کراچی کی مردم شماری کا پینڈورا باکس

عاجز جمالی

ملک میں نئی مردم شماری کی تیاریاں جاری ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے بعد ہوں گے۔ 2017 کی مردم شماری پر سندھ کو اعتراض تھا، خصوصی طور پر کراچی کی مردم شماری پر کراچی کی تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظات تھے، اس لیئے سندھ حکومت مردم شماری کے مسئلے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں لے کر گئی تھی، جس کے بعد نئی مردم شماری کا فیصلہ بھی عمران کی حکومت نے کیا تھا۔ اب موجودہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ آئندہ عام انتخابات اپنے مقررہ وقت یعنی اگست 2023ع کے بعد ہوں گے، اس کے لیئے ایک بڑی وجہ نئی مردم شماری کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔

اگر واقعی نئی مردم شماری کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے تو کم از چھ آٹھ ماہ کے بعد ہی نئی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری ہوں گے، جو آئندہ سال مارچ تک ہی جاری ہو سکتے ہیں

گذشتہ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوئی تھی، اس کے باوجود متنازعہ بنی تھی کیونکہ سندھ حکومت اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کا موقف تھا کہ کراچی کی آبادی کم ظاہر کی گئی۔ 2017 کی مردم شماری میں کراچی میں بسنے والے انسانوں کی تعداد 1 کروڑ 60 لاکھ 24 ہزار ظاہر کی گئی تھی لیکن کراچی میں آبادی کی شرح میں اضافے کے اعتبار سے کراچی کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہونی چاہئے تھی۔ کراچی کی سیاسی جماعتیں اور ماہرین تو کراچی کی آبادی کو ڈھائی کروڑ سے بھی زائد تصور کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے بڑھ کر اگر ڈھائی کروڑ تک پہنچتی ہے تو شہر میں لگ بھگ ایک کروڑ افراد کا اضافہ ہوگا۔ پھر وفاقی حکومت کی جانب سے وسائل کی تقسیم بھی اسی اعتبار سے ہونی چاہئے۔ لیکن اس سے بھی اہم بات کراچی میں قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا تناسب ہوگا، کیونکہ نئی مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں بھی ناگزیر ہوں گی۔ نئی حلقہ بندی کی صورت میں کراچی میں قومی اسمبلی کی کم سے کم بھی دس نشستوں کا اضافہ ہوگا اور سندھ اسمبلی میں کراچی کی نشستوں کی تعداد ایک سو تک ہونی چاہئے۔ پھر صرف کراچی ہی نہیں دیگر بڑے شہروں کی بھی نئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔ وہاں سے بھی اسمبلی نشستوں میں اضافہ ہوگا۔ سندھ اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ کر ڈیڑھ سو اور کُل نشستوں کی تعداد دو سے تجاوز کر چکی ہوگی

مردم شماری حالانکہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں لیکن ہمارے ہاں اسے سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بنایا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سندھ کی مردم شماری کو کم ظاہر کرنا ہے کیونکہ قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) میں سندھ کا حصہ کم جو رکھنا ہے

ماہرین کا خیال ہے کہ پورے ملک کے مقابلے میں آج بھی کراچی پر آبادی کا سب سے زیادہ دباؤ ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر نقل مکانی کرکے آنے والے لوگ شہر کراچی میں داخل ہوتے ہیں لیکن 2017 کی مردم شماری میں لاہور کی شرح تناسب کراچی سے زیادہ دکھایا گیا اور یہ ظاہر ہوا کہ کراچی میں اردو کی نسبت پشتو، سندھی، سرائیکی بولنے والوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس لیئے یہ سوال آج کا اہم سوال ہے کہ نئی مردم شماری میں کراچی کو کس طرح مطمئن کیا جائے گا؟

اگر حقیقی مردم شماری ہوتی ہے اور درست اعداد و شمار ظاہر ہوتے ہیں تو بھی کئی نئے سوالات جنم لیں گے۔ کیا وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور اقتداری تقسیم کے فارمولے بنانے والے مذکورہ سوالات کا سامنا کر پائیں گے؟ کیا پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرستوں کے پاس ان سوالات کا جواب ہوگا؟

میں ایک یوٹوپیائی مثال دے دیتا ہوں۔ فرض کریں سندھ اسمبلی کی نشستوں کی تعداد دو سو ہوجاتی ہے اور اس میں ایک سو نشستیں کراچی کی ہوتی ہیں تو پھر کراچی سے وزیر اعلیٰ ہونے کے مطالبے کو کیوں تسلیم نہ کیا جائے؟ وہ الگ بات ہے کہ ایم کیو ایم، پی ٹی آئی یا جماعت اسلامی بیشک اس کو نسلی رنگ دے کر مہاجر وزیر اعلیٰ کا مطالبہ ہی کیوں نہ کریں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کراچی کے پاس سندھ اسمبلی کی نصف نشستیں ہوں تو پھر کراچی کے کسی بھی ضلع سے سندھ کا وزیر اعلیٰ کیوں منتخب نہ ہو؟ مجھے نہیں معلوم کہ ان سوالات کا اقتداری کھلاڑیوں کے پاس کیا جواب ہوگا لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ نئی مردم شماری کے بعد سندھ کی سیاست میں پھر ایک نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا۔ یا پھر کوئی نیا سیاسی محاذ کھل جائے گا اور شاید یہ ہی وہ وجہ ہو جس کی وجہ سے جان بُوجھ کر 2017 میں کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا

کراچی کی مردم شماری کا دوسرا اہم پہلو بھی ہے، جس کو بھی جان بوجھ کر سرکاری سطح پر زیر بحث نہیں لایا جا رہا ہے، وہ ہے غیر قانونی تارکین وطن کی قانونی حیثیت۔ کراچی میں اب لاکھوں کی تعداد میں غیر قانونی افغانی پناہ گزین اور غیر قانونی طور پر آباد بنگالی اپنے شناختی کارڈ بنوا کر یہاں کے مقامی باشندے بن چکے ہیں لیکن اس کے مقابلے میں سندھ کے مختلف شہروں سے نقل مکانی کرکے کراچی پہنچنے والے سندھی بولنے والوں کو کراچی کا مقامی شہری تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ مثلاً 2010 کے سیلاب کے بعد سندھ کے دیہی علاقوں سے نقل مکانی کرکے کراچی آنے والے شہریوں کے پاس کراچی کے شناختی کارڈ نہیں تو انہیں مردم شماری میں کراچی کا شہری تسلیم نہیں کیا جاتا حالانکہ وہ صوبہ سندھ کے شہری ہیں جبکہ افغان پناہ گزین لاکھوں کے تعداد میں کراچی کے شہری بن کر اپنے ووٹ کا حق بھی استعمال کرتے ہیں۔ مگر کراچی میں مستقل طور پر بسنے والے دیگر شہروں کے ان افراد کو بھی ووٹ داخل کرنے کا حق نہیں، جن کے شناختی کارڈ پر مستقل پتہ لاڑکانہ شکارپور یا دادو لکھا ہوا ہے۔ یعنی غیر قانونی تارکین وطن کراچی کا شہری بن جاتا ہے لیکن صوبہ سندھ کا باشندہ کراچی کا شہری نہیں بن سکتا

کراچی کی 2017 کی مردم شماری میں سندھی بولنے والوں کے جو اعداد و شمار ظاہر ہوئے وہ بھی غلط ہیں اور جان بوجھ کر کراچی میں بسنے والے سندھیوں کی نصف آبادی ظاہر کردی گئی۔ مجوزہ نئی مردم شماری اگر درست سمت میں ہوئی تو کراچی میں سندھی بولنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ گذشتہ مردم شماری کے مطابق کراچی میں اردو بولنے والوں تعداد 42 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کی وجہ شہر میں دیگر زبانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہے، جس پر بھی ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو یہ اعتراض تھا کہ جان بوجھ کر اردو بولنے والوں کی آبادی کم ظاہر کی گئی مگر ماہرین کا خیال ہے کہ کراچی میں اردو بولنے والوں کی آبادی واقعی مث کم ہو رہی ہے، جس کی وجہ کراچی پر آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے

میرا خیال ہے کہ نئی مردم شماری میں اردو آبادی کی شرح مزید کم ہو سکتی ہے اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی شرح میں مزید اضافہ متوقع ہے

کراچی میں مردم شماری کے ساتھ حلقہ بندیاں بھی ایک بڑا معمہ ہے، سمجھنے اور سمجھانے کا۔۔ کیونکہ اس شہر میں حلقہ بندیاں بھی ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر ہوا کرتی ہیں۔ نئے بلدیاتی نظام میں ایک بار پھر کراچی کو 25 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کراچی میں ٹاؤنز کا نظام جنرل پرویز مشرف کے دور میں نافذ ہوا تھا، جب اٹھارہ ٹاؤنز بنا کر پانچ اضلاع ختم کردئیے گئے تھے اور پورے کراچی کو ایک سٹی حکومت کے حوالے کیا گیا تھا اور صوبائی حکومت کے بھی کئی اختیارات سٹی ناظم کے سپرد کیئے گئے تھے۔ اب کراچی کے سات اضلاع ہیں نئے بلدیاتی نظام میں ٹائونز کے ساتھ اضلاع کو بھی برقرار رکھا گیا ہے ٹائونز ضرور بنائے گئے ہیں مگر جب پورے کراچی کی نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی تو نئی پیچیدگیاں جنم لیں گی۔

کراچی میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران کئی نئی آبادیوں نے جنم لیا ہے لیکن وہ آج بھی پرانے حلقوں میں شامل ہیں اور نئے اضلاع بناتے وقت بھی حلقہ بندیوں کا خیال نہیں رکھا گیا۔ ایک کورنگی ضلع کی ہی مثال لیتے ہیں جو کہ دو اضلاع شرقی اور ملیر کو توڑ کر قائم کیا گیا لیکن آج بھی ملیر کے کئی دیہات کورنگی کے شہری علاقوں میں چلے گئے اور کورنگی کے کئی شہری علاقے ملیر کے دیہاتی علاقں میں شامل کردئیے گئے ہیں۔ ان دونوں علاقوں کے لوگ جب بھی ووٹ دینے جاتے ہیں تو کورنگی کے علاقوں کو ملیر اور ملیر کے علاقوں کو کورنگی پکارتے ہیں۔ اسی طرح نئے بننے والے ضلع ”کیاماڑی” (یہ کیماڑی نہیں ہے، کیاماڑی ہے) کی حد بندیاں بھی اپنی جگہ پر سوالیہ ہیں کیونکہ نئے ضلع میں ٹائونز کی حلقہ بندیاں تو کردی گئی ہیں لیکن ضلعی حدود کی پیچیدگیاں برقرار ہیں۔

حقیقت تو یہ بھی ہے کہ کراچی میں 1947 سے آبادی کی جو اُلجھن شروع ہوئی وہ پچھلے پچھتر برسوں کے دوران حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتی گئی، جس کی وجہ سے آج شہر کراچی میں شہری آبادیوں کا معاملہ اس حد تک پیچیدہ ہے کہ اس کے سُلجھنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ، جس کا بنیادی سبب سیاسی مفادات ہیں۔ سیاسی مفادات کے پیش نظر اس شہر کی نا کبھی درست سمت میں سائنسی بنیادوں پر مردم شماری ہوئی اور نہ کبھی مکمل تکنیکی بنیادوں پر حلقہ بندیاں کی گئیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیشہ مردم شماری کے اعداد و شمار متنازعہ بنتے ہیں اور ان کو قبول نہیں کیا جاتا کیونکہ کسی بھی ایک کمیونٹی کے سیاسی مفادات کو نقصان ہوتا ہے وہ اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتی، حالانکہ کراچی میں بسنے والی قدیم اقوام سندھی اور بلوچ ایک دوسرے کے فطری اتحادی رہی ہیں، کیونکہ یہ صدیوں سے یہاں پر آباد ہیں، لیکن سیاسی مفادات کے بدولت ان دونوں قوموں کو بھی تقسیم کیا گیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ملیر اور لیاری بلوچوں کے علاقے ہیں لیکن یہ تاثر بھی پیدا کیا گیا ہے کہ حقیقت میں ملیر، لیاری، منگھو پیر، گڈاپ ہوں یا کراچی کے موجودہ ساتوں اضلاع کی قدیمی تمام آبادیاں، ان میں سینکڑوں برسوں سے سندھی اور بلوچ آباد ہیں لیکن کورنگی اور کیاماڑی کے نئے اضلاع بننے کی وجہ سے بھی قدیمی آبادیوں کے سندھی اور بلوچ تقسیم ہوئے ہیں اور مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے کراچی کی ڈیموگرافی مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ موٹر وے پر بحریہ ٹائون، ڈی ایچ اے سٹی اور دیگر میگا رہائشی منصوبے بننے کی وجہ سے شہر کراچی کا دائرہ ایک سو کلومیٹر سے بھی وسیع ہو چکا ہے اور اندازہ ہے کہ 2030 تک شہر کراچی نوری آباد تک پھیل جائے گا جبکہ نیشنل ہائی وے کی جانب سے کراچی اب ٹھٹہ کے ساتھ جُڑ گیا ہے۔ اس طرح آئندہ دس برسوں کے دوران کراچی کا پھیلاؤ دو سو کلومیٹر تک متوقع ہے

ماہرین کا خیال ہے کہ نئی مجوزہ مردم شماری ہوئی تو کراچی کی آبادی میں پچیس فیصد اضافے کا امکان ہے اور اگر یہ صورتحال آئندہ دس برس تک جاری رہی تو کراچی کی آبادی تین کروڑ سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔ ون یونٹ کے نفاذ کے بعد کراچی کی بدلتی ڈیموگرافی کی وجہ سے نہ جانے یہ شہر کس طرف جا رہا ہے، کراچی پر مِنی پاکستان کا ٹھپہ لگا کر پوری دنیا کے لیئے اس شہر کے دروازے کھول دیئے گئے تھے لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کی سونامی کو نہیں روکا گیا اور شہر کی جانب بڑھتی ہوئی نقل مکانی خصوصی طور پر افغان پناہ گزینوں کو داخل ہونے سے نہ روکا گیا تو یہ شہر کسی کے بس میں نہیں رہے ریاست اور حکومت بے بس ہوگئیں تو پھر کیا ہوگا ؟ صرف گذشتہ چھ ماہ کے دوران مزید دو لاکھ افغان پناہ گزین غیر قانونی طور پر کراچی میں داخل ہوئے ہیں یہ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمیشن کے تحت نہیں غیر قانونی نقل مکانی کے ذریعے داخل ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ کبھی بھی تھما نہیں ہے

کراچی کی ترقی کا راز اس بات میں پنہاں ہے کہ سندھ اسمبلی سے ہنگامی بنیادوں پر قانون سازی کے ذریعے غیر قانونی تارکین وطن اور غیر قانونی نقل مکانی کو روکا جائے اگر آئندہ دس برسوں یہ سلسلہ جاری رہا تو صورتحال شاید کسی کے بھی بس میں نا رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close