گوا سے آئے مسیحیوں نے کراچی کیوں چھوڑا؟

ویب ڈیسک

یہ 1510ء کی بات ہے جب پرتگال نے بھارت کے مغربی ساحل پر واقع شہر گوا کو فتح کیا تھا، جس کے بعد وہاں بسے کئی افراد نے قابضین کے زیرِ اثر اپنا مذہب تبدیل کر کہ مسیحیت اپنا لی تھی۔ ان میں اکثریت کیتھکولک مسیحیوں کی تھی، جو اپنے مذہب اور شہر کی نسبت سے ’گوان کیتھولک‘ کہلائے۔

انیسویں صدی میں گوا کے کیتھولک مسیحیوں میں سے چند افراد نے سندھ کے شہر کراچی کی طرف نقل مکانی کی اور یہاں بس گئے۔ کراچی میں انہوں نے اپنے کاروبار شروع کیے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر میں ان کی تعداد بڑھتی رہی۔

سن 1862ء میں پیدا ہونے والے سنسنّاٹس فیبین ڈی ابیرو کے والد نے گوا سے سندھ 1846ء میں نقل مکانی کی۔ سینٹ پیٹرک سے ابتدائی تعلیم کے بعد ترقی کے زینے طے کرتے کرتے اسسٹنٹ کلکٹر سکھر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ کراچی واپسی کے بعد وہ بلدیہ کے صدر بنے۔ فیبین ڈی ابیرو کو سندھ کی بارہ معتبر شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اسی دوران انہوں نے شہر کراچی کی ترقی کے لیے بہت سے کام کیے۔ انہوں نے 1908ء میں ایک زمین خریدی، جسے بعد میں کراچی کا پہلا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بنایا گیا ٹاؤن شپ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

اس ٹاؤن شپ کا نام سنسنّاٹس ٹاؤن رکھا گیا۔ اس کی منصوبابندی کرنے والے پیڈروڈی سوزا اور جارج بریٹو تھے۔ ان کی یہ کاوش اپنے دور میں شہری منصوبہ بندی کا ایک شاندار نمونہ تھی۔ بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے گارڈن ایسٹ رکھ دیا گیا

فرینک ڈی سوزا بھی اس برادری کا ایک اور بہت اہم نام ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ریلوے گارڈ سے کیا اور پھر زینہ بزینہ ترقی کرتے ہوئے 1929ء میں ریلوے بورڈ آف انڈیا کے پہلے انڈین ممبر بنے۔ تقسیم ہند کے بعد محمد علی جناح نے فرینک کو درخواست کی کہ وہ پاکستان آ کر ریلوے کا نظام ترتیب دیں۔ اس کام کے اختتام پر فرینک اپنی جائیداد عمر رسیدہ افراد کے نام وقف کر کے خود ہندوستان چلے گئے۔

جیروم ڈی سلوا کا شمار کراچی کے ان لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اس شہر کو بے تحاشہ رہائشی عمارتیں، پارک، حکومتی کوارٹر اور شاپنگ پلازہ دیے۔ انہوں نے اپنے ساتھی حسین کے ساتھ مل کر 500 گھروں پر مشتمل حسین ڈی سلوا ٹاؤن نارتھ ناظم آباد بنایا۔ حسین ڈی سلوا کراچی کی پہلی بلند رہائشی عمارت تھی۔ کراچی میں ان کی تعمیرات کی ایک طویل فہرست ہے، جس نے نئے کراچی کی بنیاد رکھی۔

برصغیر کی تاریخ کے پہلے کیتھولک میئر مینول مسقوٹہ 1945ء سے 1946ء تک کراچی کے میئر رہے۔ انہوں نے دو بار کراچی گوا ایسوسی ایشن کے سربراہ کے طور پر خدمات بھی انجام دیں۔

یہ خبر بھی پڑھیں:


کراچی کی گوئن مسیحی برادری کا تہوار ’سان جاو‘ کیا ہے؟


سن 1886 میں اس کمیونٹی نے کراچی میں ’گوا پرتگالی ایسوسی ایشن‘ قائم کی۔ اس کے ساتھ ہی اس کمیونٹی میں شامل افراد کی جانب سے کراچی میں متعدد تعلیمی ادارے اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ چنانچہ اس دور کے کراچی اور اس کی ثقافت میں گوان رنگ بھی جھلکتا ہے، جو کہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے لبمے عرصے بعد تک نمایاں رہا۔

پھر ایسا کیا ہوا کہ 1980 کی دہائی میں کراچی میں گوان کیتھولک کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہونے لگی؟

اس حوالے سے فریڈی نزاریت، جن کے دادا کراچی میں پیدا ہوئے تھے، کہتے ہیں ”بہت سے گوان کمیونٹی کے افراد نے معاشی وجوہات کی بنا پر کراچی چھوڑا۔ میری والدہ حقیقی معنوں میں گوان تھیں۔ میرے والد کا تعلق بھارتی شہر منگلور سے تھا اور ان کا خاندان گوا سے منگلور منتقل ہوا تھا۔“

وہ بتاتے ہیں ”پہلے پہل کراچی چھوڑنے والے گوان کیتھولک افراد، ان اینگلو انڈینز میں شامل تھے جو برطانیہ منتقل ہوئے۔ بعد ازاں، ان میں سے کئی افراد نے کینیڈا نے رہائش اختیار کی۔“

کراچی میں ایک این جی او سے تعلق رکھنے والے کرسٹوفر واز کا خیال بھی اس سے مختلف نہیں۔ وہ کہتے ہیں ”گوان کیتھولک افراد کی آبادی (کراچی میں) اس لیے کم ہوئی کیونکہ ہم یہاں اقلیت ہیں اور اس لیے ہمارے پاس روزگار کے مواقع محدود ہیں۔ اسی وجہ سے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ منتقل ہو چکے ہیں۔“

تاہم آرکیٹیکٹ عارف حسن گوان کیتھولک افراد کے بڑی تعداد میں کراچی کو خیر باد کہنے کی اور وجہ بتاتے ہیں۔

کراچی میں گوان کیتھولک کمیونٹی کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”گوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی پہلے پہل کراچی آمد کیتھولک اداروں کے ساتھ بطور اساتذہ ہوئی تھی۔ یہ 1850 کی دہائی کا وہ وقت تھا، جب برطانوی افراد نے کراچی میں تجارت اور اپنے کاروبار شروع کیے تھے۔ اس کے بعد 1870 کی دہائی میں گوا سے مزید مسیحی افراد کراچی آئے۔ ان کے اسکول اور چرچ 1850 کی دہائی اور بیسویں صدی کے آغاز کے درمیان تعمیر ہوئے۔“

یہ وہ دور تھا، جب مسیحی گوان کمیونٹی کے افراد کسی مسئلے کا سامنا کیے بغیر صدر اور اس کے اطراف کے علاقوں میں اپنے مُحلوں میں تقریبات منعقد کیا کرتے تھے، لیکن 1970 کی دہائی میں لوگوں نے اس کمیونٹی کی خواتین کے لباس پر اعتراض کرنا شروع کر دیا۔

اس بارے میں عارف حسن کہتے ہیں، ”1970 کی دہائی کے آواخر میں پاکستان نیشنل الائنس کی تحریک کے دوران ان خواتین کے لباس پر اعتراضات کیے گئے، کہ وہ اسکرٹ اور بلاؤز پہنتی ہیں، جس کے بعد وہ (گوان کیتھولکس) کراچی سے جانے لگے۔ میرے خیال میں انہوں نے اَسی اور نوے کی دہائی میں کراچی چھوڑنا شروع کیا تھا۔“

اس وقت کراچی میں مقیم گوان مسیحیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس شہر میں رہنے والی ڈیلفین ڈی میلو کا اندازہ ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔

کراچی میں گوئن مسیحیوں کی تنظیم گوئن کار اون اکیڈمی کراچی کے صدر پیٹر مینڈس بتاتے ہیں ”قیام پاکستان کے وقت کراچی میں بیس ہزار سے زائد گوئن مسیحی قیام پذیر تھے، لیکن اب ان کی تعداد صرف تین ہزار کے قریب رہ گئی ہے“

کراچی میں کاروبار کرنے والے مینن روڈریگیز کا بھی یہی خیال ہے۔ گوان میسیحیوں کے حوالے سے اپنی کتاب ’فٹ پرنٹس آن دی سینڈز آف ٹائم — ہسٹاریکل ریکلیکشنز اینڈ رگلیکشنز، گوانز آف پاکستان‘ میں وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں مقیم گوان افراد دس ہزار سے بھی کم ہوں گے اور دیگر شہریوں کی نسبت وہ یہاں زیادہ ’خاموش‘ زندگی گزار رہے ہیں۔

فریڈی نزاریت نے بھی گزشتہ برسوں میں اس کمیونٹی میں رونما ہونے والی چند تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ”پرانے دنوں میں (گوان) خواتین (کراچی میں) فراکیں پہنے نظر آتی تھیں، لیکن جب میں دو تین مہینے پہلے وہاں گیا تو خواتین کی اکثریت کو شلوار قمیض پہنے دیکھا۔ میں نے حال ہی میں ایک گوان شادی میں بھی شرکت کی تھی اور وہاں بھی خواتین نے شلوار قمیض ہی پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے باقاعدگی سے فراکیں پہن کر چرچ جانا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ پھر انہیں (ان چاہے) تبصرے سننے کو ملیں گے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close