کیا ڈونلڈ لُو اس سے قبل دیگر ملکوں کو بھی دھمکیاں دیتے رہے ہیں؟

ویب ڈیسک

کراچی – پاکستان میں قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل ہونے کے بعد ملک ایک آئینی بحران کا شکار ہے۔ اس سیاسی غیر یقینی کا آغاز اپوزیشن کی عدم اعتماد تحریک کے بعد وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس انکشاف سے ہوا کہ ایک ’امریکی سازش‘ کے تحت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی

بعد ازاں وزیر اعظم نے بتایا کہ اس کوشش کے ’مرکزی کردار‘ امریکا کے جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لُو ہیں

وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا کہ ایک ملک کی جانب سے حکومت پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے اور حکومت ہٹانے کی سازش کی جا رہی ہے

جلسے کے بعد ایک اور تقریر میں عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر سے کہا کہ ’اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے‘

عمران خان کا اصرار ہے کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد ان کی حکومت کو ہٹانا تھا لہٰذا انھوں نے خود ہی اسمبلی تحلیل کر کے قبل از وقت الیکشن کا اعلان کر دیا۔

تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے، جبکہ پاکستان نے امریکی تردید کو سراسر جھوٹ قرار دیا ہے

ڈونلڈ لو جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے امریکی دفتر خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری ہیں اور انہیں امریکا کے لیے بطور سفارتکار خدمات انجام دیتے ہوئے تیس سال سے زائد ہو چکے ہیں. وہ پاکستان سمیت بھارت ، آذربائیجان، کرغزستان اور متعدد افریقی ممالک میں قائم امریکی سفارت خانوں میں مختلف پوزیشنز پر خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ کئی زبانوں سے واقفیت رکھتے ہیں، جن میں اُردو، ہندی اور روسی زبانیں شامل ہیں

ایشیائی نژاد امریکی ڈونلڈ لو امریکا کی ریاست ہوائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈونلڈ لو کے والد کا تعلق چین کے شہر شنگھائی سے تھا، جنہوں نے تائیوان سے امریکا نقل مکانی کی اور ہوائی سے تعلق رکھنے والی خاتون سے شادی کی

کئی زبانوں سے واقفیت رکھنے والے ڈونلڈ لو کے مطابق ایشیائی امریکی ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ انہیں چینی شہری سمجھتے ہیں، لیکن انہیں چینی زبان بالکل نہیں آتی

اگرچہ ڈونلڈ لو نے بہترین امریکی یونیورسٹیز میں سے ایک پرنسٹن سے بین الاقوامی تعلقات میں بیچیلرز اور ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں لیکن جب انہوں نے محکمہ خارجہ میں شمولیت کے لیے پہلی مرتبہ امتحان دیا تو وہ ناکام رہے تھے

ایشیائی امریکی اقلیت سے تعلق ہونے کی وجہ سے انہیں رعائتی نمبر دیے گئے تاکہ وہ انٹرویو دے سکیں، مگر انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور افریقہ کے ملک سیرا لیون میں امن دستے میں بطور رضاکار کام کرنے لگے. ڈونلڈ لو نے امریکی محکمہ خارجہ میں بطور انٹرن شمولیت اختیار کی اور بعد میں کمیشن حاصل کیا

ڈونلڈ لو سنہ 1992ع سے سنہ 1994ع کے دوران پاکستان کے شہر پشاور میں امریکی قونصل خانے میں بطور پولیٹیکل آفیسر بھی تعینات رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی اہلیہ ایریل سے اُن کی پہلی ملاقات بھی پشاور میں ہی ہوئی تھی، جو اس وقت وہاں بطور ایڈ ورکر کام کرتی تھیں

ڈونلڈ لو نے دو مرتبہ بھارت میں بھی سفارتی ذمہ داریاں ادا کیں، جس کی وجہ سے وہ اُردو اور ہندی دونوں زبانوں کو سمجھتے ہیں اور خطے کی سیاسی صورتحال سے بخوبی واقف ہیں

ڈونلڈ لو ان چند امریکی سفیروں میں سے ہیں جو میڈیا کے سامنے آنے سے نہیں کتراتے۔ جب وہ البانیہ میں سفیر تھے تو انہوں نے مقامی میڈیا کے متعدد چینلز کو انٹرویو دیے تھے

ڈونلڈ لو کو جب بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے سنہ 2021ع میں جنوبی اور وسطی ایشیا کے لیے اسسٹنٹ سیکریٹری نامزد کیا گیا تو انہوں نے اس عزم کا ارادہ کیا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق، مذہبی آزادی اور امریکا اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں

اپنے ایک انٹرویو میں ڈونلڈ لو نے کہا تھا کہ ان کے کیرئیر میں سب سے مشکل مشن آذربائیجان رہا ”جس کی وجہ وہاں کے حکمران کی جانب سے جمہوری اقدار کا احترام نہ کرنا تھا“

واضح رہے کہ سنہ 2009ع میں وکی لیکس میں سامنے آنے والی کیبلز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آذربائیجان کے صدر کو ان کے آمرانہ طرز حکومت پر ”شدید تنقید“ کا نشانہ بناتے رہے تھے

ایک انٹرویو میں جب ڈونلڈ لو سے سوال کیا گیا کہ بطور سفیر ان کا طرز عمل کیسا ہوتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے دو سینیئر افسران سے بہت سیکھا، ایک نینسی پاول جن سے انھوں نے لوگوں سے شفقت سے پیش آنا سیکھا اور دوسری ماری یووینوویچ جنھوں نے انھیں سکھایا کہ ”اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جانا پڑے تو جائیں“

اس ساری کہانی میں ایک بات انتہائی دلچسپ ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی دوسرے ملک سے سفارتی رابطے کے دوران ڈونلڈ لو پر سخت اور دھمکی آمیز الفاظ کے استعمال کا الزام لگایا گیا ہو

رواں سال فروری میں نیپال اور امریکا کے درمیان طے شدہ ایک انفراسٹرکچر معاہدے کی نیپال کی پارلیمان میں توثیق کے معاملے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا اور مقامی شہریوں کی جانب سے اس کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا

احتجاج کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے خیال میں اس معاہدے سے نیپال میں امریکی فوجی موجوگی کی راہ ہموار ہوگی

عوامی احتجاج کی وجہ سے جب نیپال کی پارلیمان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق میں کچھ تاخیر ہوئی تو نیپالی اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ ”ڈونلڈ لو نے نیپالی رہنما کو ایک فون کال کے دوران یہ دھمکی دی کہ اگر نیپال کی پارلیمان نے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی، تو انہیں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو کہ امریکا نیپال تعلقات پر اثر انداز ہوگا“

تاہم اُس وقت بھی امریکی محکمہ خارجہ نے ان الزامات کی تردید کی تھی، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے کچھ عرصے بعد ہی شدید عوامی مخالفت کے باوجود نیپال کی پارلیمان کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق کر دی گئی

اور اب پاکستان کی حکومت کی جانب سے ڈونلڈ لو پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کے امریکا میں سفیر سے ملاقات کے دوران نہایت سخت الفاظ کا استعمال کیا جو عموماً سفارت کاری کے دوران دیکھنے میں نہیں آتا

لیکن یہ بات بھی یہاں قابل ذکر ہے کہ امریکی سفارت کاروں کا پاکستان رہنماؤں کے ساتھ دھمکی آمیز رویہ اختیار کرنے کا یہ پہلا واقع نہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے بھی الزام عائد کیا کہ اس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمیٹیج نے پاکستان کو دھمکی دی کہ اگر پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں ان کا ساتھ نہ دیا، تو وہ پاکستان پر بمباری کر کے اسے پتھر کے دور میں پہنچا دیں گے

ڈونلڈ لو نے عمران خان کی جانب سے اپنے اوپر لگنے والے بیان کا جواب تو نہیں دیا البتہ امریکی دفتر خارجہ متعدد بار ان الزامات کی تردید کر چکا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close