’پرفیکٹ‘ مصنوعی دل کی تیاری کب تک ممکن ہو سکے گی؟

ویب ڈیسک

اگر آپ طبی تحقیقات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ اس بات سے ضرور واقف ہونگے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ ہائی ٹیک مصنوعی دل ایک دہائی قبل لگانے کی کوشش کی گئی تھی، لیکن اس کے بعد سے سائنسدان اس شعبے میں کوئی انقلاب برپا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہو سکا؟

دل اصل میں ہمارے جسم میں موجود ایک سادہ سا عضو ہے۔ ایک پمپ، چار چیمبرز، چند والوز، ٹیوبز اور انتہائی شاندار قسم کی وائرنگ پر مشتمل۔۔ لیکن جب یہ پمپ ویسے کام نہیں کرتا، جیسے کہ اسے کرنا چاہیے تو انسان کی صحت شدید خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔ پمپ کمزور ہو جائے تو یہ خون کو مؤثر طریقے سے پورے جسم میں منتقل نہیں کر پاتا

اس صورت میں متاثرہ افراد کو سانس لینے میں بہت تکلیف ہوتی ہے، یہاں تک کہ آرام کے وقت بھی وہ درست طریقے سے سانس نہیں لے سکتے۔ ان کے اعضاء کو کافی مقدار میں خون فراہم نہیں ہوتا، جس کے باعث ان میں آکسیجن اور غذائی اجزاء کی کمی ہوتی ہے

ایسی صورت میں واحد راستہ نیا دل لگانا ہوتا ہے۔ تاہم دل عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیائے طب میں اس کے متبادل کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے

ماہرِ امراض قلب اور دل کے سرجن گزشتہ ساٹھ برسوں سے مصنوعی دل تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے مریض، جن میں دل کی بیماری زیادہ شدید نہیں ہوتی، اگرچہ ان کے دلوں کو سہارا دینے یا بہتری کے لیے متعدد نظام موجود ہیں، لیکن جن مریضوں میں دل کی بیماری انتہائی شدید ہو، ان کے لیے ابھی تک کوئی حل موجود نہیں ہے

یہ 1982ع کی بات ہے، جب امریکہ میں پہلی مرتبہ مصنوعی دل لگایا گیا تھا، لیکن یہ دل صرف چند ایک بنیادی ضروریات پوری کرتا تھا اور مریض کی دیگر مخصوص ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس کے باوجود دل کی اس پیوندکاری کی تعریف کی گئی تھی

اس مصنوعی دل کے پیچھے سرکردہ کردار فرانسیسی ہارٹ سرجن ایلاں کارپنتے کا تھا، جو اس سے قبل دل کے والوز بنانے کی وجہ سے اپنی پہچان بنا چکے ہیں۔ انہوں نے بیمار دل کے پرانے اور مصنوعی مواد کو تبدیل کرنے کے لیے پگ کارٹلیج جیسا حیاتیاتی مواد متعارف کرایا تھا

ایلاں کارپنتے نے حیاتیاتی مواد کو پورے دل تک پھیلا دیا۔ انہوں نے دل کی تیاری میں جدید ترین سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے بہت سے دوسرے پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایسا مصنوعی دل تیار ہوا، جو استعمال کرنے والے شخص کی جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ڈھل سکتا تھا۔

یہ ’کارمٹ دل‘ پہلی بار ایک چھہتر سالہ شخص کو لگایا گیا تھا، جس کے دل کی حالت شدید خراب تھی۔ اس نئے پمپ کے ساتھ وہ مزید چوہتر دن تک زندہ رہے۔

مصنوعی دل بنانے والی کمپنی کارمیٹ کے سربراہ اسٹیفن پیاٹ بتاتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران مصنوعی دل کے سطحی مواد، سافٹ ویئر اور پمپس میں بہت سی دوسری ایڈجسٹمنٹ کی گئی ہیں۔ تقریباً پچاس مریضوں میں اس طرح کے مصنوعی دل لگائے گئے ہیں۔ فی الحال پندرہ لوگوں کے سینے میں ’کارمٹ دل‘ دھڑک رہے ہیں جبکہ باقی مریض وفات پا چکے ہیں

کارمیٹ ہارٹ ایک پیچیدہ ٹیکنالوجی ہے۔ کارمٹ دل کا سائز بڑا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ چھوٹے سینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ خاص طور پر اسے خواتین کے سینے میں امپلانٹ نہیں کیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ یہ بہت پیچیدہ بھی ہے۔ کارمیٹ دل تقریباً ڈھائی سو اجزاء یا پرزوں پر مشتمل ہے، جن مے بارے میں برلن میں شاریٹے ہسپتال کے ہارٹ سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر ایوگینیج پوٹاپوو کہتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ٹوٹ سکتا ہے

یہی بات کارمیٹ دل کو دوسرے مصنوعی دلوں کے مقابلے میں بہت زیادہ کمزور بنا دیتی ہے اور ہمیشہ کی طرح زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے قیمت بھی زیادہ ادا کرنا پڑتی ہے۔ ایسے ایک دل کی قمیت تقریباً دو لاکھ ڈالر ہے۔ ڈاکٹر پوٹاپوو کے مطابق، جن مریضوں میں یہ دل لگائے تھے، ان میں سے نصف چھ ماہ سے زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہے

کمپنی کارمیٹ کے سربراہ سٹیفن پیاٹ کے مطابق اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کارمٹ دل کے ساتھ طویل عرصے تک زندہ رہنا ممکن ہے؟

اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی آئندہ برسوں میں طویل المدتی تھراپی کی سمت آگے بڑھے گی۔ ابھی تک کارمیٹ ہارٹ کو یورپی مارکیٹ میں صرف ایک عبوری حل کے طور پر منظور کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر ایوگینیج پوٹاپوو کہتے ہیں، ”اگر اس کا سائز نصف ہو جائے اور کوئی تکنیکی مسئلہ بھی نہ ہو تو یہ بڑی کامیابی ہوگی۔‘‘

تاہم 2021 کے آخر میں معیار کے مسائل کی وجہ سے کمپنی کو ایک سال کے لیے اپنی مصنوعات مارکیٹ سے ہٹانا پڑی تھیں۔

دریں اثنا محققین خنزیر کے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دلوں اور انجنیئرڈ ٹشوز کے ساتھ تجربات کر رہے ہیں۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا ایسے دل مصنوعی دلوں سے زیادہ کامیاب رہیں گے۔

بہرحال اس صورتحال سے طبی ماہرین جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ابھی تک سائنسدان ایسا کوئی بھی مصنوعی دل بنانے میں ناکام رہے ہیں، جو انسان کو سینے میں طویل عرصے تک دھڑک سکے اور زندگی سے اس کا رشتہ بحال رکھ سکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close