بیکسیِ پرواز (اردو ادب سے منتخب افسانہ)

رشید امجد

روایت ہے کہ وہ چھ تھے اور انہوں نے کئی دنوں سے سوچ بچار کے بعد بَلا کا مقابلہ کیا، جو شہر کی فصیل پر بیٹھی ہوئی تھی اور کسی کو اندر نہ آنے دیتی اور نہ کسی کو شہر سے باہر جانے دیتی۔ وہ آنے والے اور جانے والے سے ایسے سوال پوچھتی، جن کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، تب وہ اس شخص کو مار ڈالتی۔ چنانچہ اس خوف سے نہ کوئی شہر آتا اور نہ شہر سے باہر جانے کا ارادہ کرتا۔۔۔

اسی طرح بہت سے گرم دن سرد دنوں میں اور سرد دن گرم دنوں میں بدلتے گئے۔ تب ایک ایک کر کے وہ چھ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے مل کر بلا کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔۔۔

روایت یہ ہے کہ وہ چھ تھے۔

اور اب صورت یہ ہے کہ ہم پانچ ہیں اور چھٹے کا انتظار کر رہے ہیں، یہ چھٹا کون ہے اور کہاں ہے؟

ہمیں اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں، لیکن ہم پانچوں اسے تلاش کر رہے ہیں۔

صبح گھر سے نکلتے ہی میں ایک ایک چہرے کو اس امید سے ٹٹولتا ہوں کہ شاید اس میں چھٹے کی شناسائی کے کچھ پہلو مل جائیں، لیکن مجھے ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ اُدھر بلا اسی طرح شہر کی فصیل پر بیٹھی آنے جانے کے راستے روکے ہوئے ہے۔ نہ کوئی شہر میں آتا ہے، نہ جاتا ہے۔۔ تازہ ہوا کے سارے جھونکے مقید ہو چکے ہیں اور شہر مدتوں سے باسی فضاؤں میں سانس لے رہا ہے۔ بلا سے چھٹکارہ پانے کے لیے چھے کی ضرورت ہے کہ روایت یہی ہے کہ وہ چھے تھے۔۔

اور۔۔۔ اور ہم پانچ ہیں۔۔

تو یہ چھٹا۔۔۔

یہ چھٹا کون ہے، کہاں ہے؟

’’تم تو چھٹے نہیں؟‘‘ میں قریب سے گزرتے ایک شخص سے پوچھتا ہوں۔

وہ حیرت سے مجھے دیکھتا ہے۔۔۔ ’’کون چھٹا؟‘‘

’’نہیں نہیں، تم نہیں ہو۔‘‘ میں جلدی سے آگے بڑھ جاتا ہوں۔

تو یہ چھٹا۔۔۔؟

شہر کی فصیل پر بیٹھی بلا پھیل پھیل کر سارے شہر میں اتر آئی ہے۔ ہم پانچوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور بے بسی سے کندھے اچکا اچکا کر رہ جاتے ہیں کہ ہم صرف پانچ ہیں اور روایت یہ ہے کہ وہ چھ تھے۔۔۔

میں ایک سفید ریش سے پوچھتا ہوں۔۔۔ ’’چھٹا تم میں سے تو نہیں؟‘‘

وہ نفی میں سر ہلاتا ہے پھر کہتا ہے۔۔۔ ’’تم اتنے پریشان کیوں ہو، آخر ہماری نسل نے بھی تو چھٹے کے بغیر اپنی عمریں گزار ہی دی ہیں۔‘‘

میں کہتا ہوں۔۔۔ ’’لیکن بَلا تو وہیں ہے۔‘‘

وہ بےنیازی سے کندھے اچکاتا ہے۔۔۔ ’’تو ہوتی رہے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔۔‘‘

’’لیکن کوئی یہاں نہیں آتا، نہ باہر جاتا ہے۔‘‘

’’اس کی ضرورت بھی کیا ہے؟‘‘

میں اسے اپنی بات نہیں سمجھا سکتا، میں تو اپنی عمر کے لوگوں کو بھی اپنی بات نہیں سمجھا سکتا۔ وہ بھی کہتے ہیں۔۔۔ ’’بَلا ہے تو سہی لیکن ہم کیا کریں۔۔ ہم سے پہلے والے بھی یوں ہی رہ کر چلے گئے، ہم بھی چلے جائیں گے۔۔ بس یہ دنیا تو فانی ہے، ایک آتا ہے دوسرا جاتا ہے۔ ایسے چل چلاؤ میں بَلا کیا اور بَلا کا نہ ہونا کیا۔‘‘

اس بات کا جواب میں کیا دوں۔ کبھی کبھی تو مجھے بھی خیال آتا ہے کہ بلا کا ہونا بھی کیا اور نہ ہونا بھی کیا۔۔۔ لیکن بلا شہر کی فصیل پر موجود ہے اور پھیل پھیل کر سارے شہر میں اتر رہی ہے۔ شہر والوں کے وجود میں پتھر اگنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے پاؤں کا انگوٹھا پتھر بنا، پھر آہستہ آہستہ سارے وجود میں پھیلنے لگا اور اب سارا شہر نصف دھڑ کے ساتھ صرف سوچتا ہے، حرکت نہیں کرتا۔

اب کسی کو تلاش کرنے کی بات ہی ختم ہو گئی ہے کہ ہم حرکت نہیں کرتے، حرکت کے بارے میں سوچ لیتے ہیں، تو اب چھٹے کو بھی محسوس ہی کرنا پڑے گا لیکن محسوس کرنا گنتی میں نہیں آتا اور ہمیں چھ کی گنتی کرنا ہے کہ روایت میں یہی لکھا ہے کہ وہ۔۔۔

چھٹے کی فکر میں، مَیں رات رات بھر جاگتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہے۔ اس طرح کی ایک رات، بہت دیر ہو چکی تھی، میرا بیٹا اپنے کمرے سے آیا۔۔۔ ’’ابو۔۔۔ یہ آپ رات رات بھر کیا سوچتے رہتے ہیں؟‘‘

میں کچھ دیر چپ رہا، پھر کہا۔۔۔ ’’چھٹے کے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ ہمیں چھے کی ضرورت ہے اور ہم پانچ ہیں۔‘‘

میرا بیٹا چند لمحے مجھے دیکھتا رہتا ہے، پھر ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہتا ہے۔۔۔ ’’چھٹا میں ہوں۔‘‘

مجھے یوں لگتا ہے جیسے کسی نے مجھے بلا کے سامنے پھینک دیا ہے اور میں اس کے سوال کے حصار میں لمحہ بہ لمحہ اس سے قریب اور قریب ہوا جا رہا ہوں۔

روایت میں آگے چل کر یہ بھی لکھا ہے کہ ان چھے نے مل کر مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک مارا گیا۔۔۔

’’تو میرا بیٹا۔۔۔‘‘ میں چپ ہو جاتا ہوں۔

اگلی صبح جب ہم پانچوں اکٹھے ہوتے ہیں تو کوئی بھی چھٹے کا ذکر نہیں کرتا۔ مجھے لگتا ہے ان میں سے ہر ایک کے بیٹے نے وہی بات کہی، جو رات میرے بیٹے نے کہی تھی۔

ہم پانچوں چپ ہیں۔۔

کوئی بھی بلا کا ذکر نہیں کرتا۔۔۔ لیکن بلا شہر کی فصیل پر موجود ہے۔ آنے جانے کے راستے بند ہیں۔ تازہ ہواؤں کو بھولا ہوا شہر اندر ہی اندر گل سڑ رہا ہے۔

کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے۔۔۔ ہمارا کیا بنے گا؟ یہ بلا کب تک یونہی شہر کی فصیل پر بیٹھی رہے گی؟

کوئی میرے اندر سرگوشی کرتا ہے۔۔۔ جب تم اپنے بیٹے کی بات مان لو گے۔۔۔

مجھے اسی خیال سے جھرجھری آ جاتی ہے۔

لیکن ہو سکتا ہے کسی دن میں مان ہی جاؤں۔۔۔ لیکن کب؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close