رینجرز کے جانے کے بعد ریڈیو پاکستان کراچی کی عمارت کس حال میں ہے؟

ویب ڈیسک

رینجرز کے آنے سے بہت پہلے ریڈیو پاکستان کراچی کی عمارت میں ایک ایسی دنیا تھی، جہاں ہر وقت میلہ لگا رہتا تھا، لیکن اب خالی ہونے کے بعد قدرے خاموشی ہے۔

ایم اے جناح روڈ پر واقع اس قدیم عمارت سے جسے ثقافتی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے، پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر نشر ہوئی تھی۔

کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع ریڈیو پاکستان کی تاریخی عمارت کو سندھ رینجرز کے انسداد دہشت گردی ونگ نے تقریباً 8 سال بعد جنوری کے دوسرے ہفتے میں خاموشی سے خالی کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ جناح روڈ سے گزرنے والے جلوسوں کی سکیورٹی کا جواز پیش کرتے ہوئے 2015 میں سندھ رینجرز نے عمارت کو اپنی ’تحویل‘ میں لے لیا تھا۔

مین گیٹ کے باہر سیمنٹ کی رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، اس لیے بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ یہاں صورتحال معمول پر آگئی ہے۔

ترجمان سندھ رینجرز نے عمارت خالی کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ”ہم نے ریڈیو پاکستان کی عمارت خالی کر دی ہے۔“ ان کے بقول، ”ہم خود سے عمارت میں آ کر نہیں بیٹھے تھے، سکیورٹی کے پیش نظر عمارت ہماری تحویل میں تھی لیکن میڈیا ہم پر انگلیاں اٹھا رہا ہے۔“

جب ان سے اچانک عمارت خالی کرنے کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہم پر انگلیاں اُٹھا رہا تھا، اب جب ہم عمارت چھوڑ چکے ہیں، تو آپ کو اس سے بھی کوئی مسئلہ ہے؟“

انہوں نے کہا ”ہم کسی بھی جگہ خود نہیں جاتے، سندھ حکومت کی طرف سے ہمارے لیے عارضی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ اب ہم گڈاپ میں ٹول پلازہ کے قریب نئی جگہ منتقل ہو گئے ہیں، جو ہماری ضرورت کے عین مطابق ہے۔“

ریڈیو پاکستان کے سینئر ملازم نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، تو یہ واقعی رینجر کے لیے مثالی جگہ نہیں تھی، شہر کے وسط کے مقابلے میں ان کے لیے زیادہ بہتر جگہ کنٹونمنٹ کے علاقوں میں ہو سکتی ہے، مزید کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہاں ان کے اپنے حفاظتی مسائل بھی ہوں گے۔

واضح رہے کہ ریڈیو پاکستان نے 2007 میں آگ لگنے کے بعد اس تاریخی عمارت کو خالی کر دیا تھا اور اپنا سینٹر حسن اسکوائر پر واقع سوک سینٹر منتقل کر دیا تھا۔ آگ صبح اس وقت بھڑکی، جب بچوں کا پروگرام ’بچوں کی دنیا‘ ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔

اس موقع پر تقریباً چالیس بچے وہاں موجود تھے، تاہم انتظامیہ بچوں کو جلتی ہوئی عمارت سے محفوظ انداز سے نکالنے میں کامیاب رہی تھی۔

اب رونقیں دوبارہ بحال ہونے لگی ہیں اور ریڈیو پاکستان کا کچھ عملہ دوبارہ پرانی عمارت میں منتقل ہوگیا ہے۔ سیلز، مارکیٹنگ اور نیوز سیکشن سے شروع ہو کر تاریخی عمارت تک زیادہ تر آپریشنز کو آہستہ آہستہ لیکن بتدریج واپس منتقل کرنے کا منصوبہ ہے، البتہ ریڈیو پاکستان کی نشریات اب بھی سوک سینٹر سے جاری ہیں۔

اس عمارت کا افتتاح 16 جولائی 1951 کو کوئینز روڈ پر واقع انٹیلیجنس اسکول سے کراچی اسٹیشن کے وہاں منتقل ہونے کے بعد کیا گیا تھا، جہاں زیڈ اے بخاری، شاہد احمد دہلوی، ایس ایم سلیم اور عبدالمجید جیسی قد آور شخصیات کی رہنمائی میں تقسیم کے فوراً بعد کراچی سے میڈیم ویو ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا تھا۔

دو چھوٹے چھوٹے گنبذوں والی یہ پرانی عمارت شاہراہِ ایم اے جناح (بندر روڈ) پر واقع ہے، جہاں میڈم نور جہاں، مہدی حسن، محمد ابراہیم، محمد جمن، روبینہ قریشی، زرینہ بلوچ، احمد رشدی اور ریشماں نے آواز کے جادو جگائے۔

فلمی دنیا پر راج کرنے والے ستارے محمد علی، شمیم آرا، مصطفٰی قریشی، طلعت حسین، خبریں پڑھنے والوں میں شکیل احمد، انور بہزاد، شمیم اعجاز، انور حسین، ایڈورڈ کیٹپیئر اور چشتی مجاہد اس عمارت میں اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔

اب عمارت کے اندر حالات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ عمارت کا نچلہ حصہ جہاں ایڈمن اور اکاؤنٹس کے دفاتر ہوا کرتے تھے، تمام کمرے دھول مٹی سے اٹے ہوئے تھے اور در و دیوار پر جالے بنے ہوئے تھے۔ دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھیں جبکہ بالائی اور پہلی منزل جہاں سے کسی زمانے میں اسٹوڈیو سے پروگرام نشر کیے جاتے تھے، ان کی بری حالت ہو چکی تھی۔ عمارت کے احاطے میں لگا بوڑھا برگد تاہم بدلتے حالات و واقعات کا شاہد بنا کھڑا ہے۔

کراچی کی ہر قابلِ ذکر شخصیت نے اس اسٹیشن کی کینٹین میں بیٹھ کر چائے پی، شامی کباب کھائے اور دال چپاتی کا لنچ کیا ہے۔ یہاں فن کاروں، ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔

پہلی منزل پر چودہ اسٹوڈیوز تھے جو اکتوبر 2007 میں جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔ بالائی منزل میں اسٹوڈیو کے آلات تو نہیں نظر آئے تاہم کچھ ٹوٹا پھوٹا فرنیچر اور تزین کا سامان کوڑے کے ڈھیر کی طرح پڑا ہوا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close