آکوپنکچر ایک ایسا طریقہ علاج ہے، جو جدید سائنسی دور میں بھی اپنی قدامت کے باوجود حیرت انگیز طور پر نظ صرف زندہ ہے بلکہ روز بروز مقبول بھی ہو رہا ہے۔ یہ اس بات کا عکاس ہے کہ بعض اوقات صدیوں پرانی روایات اور علاج کے طریقے جدید طبی تحقیقات کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آکوپنکچر کا نظریہ جسم میں توانائی کے بہاؤ پر مبنی ہے، جسے ’چی‘ Qi کہا جاتا ہے، اور اس کا کوئی سائنسی ثبوت یا نیورولوجیکل نقشہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود، یہ طریقہ علاج دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے درد، تناؤ، اور مختلف بیماریوں کے علاج میں مؤثر ثابت ہوا ہے۔ گویا انسانی جسم اور ذہن کی کچھ گتھیاں ایسی بھی ہیں، جنہیں سمجھنے کے لیے ہمیں صرف سائنسی منطق پر ہی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، بلکہ قدیم حکمتوں کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
ویسے تو سوئی چبھنے سے جسم میں درد کی ایک لہر اٹھتی ہے لیکن آکوپنکچر ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس میں درد کا علاج سوئیاں چبھو کر کیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں دائمی اور شدید درد میں مبتلا بہت سے مریض آکو پنکچر کے کسی ماہر کے پاس جاتے ہیں۔ وہ ان کے بدن کے مخصوص حصوں پر سوئیاں چبھو کر علاج کرتا ہے۔ اکثر مریضوں کا کہنا ہے کہ آکوپنکچر کے چند سیشن سے درد سے مستقل نجات مل جاتی ہے۔
آخر درجنوں ننھی ننھی سوئیاں درد کیسے دور کرتی ہیں؟ اس بارے میں جدید سائنس کی معلومات محدود ہیں اور اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے جو زیادہ تر امریکہ کی ہاروڈ یونیورسٹی میڈیکل اسکول اور جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں کی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر، سوئیوں کے بجائے تیز پتھر اور لمبی تیز ہڈیاں استعمال ہوتی تھیں، جو کہ 6000 قبل مسیح میں
آکوپنکچر علاج کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ یہ آلات سادہ جراحی کے عمل جیسے پھوڑے کا علاج کرنے کے لیے بھی استعمال ہو سکتے تھے۔
چین کے ما-وانگ-دائی مقبرے میں 198 قبل مسیح میں محفوظ کی جانے والی دستاویزات میں آکوپنکچر کے طریقوں کا ذکر نہیں ہے، لیکن وہاں توانائی کی گزرگاہوں (میرڈینز) کا ذکر ہے۔
آکوپنکچر تھیوری میں یہ عقیدہ ہے کہ انسانی جسم میں توانائی رواں دواں ہوتی ہے اور اسے متوازن کرنے اور صحت مند بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس توانائی کو ’چی‘ Qi کہا جاتا ہے۔
آکوپنکچر تھیوری کے مطابق چی کو جسم کے اندر تمام اعضاء اور حصوں تک پہنچانے کے لیے چینلز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جس کی 12 مرکزی شاخیں (گزرگاہیں) ہیں۔ اس نیٹ ورک کو مریڈینز (Meridian) کہا جاتا ہے۔ یہ میرڈینز جسم کے اہم اعضا اور افعال کی نمائندگی کرتی ہیں۔
قدیم چینی حکماء کے نظریے کے مطابق جب تک مخصوص توانائی چی جسم کے اندر بلا روک ٹوک بہتی رہتی ہے، انسان جذباتی اور روحانی طور پر صحت مند رہتا ہے۔جب چینل کے کسی حصے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور کسی عضو تک چی کی رسائی رک جاتی ہے تو وہاں تکلیف شروع ہو جاتی ہے۔جسے دور کرنے کے لیے چینی طبیب وہاں سوئیاں چبھوتے تھے تاکہ چینل کا راستہ کھل جائے اور چی کا بہاؤ بحال ہو جائے۔
قدیم چینی فلسفے میں انسانی جسم کے اندر لگ بھگ دو ہزار ایسے پوائنٹس ہیں، جن تک چینل نیٹ ورک انرجی (چی) پہنچاتا ہے۔
مزید یہ کہ اوٹزی ’آئس مین‘ کے جسم پر پائے جانے والے ٹیٹو نشانات، جو تقریباً 3300 قبل مسیح میں مرے تھے، توانائی کی گزرگاہوں پر مبنی کسی قسم کے تحریکی علاج سے مشابہہ ہیں۔ آئس مین کو اس وقت دریافت کیا گیا جب الپائن گلیشیر پگھلا۔
آکوپنکچر کے طریقوں کا سب سے قدیم ذکر پیلی شہنشاہ کی داخلی طب کی کلاسیکی کتاب میں پایا جاتا ہے، جو تقریباً 100 قبل مسیح کی ہے۔ اس کتاب میں سوالات کے جوابات کی صورت میں علم درج ہے، جو شہنشاہ نے اپنے وزیر چھی-پو سے کیے۔ اس کتاب میں توانائی کی گزرگاہوں (میرڈینز) کا تفصیلی علم موجود ہے۔ آکوپنکچر کے نقطوں کی تفصیلات تاہم بعد میں تیار کی گئیں۔
اگلی چند صدیوں کے دوران اس طریقہ علاج کی ترقی ہوئی اور آہستہ آہستہ یہ چین میں ایک معیاری علاج بن گیا۔ اس کی تکمیل مالش، غذا، جڑی بوٹیوں اور گرمی کے علاج یا موکسابیشن کے ساتھ کی گئی۔
پندرھویں صدی میں کانسی کے مجسمے، جن پر آج بھی آکوپنکچر کے نقطے موجود ہیں، متعارف کیے گئے۔ انہیں تدریس اور امتحانات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
چودہویں اور سولہویں صدیوں کے درمیان، منگ سلطنت (1368-1644) میں آکوپنکچر کی ترقی ہوئی۔ اس دوران ’آکوپنکچر اور موکسابیشن کا عظیم مجموعہ‘ شائع ہوا، جس میں آکوپنکچر کے اصول درج ہیں جن پر جدید روایتی عمل کی بنیاد ہے۔ اس کتاب میں 365 نقطے بیان کیے گئے ہیں، جو توانائی کی گزرگاہوں کے راستوں کو کھولنے کے مقامات کی نمائندگی کرتے ہیں، جن میں سوئیاں ڈال کر چی کی روانی کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
سترھویں صدی سے اس روایت میں دلچسپی کم ہونے لگی۔ اسے غیر معقول سمجھا گیا اور اس میں توہمات شامل کی گئیں۔ 1822 میں شہنشاہ کے حکم نامے نے آکوپنکچر کو شاہی طبی ادارے سے خارج کر دیا۔ دیہی معالجین اور کچھ علماء نے اس عمل کا علم سنبھالے رکھا۔
بیسویں صدی میں مغربی طب کے عروج کے ساتھ، آکوپنکچر کی روایات مزید بدنام ہو گئیں۔ 1929 میں اسے چین میں دیگر روایتی علاجوں کے ساتھ غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
1949 میں چین کی کمیونسٹ حکومت نے روایتی طب کی شکلوں کو دوبارہ زندہ کیا، جس میں آکوپنکچر بھی شامل تھا۔ 1950 کی دہائی میں چین بھر میں آکوپنکچر کے تحقیقی ادارے قائم کیے گئے اور یہ عمل کئی ہسپتالوں میں دستیاب ہوا۔
یہ عمل کئی دوسرے ممالک تک پھیل گیا۔ تاریخی طور پر کوریا اور جاپان نے چھٹی صدی میں اس علم کو اپنایا۔ یورپی معالج ٹین رائن، جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے کام کرتے تھے، نے تقریباً 1680 میں اس عمل کو طبی طور پر بیان کیا۔ انیسویں صدی کے پہلے نصف میں امریکہ اور برطانیہ نے بھی اس قدیم علاج میں دلچسپی ظاہر کی۔
1971 میں ایک امریکی پریس کور کا رکن چین میں ایمرجنسی اپنڈیکٹومی کے بعد آکوپنکچر کے علاج سے صحت یاب ہوا۔ اس نے اپنے تجربے کو نیویارک ٹائمز میں بیان کیا اور اس عمل کی کامیابی میں دلچسپی پیدا کی۔
آخر کار، امریکہ میں آکوپنکچر کو قبول کر لیا گیا جب این آئی ایچ کے ایک کانفرنس میں اس کی کچھ بیماریوں میں مؤثر ہونے کے لیے مثبت شواہد فراہم کیے گئے۔
گزشتہ برسوں کے دوران آکوپنکچر پر باقاعدہ طبی تحقیق بھی ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس طریقہ علاج میں سوئیوں کی مدد سے مرکزی اعصابی نظام کے اہم پوائنٹس کو متحرک کیا جاتا ہے، جس سے اعصاب، ریڑھ کی ہڈی اور دماغ میں مخصوص کیمیکل خارج ہوتے ہیں جو جسم کے اس قدرتی نظام کو فعال کر دیتے ہیں، جس کا تعلق شفایابی اور بیماری پر کنٹرول سے ہوتا ہے۔
ہارورڈ میڈیکل اسکول میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ آکو پنکچر دماغ کو پیغام بھیجنے والے اعصابی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے اور ان نیوران کو متحرک کرتا ہے جو سوزش روکنے میں مدد دیتے ہیں۔
آکو پنکچر پر ایک ریسرچ کے دوران ظاہر ہوا کہ جب جسم میں پھیلے ہوئے اعصابی نظام کے کسی حصے میں سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں تو اس دوران دماغ کے اسکین میں برقی ارتعاش پیدا ہوتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ آکو پنکچر دماغ اور اعصاب کے درمیان پیغام رسانی کے عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
آکو پنکچر کے ماہرین صرف اس حصے میں سوئیاں چبھوتے ہیں، جہاں سے اعصابی نظام کے سرکٹ گزر رہے ہوتے ہیں۔ اگر اس مقام سے ہٹ کر سوئی چبھوئی جائے تو وہ فائدے کی بجائے الٹا نقصان دیتی ہے۔ اس لیے آکو پنکچر کا انتخاب کرتے وقت یہ ضروری ہوتا ہے کہ اس طریقہ علاج کے کسی ماہر کا ہی چناؤ کیا جائے۔
آکو پنکچر کے متبادل کی بات کی جائے تو جانزہاپکنز کی ایکوپنکچر ویلنس اینڈ پریونشن ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ درد دور کرنے کے لیے جسم کے جن حصوں پر سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں، وہاں گرمائش پہنچانے، دباؤ ڈالنے، مسلنے، کپنگ اور الیکٹرومیگنیٹ کے استعمال سے بھی وہی نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ فزیوتھراپی سے متعلق مختلف کلینکس میں ان میں سے اکثر طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
آکوپنکچر طریقہ علاج کو اب جدید شکل دے کر فزیوتھراپی میں شامل کر لیا گیا ہے جسے ڈرائی نیڈلنگ کہتے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد کے فزیو تھراپسٹ اور انسانی جسم کی حرکیات(kinesiology)، درد کی روک تھام، کپنگ تھراپی اور ڈرائی نیڈلنگ کے ماہر ڈاکٹر عفاف شیخ کہتے ہیں کہ ڈرائی نیڈلنگ آکو پنکچر کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، جسے فزیو تھراپی میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ دونوں کا طریقہ علاج مختلف ہے لیکن اس میں ایک یکسانیت یہ ہے کہ دونوں میں دواؤں کا استعمال نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ آکو پنکچر کو یہ نام اس لیے دیا گیا گیا کیونکہ اس طریقہ علاج میں سوئی کے ذریعے جلد کو پنکچر کیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج، درد، جوڑوں کے دائمی درد، کمر کے درد، اعصابی تناؤ اور اس کے علاوہ خوف، بے چینی اور تناؤ کو دور کرنے میں کام آتا ہے۔
ڈاکٹر عفاف شیخ کا کہنا ہے کہ ڈرائی نیڈلنگ کے عمل میں جراثیم سے پاک سوئیاں جسم کے مخصوص حصے میں داخل کی جاتی ہیں اور انہیں بجلی کے ہلکے جھٹکے دیے جاتے ہیں، جس کا مقصد اعصاب کے تناؤ کو دور کرنا ان کا قدرتی نظام بحال کرنا ہوتا ہے۔
آکو پنکچر اور فزیوتھراپی میں فرق کے بارے میں ورجینا میں ڈاکٹر آف فزیکل تھراپی ڈاکٹر افشاں مبشر کہتی ہیں کہ اکوپنکچر بنیادی طور پر اعصاب کے کھنچاؤ ، درد اور ٹینشن دور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جسم کے مخصوص حصوں میں سوئیاں چبھوئی جاتی ہیں، جب کہ فزیو تھراپی کسی طبی صورت حال کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے ، مثلاً سرجری کے بعد اعصاب کی فعالیت کو بحال کرنا وغیرہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں چینی آکوپنکچر کا استعمال محدود ہے کیونکہ اکثر ہیلتھ انشورنس کمپنیاں اس طریقہ علاج کو سپورٹ نہیں کرتیں
تاہم امریکہ میں صحت کے اکثر مراکز میں فزیوتھراپی کے ساتھ ڈرائی نیڈلنگ تھراپی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جو چینی آکوپنکچر کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
امریکہ کا فیڈرل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (FDA) آکوپنکچر میں استعمال کی جانے والی سوئیوں کو بھی اسی طرح ریگولیٹ کرتا ہے، جس طرح وہ طبی شعبے کے دوسرے آلات کو کرتا ہے۔
مشی گن کے فزیکل تھراپسٹ عاطف فاروقی کہتے ہیں کہ امریکہ میں آکوپنکچر کے بہت سے پرائیویٹ کلینک موجود ہیں۔ ان کلینکس میں کام کرنے کے لیے آکوپنکچر کی مستند ڈگری یا سند کا ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ میں یہ طریقہ علاج زیادہ عام نہیں ہے، جس کی وجہ اس کا مہنگا اور قدرے طویل ہونا ہے۔
امریکہ میں کئی تعلیمی ادارے آکو پنکچر کی تعلیم دیتے ہیں۔ مشنی گن میڈیکل ایکوپنکچر میں اس شعبے میں چار سالہ ڈگری سمیت سرٹیفیکشن کی سطح کی تعلیم اور تربیت بھی دی جاتی ہے۔
کونسل آف کالجز آف آکوپنکچراینڈ اورینٹل میڈیسن کی 2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 50 سے زیادہ اداروں میں آکوپنکچر میں چار سالہ ڈگری کی سطح کی تعلیم دی جا رہی تھی جن میں سے 15 کالجوں کو بہترین کے درجے پر رکھا گیا تھا۔
اس کونسل کا قیام 1982 میں عمل میں آیا تھا اور امریکہ کا محکمہ تعلیم اسے ایک پروفیشنل ایجنسی کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
آئی بی آئی ایس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں امریکہ میں 34 ہزار سے زیادہ لائسینس یافتہ آکوپنکچر کے ماہرین کام کر رہے تھے جن میں سے زیادہ تر کیلی فورنیا، نیویارک اور فلوریڈا میں تھے۔
پاکستان میں آکوپنکچر علاج کی بات کی جائے تو یہاں اس کا دائرہ کار محدود ہے۔ سندھ حکومت کے معذور افراد کے حقوق کے تحفظ سے متعلق محکمے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر رتنا دیوان نے پاکستان کے حوالے سے بتایا کہ آکو پنکچر کے بارے میں لوگوں کی آگاہی زیادہ نہیں ہے۔ چند بڑے شہروں میں آکو پنکچر کے اکا دکا کلینک موجود ہیں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سندھ حکومت معذور افراد کے لیے ان سروسز کا دائرہ بڑھا رہی ہے، جن میں زیادہ توجہ فزیوتھراپی،اسپیچ تھراپی پرمرکوز کی جا رہی ہے۔
اسلام آ باد کے ڈاکٹر عفاف شیخ نے بتایا کہ اسلام آباد میں چینی ایکوپنکچر کے دو کلینک کام کر رہے ہیں۔
اس ساری کہانی میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آکوپنکچر کتنا مؤثر ہے؟ اس بارے میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ درد کی کئی کیفیات میں آکو پنکچر فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے، جن میں کمر یا گردن کا درد، گھٹنوں کا درد جو اتھرائٹس کہلاتا ہے۔ اسی طرح سرجری کے بعد کے درد، کچھ مخصوص دواؤں کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والے درد سے آرام حاصل کرنے میں بھی آکو پنکچر مفید ہے۔
عفاف شیخ کہتے ہیں کہ ڈرائی نیڈلنگ سے شفایابی کی شرح 80 فی صد سے زیادہ ہے۔ان کے ہاں 10 میں سے صرف دو مریض ہی ایسے ہوتے ہیں جو پوری طرح صحت یاب نہیں ہوپاتے۔
اس موضوع پر کیے جانے والے 20 مطالعاتی جائزوں کے اعداد و شمار کے تجزیے سے، جن میں 6376 افراد سے انٹرویوز کیے گئے تھے، معلوم ہوا کہ آکو پنکچرکرانے کے ایک سال کے بعد تک گردن کے درد کے سوا دیگر تمام درد دوبارہ ظاہر نہیں ہوئے تھے۔