اس پل کی تعمیر کی لاگت اس وقت برطانوی کرنسی میں 21 ہزار 42 پاؤنڈز بتائی جاتی ہے۔

روہڑی پریس کلب کے صدر مجاہد بزدار کہتے ہیں ”یہاں آنے والے ملکی اور اور غیر ملکی سیاح اس خوبصورت مقام کے باوجود یہاں سہولیات نہ ہونے کا شکوہ کرتے رہے ہیں۔ دیر سے شروع ہوا مگر بہت اچھا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے علاقے میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ اس کے علاوہ علاقے کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہوگا۔ پل سے بھاری ٹریفک کے گزرنے پر بھی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے کیونکہ یہاں ٹریفک کا جام رہنا معمول ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close