یہ گزشتہ برس کی بات ہے، جب آدم ایکمیی اپنی زمین کا معائنہ کر رہے تھے کہ اس دوران انہوں نے اپنے خوبانی اور بیری کے کئی درختوں کو زمین کے اندر دھنستے ہوئے دیکھا۔
ستاون سالہ کاشتکار کا کہنا ہے ”میرا پاؤں اچانک پھسلا اور میں نے زمین پر دیکھا تو وہاں کئی دراڑیں موجود تھیں۔ جب میں گھر واپس آیا تو متعدد درختوں سمیت زمین دھنس چکی تھی اور یہ منظر بہت ہی خوفناک تھا۔“
آدم کی چوبیس ایکڑ زمین ہے، جس میں دو بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں اور ہر گڑھا لگ بھگ پچاس میٹر گہرا ہے۔ ایک گڑھا تو ان کے گھر سے دس میٹر فاصلے پر ہے۔
آدم بتاتے ہیں ”میری زمین پر پہلی مرتبہ 2018 میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں تو میں بلدیاتی ادارے کے پاس گیا، جس کے ورکروں نے زمین کے اطراف پتھر لگا کر اسے بند کر دیا اور دو سال بعد زمین بالکل دھنس گئی۔“
اگرچہ زمین میں پڑنے والے گڑھوں کی وجہ سے علاقے میں اب تک کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے لیکن کسان نہ صرف اپنی زمین کے دھنسنے کے خطرے سے آگاہ ہیں بلکہ خوفزدہ بھی ہیں
ایک کسان فتح سک کو ہر وقت یہی خدشہ لاحق رہتا ہے کہ زرعی زمین پر ٹریکٹر چلاتے ہوئے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کسی گہرے گڑھے میں جا گریں، جن سے ان کی موت واقع ہو جائے۔
فتح سک کا تعلق ترکیہ کے زرعی صوبے قونیہ کے ضلع کراپینار سے ہے، جہاں ان کی زمین میں پہلے ہی دو بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں۔
فتح کا کہنا ہے ”زمین کا کوئی بھی حصہ کسی بھی وقت گڑھا بن سکتا ہے، لیکن کیا کروں، مجھے کام کرنا ہی پڑے گا، ورنہ میری فیملی کو فاقہ کشی کی صورتِ حال سے دوچار ہونا پڑے گا۔“
اسی طرح کی صورتحال کاشت کار یگت اکسل کو بھی پیش آئی۔ انہوں نے بتایا ”زمین پر چلتے ہوئے اچانک میرا پاؤں پھسلا اور میں نے دیکھا کہ زمین پر کئی دراڑیں موجود تھیں“
ایک ستائیس سالہ افغان چرواہے عمر نے اپنی بھیڑیں چراتے ہوئے کہا کہ اسے ڈر ہے کہ گڑھا اس کے ریوڑ کو نگل لے گا۔ ”خدا نہ کرے، اگر کوئی ایک جانور گرا ہے تو پیچھے آنے والے جانوروں کے ساتھ ساتھ بھی یہی ہوگا۔“
اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ترکیہ کے وسطی اناطولیہ میں صدیوں سے گڑھے پڑ رہے ہیں لیکن حالیہ عرصے کے دوران ان گڑھوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق گڑھے پڑنے کی وجہ خشک سالی کی وجہ سے زراعت کے لیے زیرِ زمین پانی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔
قونیہ کے ہموار علاقے میں جگہ جگہ کئی گہرے گڑھے موجود ہیں، ان میں سے کئی 165 فٹ گہرے بھی ہیں جو دور سے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر آپ اس علاقے میں مکئی، گندم اور دیگر فصلوں کے کھیتوں میں جائیں تو یہ گڑھے نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔
زمین میں پڑنے والے ان گڑھوں کی وجہ کے بارے میں قونیہ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر عارف دیلیکان کہتے ہیں ”زمین میں گڑھے پڑنے کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ صرف گزشتہ برس کراپینار میں بیس گڑھے سامنے آئے ہیں۔“
عارف دیلیکان قونیہ کے علاقے میں اب تک چھ سو چالیس گڑھے تلاش کر چکے ہیں، جن میں سے چھ سو سے زیادہ ڈسٹرکٹ کراپینار میں ہیں۔
پروفیسر عارف سرکاری ادارے ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ پریزیڈنسی آف ترکیہ [اے ایف اے ڈی] کے ساتھ مل کر دو ہزار سات سو سے زیادہ ایسے مقامات کی نشاندہی کر چکے ہیں، جہاں زمین پر ایسے آثار موجود ہیں، جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں زمین کے دھنسنے کا خدشہ ہے۔
سنکھول اس جگہ پیدا ہوتے ہیں جہاں پانی سطح کے نیچے بیڈراک کو تحلیل کرتا ہے، جس کی وجہ سے یہ غار میں داخل ہو جاتا ہے۔ زیرِ زمین پانی میں مٹی کی آمیزش کی وجہ سے اکثر زمین میں سوراخ ہو جاتے ہیں اور ایسا بعض اوقات قدرتی طور پر ہوتا ہے اور کبھی یہ کسی انسانی سرگرمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔
زمین دھنسنے کا عمل بہت سست یا کبھی اچانک بھی ہو سکتا ہے۔ ترکیہ کے فلم ڈائریکٹر ایمن الپر نے 2022 میں اپنی فلم ’برننگ ڈیز‘ اس کی عکاسی کی تھی اسے ترکیہ کے معاشرے سے جوڑا تھا۔
قونیہ میں موسمِ سرما کے دوران اوسط سے 40 فی صد کم بارشیں ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے کاشت کاروں پر پیداوار کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے وہ غیر قانونی طور پر کنویں کھود رہے ہیں جس کی وجہ سے زمین کی ساخت متاثر ہو رہی ہے۔
ترکیہ کے اس خطے میں گندم کی ملکی پیداوار کا 36 فی صد اور چقندر کی 35 فی صد کاشت ہوتی ہے۔
کاشت کار یگت اکسل تسلیم کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے دن بہت ہی مشکل ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ زمین کی کھدائی اور آب پاشی کو کسی طرح حالات کا ذمے دار قرار دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ”گزشتہ بیس برس کے دوران خشک سالی کی صورتِ حال ہے، جس کی وجہ سے کاشت کاروں نے زراعت کے لیے زیرِ زمین پانی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ خطے میں زیرِ زمین پانی کم ہو رہا ہے۔“
ان کے بقول، کراپینا میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال دس سے بیس میٹر کم ہو رہی ہے۔
کرانیپار کی لیک میکی کا پانی ایک دہائی کے دوران سوکھ چکا ہے اور وہاں اب زمین نمک کی تہہ موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خشکی کی شکار زمینوں کے لیے بارش خطرناک ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب ترکیہ کے بعض انٹرپریونر نے زمین میں پڑنے والے گڑھوں کو سیاحت کے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ ہفتے کم کینی نامی شخص نے ملک کے قدیم گڑھے کے قریب تیرہ کمروں کے لگژری ہوٹل کا افتتاح کیا ہے، جو گڑھے کے قریب ایک جھیل کی طرح نظر آتا ہے۔
کینی کہتے ہیں ”ہمیں گڑھوں کی موجودگی کے خوف کو مثبت لینے کی ضرورت ہے۔“
ان کے ہوٹل میں قیام کرنے والے ایک کورین سیاح سینگمو کِم گڑھے کے قریب ہوٹل دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ہیں، ان کا کہنا ہے ”میں نے یہ منظر پہلی دفعہ دیکھا ہے، یہ واقعی بہت حیران کن ہے۔“