مسجدوں میں لکڑی کا کام کرنے والے ہندوؤں کے سوٹہڑ قبیلے کے تَرکھانوں کی کاریگری اور تاریخ

ویب ڈیسک

سندھ کا صحرائے تھر، جہاں ثقافت، روایت اور اقدار آج بھی اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں۔ تھر کا شمار دنیا کے بڑے صحراؤں میں ہوتا ہے، اس کو دوست صحرا بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دیگر صحرائی علاقوں کے مقابلے میں یہاں رسائی آسان ہے۔

تھر میں ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ رہتے آئے ہیں کبھی یہاں مسلمانوں تو کبھی ہندوؤں کی حکومتیں رہی ہیں۔ عید ہو یا ہولی کا تہوار، دونوں مذاہب سے تعلق رکھنے والے اس میں شریک ہوتے ہیں۔

تھرپارکر، عمرکوٹ، سانگھڑ اور میرپورخاص اضلاع میں ہندوؤں کی سوٹہڑ برادری بھی بستی ہے، جن کا خاندانی پیشہ لکڑی سے فرنیچر بنانا اور اس پر نقش نگاری کرنا ہے۔

فرنیچر بنانے کے اس کام میں ان کی اتنی مہارت ہے کہ وہ لکڑی دیکھ کر پہچان لیتے ہیں کہ یہ لکڑی کس درخت کی ہے اور اس لکڑی سے کون سا فرنیچر بن سکتا ہے۔

سوٹہڑ برادری کے تاریخی منظر پر ہم آگے چل کر بات کریں گے، لیکن پہلے تذکرہ عمرکوٹ سے بیس کلومیٹر شمال میں جانہیرو نامی گاؤں میں رہنے والے اَسی سالہ ہرچند را سوٹہڑ کا، جو اس وقت اپنی برادری اور علاقے میں لکڑی سے فرنیچر بنانے اور اس پر نقش نگاری کے کام کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔

ہرچند را نے عمرکوٹ شہر کی عمر فاروق مسجد کی چار کھڑکیوں اور ایک دروازے پر ایسے نقوش بنائے ہیں کہ جسے دیکھنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے ہیں۔

اس مسجد کے کام کے حوالے سے ہرچند را کہتے ہیں ”عمر فاروق مسجد کا یہ کام میں نے دلی محبت اور عقیدت سے کیا ہے۔ یہ کام کرتے ہوئے مجھے بڑا دلی سکون مل رہا تھا۔ آج بھی جب اس مسجد والی گلی سے گزرتا ہوں اور اپنے کام کو دیکھتا ہوں تو سکون ملتا ہے اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔“

ہرچند نے بتایا، ”یہ کام کرنے میں ہمیں تین سال لگ گئے۔ ہم نے یہ کام 2003 میں شروع کیا اور 2006 میں مکمل کیا۔“

وہ بتاتے ہیں ”اس کام کو مکمل کرنے میں چار لوگوں کی محنت لگی، جن میں، مَیں، میرا ایک بیٹا اور دو مزدور شامل تھے۔“

بقول ہرچند را، ”مجھے جو ہنر آتا تھا، وہ اس کام میں لگانے کی کوشش کی ہے، اس لیے میرا یہ کام بڑا مشہور ہوا ہے۔ اس کام کو دیکھنے والے جو لوگ آتے ہیں، وہ اسے بہت سراہتے ہیں۔ میں قاسم سراج سومرو کو دعائیں دیتا ہوں، جنہوں نے مجھے یہ کام کرنے کا موقع دیا۔“

انہوں نے مزید بتایا ”اس مسجد کے کام میں ہم نے ساگواں کی لکڑی استعمال کی ہے، جسے اب ’برما ٹیک‘ کہتے ہیں۔ ساگواں کی لکڑی انڈیا سے بھی آتی ہے اور برما سے بھی۔ انڈیا کی لکڑی میں خوشبو اور چکناہٹ برما کی ساگواں کی لکڑی سے زیادہ ہوتی ہے۔“

ہرچند را بتاتے ہیں کہ فرنیچر کے کام میں اب جدت آ گئی ہے اور اب سارا کام مشینوں پر ہوتا ہے۔

مشینوں نے جہاں اس کام کو آسان بنا دیا ہے، وہیں ہاتھ سے کام کرنے والے سوٹہڑ برادری کے لیے اپنے روزگار کو مشکلات کا شکار بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے سوٹہڑ برادری کے لوگوں نے اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاروبار اور ملازمتیں کرنا شروع کر دی ہیں۔ جبکہ ضرورت اس بات کی ہے وہ اپنے ہنر کو جدید تقاضوں سے آراستہ کریں

ہرچند را کہتے ہیں ”مشینوں کے کام اور ہمارے کام میں بہت بڑا فرق ہے۔ ہمارے ہاتھ کے کام میں صفائی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کام کو ہم بڑی باریک بینی سے کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ڈرائنگ پیپر پر ڈزائن بناتے ہیں۔ اس میں ہم فرنیچر کے سائز کو نظر میں رکھتے ہیں، لیکن پھر بھی اصل ڈزائن پیپر پر نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے دماغ میں ہوتا ہے۔“

فرنیچر پر ڈزائن بنانے کے اس کام کو وہ ’کھود کا کام‘ کہتے ہیں، جس کی تین مختلف اقسام ہیں: کٹنھارم، پھول پتی اور زنگی گل۔ اس کے علاوہ پیتل، چاندی، سونے، عاج اور سیپوں سے بھی فرنیچر پر ڈزائن بنائے جاتے ہیں۔

ہرچند را کہتے ہیں ”پھول پتی ڈزائن میں پھول پتے اور مکھڑیاں بناتے ہیں۔ کٹنھار میں چھوٹے اور بڑے پتے ہوتے ہیں اور زنگی گل میں ہم ڈزائن تو بناتے ہیں مگر وہ لکڑی پر ابھرے ہوئے نہیں ہوتے۔ پیتل کے کام میں پیتل کے پتے کراچی میں بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ ہم صرف لکڑی پر کھدائی کر کے ڈیزائن بنا کر انہیں لگاتے ہیں۔ چاندی اور سونے کے کام کے لیے سنار کو ڈزائن پیپر پر بنا کر دیتے ہیں۔ وہ اس ڈزائن کے حساب سے کام کر کے دیتا ہے۔“

ہرچند را کے ہاتھ کا بنا ہوا فرنیچر اب تک لاڑکانہ، دادو، نواب شاہ، کراچی، اسلام آباد اور دوسرے بہت سے شہروں میں جا چکا ہے، جبکہ سندھ کے بڑے بڑے سیاسی خاندان بھی ان سے فرنیچر کا کام کرواتے ہیں۔

اس وقت وہ محمد قاسم ساند کی مسجد کے لیے لکڑی کا محراب بنا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں ”ایک تو لوگوں کو سستا کام چاہیے اور دوسرا جلدی چاہیے۔۔ یہ دونوں چیزیں اس کام میں تو نہیں ہو سکتیں۔ یہ کام وقت لیتا ہے اور دوسرا جس لکڑی پر یہ کام ہوتا ہے، وہ بہت مہنگی ہے، اس لیے یہ کام ہر کوئی نہیں کروا سکتا۔“

سوٹہڑ قبیلے کی تاریخ

سندھ، ہندوستان میں رہنے والے ہندوؤں کی ایک معروف ذات ہے۔ اس ذات/قبیلہ کے لوگ گجرات، راجستھان، مہاراشٹر اور سندھ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں رہتے ہیں۔ لفظ سوٹہڑ کی ابتدا کے بارے میں معلومات دنیا کی قدیم ترین کتابوں رگ وید اور اتھروید میں ملتی ہیں۔ یہ لفظ بنیادی طور پر سوتردھرا، سترا، سوتراڑ، سوٹار سے ماخوذ ہے اور اب سوٹہڑ بن گیا ہے۔ سوٹہڑ کو واڈھو (بڑھئی)، ڈکھن، سوٹار، کاریگر، وشوکرما اور جانگیڑ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

قدیم ہندو پُستک اتھروید میں، جنگوں کے لیے رتھ بنانے والے کاریگر کو سوترا کہا جاتا ہے، جب کہ رگ وید میں لکڑی کے کام کرنے والے کو تستار/تشٹر کہا گیا ہے۔

مشہور محقق اور اسکالر، بھیرو مل مہرچند اڈوانی نے اپنی کتاب ’قدم سندھ‘ میں سوٹہڑوں کے بارے میں لکھا ہے: ”رگ وید کے زمانے میں، دوسرا اہم کام تَرکھانوں کا تھا، جو ’توسترا‘ (Taustra) کہلاتے تھے۔ انہیں ‘تکشت’ (بڑھئی / ترکھان) بھی کہا جاتا تھا۔ وہ گھر تو بناتے تھے لیکن گھر کے لیے گھریلو سامان (صندل وغیرہ) اور لکڑی کے برتن بھی بناتے تھے، جنہیں ’درون‘ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے رتھ، کشتیاں اور ڈونگیاں بھی بنائیں۔ روایتی گاڑیوں (رتھوں) میں گھوڑوں اور بیل جوتے جاتے تھے۔ رتھ بنانے والوں کو بہت اہمیت اور مرتبہ حاصل تھا“

بھرومل مہرچند مزید لکھتے ہیں ”یہ وشوکرما ہی تھے جنہوں نے بعد میں ‘سوٹہڑ’ قبیلے کی بنیاد رکھی۔ برہما پران کے مطابق، سوتھاروں کو بھگوان وشوکرما کی اولاد کے طور پر جانا جاتا ہے، جو لکڑی کے کام کرنے والے تھے۔ جب کہ گجرات اور سندھ کے کچھ علاقوں میں رہنے والے سوٹہڑ اپنے آپ کو راجپوت ونش کہتے ہیں، اس طرح سوٹہر کی شناخت جانگڈ برہمن اور راجپوت کے طور پر کی جاتی ہے۔ تھر کے سگھڑوں (لوک شاعروں) کی روایت کے مطابق سوٹہڑ ذات کے کچھ افراد کو برہمن اور کچھ کو راجپوت کہا جاتا ہے۔“

’ہسٹری آف راجستھان‘ میں کرنل ٹوڈ اور رائچند راٹھور نے ’تاریخِ ریگستان‘ میں سوٹہڑوں کی شناخت بھاٹی راجپوت کے طور پر کی ہے۔
سوٹہڑ ذات برصغیر کی محنت کش ذات ہے، جس نے سندھ کی تہذیب میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ان کی کاریگری اور ہنرمندی کی پہچان بادشاہت کے دور سے تسلیم شدہ ہے۔“

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس ذات کے لوگوں نے سندھ، گجرات اور راجستھان کے قدیم مندروں کی تعمیر اور لکڑی کا کام شاندار طریقے سے کرنا شروع کیا۔ ان میں سے کچھ گجرات میں ٹھہرے، پھر ان میں سے کچھ ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہوئے، جو آج بھی مختلف علاقوں اور شہروں میں موجود ہیں۔ سندھ ان میں سے بہت سے پڑھے لکھے لوگ ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اس خطے کے لحاظ سے زبان کے فرق کی وجہ سے سندھ کے بیراج علاقوں میں رہنے والے سوٹہڑوں کو ’سندھی سوٹہڑ‘ کہا جاتا ہے۔ رائچند راٹھور نے ‘تاریخِ ریگستان’ میں بتایا ہے کہ ”سوٹہڑ مارواڑ سے آئے ہیں۔ وہ لکڑی سے فرنیچر بناتے ہیں اور بڑھئی کا کام کرتے ہیں۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close