کیا چمگادڑ کے کاٹنے سے انسان ہلاک ہو سکتا ہے

ویب ڈیسک

چمگادڑ، جو رات کے اندھیروں میں خاموشی سے پرواز کرتی ہے، صرف ایک پراسرار مخلوق ہی نہیں بلکہ قدرتی ماحول کا اہم حصہ بھی ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک ننھے چمگادڑ کا کاٹنا انسانی زندگی کے لیے کتنا خطرناک حتیٰ کہ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے؟ اس حیران کن حقیقت کا تعلق ریبیز نامی مہلک وائرس سے ہے، جو چمگادڑوں سمیت کئی جنگلی جانوروں کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔

یہ رواں سال کی بات ہے۔ اکتوبر کی ایک پرسکون صبح تھی جب سینٹرل کیلی فورنیا کے ایک اسکول کی ٹیچر سنینگ اپنی کلاس میں داخل ہوئیں۔ کمرے میں بچوں کی ہنسی اور پڑھائی کا شور متوقع تھا، مگر انہیں ایک انوکھا منظر دیکھنے کو ملا – چھت سے لٹکی ہوئی ایک چمگادڑ۔۔ حیرت اور فکر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ انہوں نے چمگادڑ کو باہر نکالنے کی کوشش کی مگر قسمت شاید کچھ اور ہی کہانی لکھ چکی تھی۔ چمگادڑ نے اچانک حملہ کر کے سنینگ کو کاٹ لیا۔ اس لمحے کی سنسنی جلد ہی زندگی کے لیے ایک اک بھیانک انجام میں بدل گئی۔ چند ہفتوں بعد ان کی طبیعت بگڑنے لگی اور ریبیز کی مہلک علامات ظاہر ہوئیں۔ افسوس کہ یہ پراسرار وائرس چند ہی دنوں میں ان کی زندگی کا چراغ بجھا گیا ایک ایسی کہانی چھوڑ کر جس نے سب کو خوف اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔

یہ افسوسناک واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ریبیز ایک سنگین اور جان لیوا بیماری ہے، جس کے خلاف بروقت احتیاطی تدابیر اور طبی امداد زندگی بچا سکتی ہیں۔ جانوروں سے رابطے میں آنے کے بعد فوری طبی معائنہ کرانا اور ریبیز سے بچاؤ کی ویکسین لگوانا نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ بیماری علامات ظاہر ہونے کے بعد تقریباً ناقابلِ علاج ہو جاتی ہے۔

 ریبیز کی تاریخ

قدیم خوف اور ابتدائی نظریات: ہزاروں سالوں سے ریبیز انسانی تہذیبوں کے لیے ایک دہشت کی علامت رہا ہے۔ جب یہ معلوم ہوا کہ کسی پاگل جانور کے کاٹنے سے موت یقینی ہوتی ہے، تو لوگوں میں اس کا خوف مزید بڑھ گیا۔ لفظ ’ریبیز‘ کی جڑیں سنسکرت کے لفظ ’ربھس‘ (تشدد کرنا) یا لاطینی لفظ ’ربیر‘ (غصہ) سے ملتی ہیں۔ قدیم یونانیوں نے اسے ’لیسا‘ (تشدد) کہا۔ آج یہ وائرس سائنسی اصطلاح میں ’لیسا وائرس‘ کہلاتا ہے۔

قدیم تاریخی ریکارڈ: 3000 قبل مسیح میں ہندوستانی دیومالائی کہانیوں میں موت کے دیوتا کا ایک کتا اس کا ایلچی تھا۔ 2300 قبل مسیح میں بابل کے موزیک اسمونا کوڈ میں انسانوں اور کتوں کی ریبیز سے موت کا ذکر ملتا ہے۔

قدیم دور میں ہی یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ ریبیز جانور کے کاٹنے سے پھیلتی ہے۔ ارسطو (300 قبل مسیح) کے مقالے میں ریبیز کا ذکر موجود ہے، جس میں انہوں نے کتوں اور ان کے کاٹے ہوئے جانوروں میں اس بیماری کی موجودگی کی نشاندہی کی۔ قدیم زمانے میں، اگر کسی کتے میں ریبیز کی علامات ظاہر ہوتیں، جیسے ضرورت سے زیادہ لعاب نکلنا، تو مالک کو پابند کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے کتے کو کسی دوسرے کو کاٹنے سے روکنے کے اقدامات کرے۔ بابل کے قوانین کے مطابق، اگر کسی کا کتا دوسرے انسان کو کاٹ کر ریبیز منتقل کرتا تو مالک کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا تھا۔

سائنسی مطالعہ کا آغاز: پہلی صدی عیسوی میں رومی اسکالر سیلس نے درست اندازہ لگایا کہ ریبیز متاثرہ جانور کے لعاب سے منتقل ہوتا ہے۔ تاہم، اس نے غلط علاج تجویز کیا، جیسے متاثرہ شخص کو پانی میں ڈبونا تاکہ ریبیز ختم ہو جائے۔ یہ علاج ناکام رہا اور متاثرین یا تو ڈوب گئے یا ریبیز سے ہلاک ہو گئے۔

پراسرار علاج اور عقائد: اٹھارہویں صدی کے امریکہ میں ’میڈ اسٹونز‘ کا استعمال کیا جاتا تھا، جو گائے، بکری یا ہرن کے معدے میں پائے جانے والے پتھری نما بالوں کے گچھے تھے۔ انہیں زخم پر رکھنے سے ’پاگل پن‘ نکالنے کا عقیدہ تھا۔ یہ پتھر قیمتی جواہرات سمجھے جاتے تھے اور خاندانوں میں نسل در نسل منتقل ہوتے تھے۔

علاج میں انقلابی پیش رفت: 1880 کی دہائی میں فرانسیسی کیمسٹری کے استاد لوئس پاسچر نے ریبیز کے خلاف ویکسین تیار کرنے کی کوشش شروع کی۔ 1885 میں، جوزف میسٹر نامی ایک 9 سالہ بچہ، پاگل کتے کے کاٹنے کے بعد موت کے دہانے پر تھا۔ پاسچر نے اپنی ویکسین کا پہلا تجربہ اس بچے پر کیا، اور جوزف مکمل صحتیاب ہو گیا۔
گھریلو جانوروں کی ویکسینیشن 1920 کی دہائی میں عام ہوئی۔ یہ عمل ریبیز کی موجودگی کو کم کرنے میں نہایت مؤثر ثابت ہوا۔ اگر 70% گھریلو جانوروں کو ویکسین دی جائے تو اس بیماری کو تقریباً ختم کیا جا سکتا ہے۔

خوفناک کہانیاں:
1. ایک چمگادڑ نے چمنی کے راستے ایک گھر میں داخل ہو کر ایک بلی کو کاٹ لیا۔ بعد میں بلی نے گھر کی 12 سالہ بچی کو کاٹا، اور تینوں مر گئے۔
2. ایک دوست کے چار پالتو بلیوں کو پاگل ریکون نے کاٹ لیا، کیونکہ بلیوں کو ویکسین نہیں لگائی گئی تھی، انہیں ہلاک کرنا پڑا۔

آج کی دنیا میں ریبیز: مختلف علاقوں میں ریبیز کی موجودگی وقت کے ساتھ مختلف رہی۔ کچھ خطوں کو بعض اوقات ریبیز سے پاک سمجھا جاتا تھا، لیکن جانوروں کی آبادی اور بیماری کی موجودگی کے باعث یہ دوبارہ پھیل سکتی تھی۔

20ویں صدی کے آغاز میں، ریبیز ترقی یافتہ خطوں جیسے وسطی یورپ سے بڑی حد تک ختم ہو گئی، جس کی بڑی وجہ ریبیز کی ویکسین کی دستیابی تھی۔ تاہم، دنیا کے کئی حصے آج بھی اس بیماری کے اثرات کا شکار ہیں۔

18ویں صدی میں، جرمنی، فرانس اور اسپین جیسے ممالک میں قانون سازی کی گئی کہ آوارہ کتوں کو ختم کر دیا جائے تاکہ انسانوں میں ریبیز کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ تاہم، عوامی مخالفت کے باعث یہ قانون زیادہ تر علاقوں میں نافذ نہیں ہو سکا۔

19ویں صدی میں، قرنطینہ اور دیگر صحت کے اقدامات متعارف کروائے گئے، جس سے شہری علاقوں میں ریبیز کے کیسز میں کمی واقع ہوئی۔ ان اقدامات کے باعث 20ویں صدی تک کئی علاقوں کو ریبیز سے پاک قرار دیا گیا۔

آج زیادہ تر پالتو جانوروں کو ویکسین لگائی جاتی ہے، لیکن کئی لوگ اب بھی بلیوں کو نظرانداز کرتے ہیں، جو اب کتوں سے زیادہ ریبیز کے کیسز کی وجہ ہیں۔ جنگلی جانوروں جیسے لومڑیاں، اسکنکس، ریکون اور چمگادڑیں بھی خطرناک ہیں، خاص طور پر چمگادڑیں جو بیمار نظر نہیں آتیں اور چھوٹے سوراخوں سے گھروں میں داخل ہو سکتی ہیں۔

ریبیز کا موجودہ علاج: آج بھی، ریبیز کے علامات ظاہر ہونے کے بعد اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ موجودہ حکمتِ عملی پوسٹ ایکسپوژر پروفیلیکسیس (PEP) پر مبنی ہے۔ اس میں ریبیز کے وائرس سے متاثرہ فرد کو فوری طور پر ریبیز امیونوگلوبلین اور ویکسین دی جاتی ہے، جس کے بعد 30 دن تک ویکسین کی سیریز جاری رکھی جاتی ہے۔

صحیح وقت پر دی جانے والی PEP کی کامیابی کی شرح تقریباً 100% ہے۔ نتیجتاً، مناسب طبی سہولیات تک رسائی رکھنے والے علاقوں میں ریبیز کے کیسز بہت کم ہیں۔ تاہم، ہر سال دنیا میں ریبیز کے تقریباً 55,000 کیسز میں سے 95% ایشیا اور افریقہ میں ہوتے ہیں، جہاں وائرس کی منتقلی کے بعد مناسب طبی امداد اکثر دستیاب نہیں ہوتی۔

ریبیز بارے نئے طبی حقائق: عام طور پر ریبیز کو باولے کتے کے کاٹنے سے جوڑا جاتا ہے، لیکن طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ریبیز صرف کتے کے کاٹنے سے ہی نہیں بلکہ کئی اور جانوروں کے کاٹنے اور رابطے میں آنے سے بھی ہو جاتا ہے۔ جن میں چمگادڑ، لومڑی، ریکون اور اسکنک شامل ہیں۔

واضح رہے کہ ریکون گلہری سے متشابہ ایک جانور ہے جو زیادہ تر درختوں پر رہتا ہے جب کہ اسکنک رینگنے والا ایک انتہائی بدبودار جانور ہے۔ یہ دونوں جانور زیادہ تر شمالی امریکہ میں پائے جاتے ہیں۔

تاہم ایسا بھی نہیں کہ ریبیز صرف انہی چند جنگلی جانوروں تک ہی محدود ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق پالتو جانور اور گھریلو مویشی بھی اس مرض میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور جب یہ جانور انسان سے رابطے میں آتے ہیں تو ریبیز کا وائرس انسان کو منتقل ہو جاتا ہے۔ جبکہ بلی کے ریبیز میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے پالتو بلی اور کتے کو اس مرض سے بچاؤ کے انجکشن ضرور لگوانے چاہیئں۔

دراصل ریبیز کا وائرس متاثرہ جانور کے لعاب میں ہوتا ہے، اس لیے وہ جسے بھی کاٹتا ہے، وائرس اس میں منتقل ہو جاتا ہے۔

اگر امریکہ کی بات کی جائے تو وہاں ریبیز عموماً چمگادر کے کاٹنے سے ہوتا ہے، تاہم اس کی تعداد بہت کم ہے۔ اس ملک میں ریبیز سے ہلاکتوں کی سالانہ تعداد 10 سے کم ہے۔ دوسری جانب ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں ریبیز زیادہ تر کتے کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں سالانہ دو ہزار سے پانچ ہزار افراد ریبیز کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہاں 99 فی صد واقعات میں ریبیز کا سبب کتے کا کاٹنا ہے۔

امراض سے بچاؤ اور کنٹرول کے امریکی ادارے سی ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ پچپن ہزار افراد ریبیز کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، جن میں سے اکتیس ہزار کا تعلق عمومی طور پر ایشیائی ممالک سے ہوتا ہے۔

علامات: ریبیز ایک انتہائی ہلاکت خیز مرض ہے جس میں مبتلا ہونے والے کی ہلاکت تقریباً یقینی ہوتی ہے۔ ریبیز کی علامات کا ذکر کریں تو جب کوئی جانور ریبیز میں مبتلا ہوتا ہے، اس کی حرکات و سکنات اور رویے میں نمایاں تبدیلیاں آ جاتی ہیں، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ریبیز کا شکار ہو چکا ہے۔ متاثرہ جانور وحشی ہو جاتا ہے اور ہر کسی کو کاٹ کھانے کو لپکتا ہے۔ اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور تشنج جیسی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ بعض متاثرہ جانور فالج زدہ ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے حلق سے عجیب طرح کی آوازیں نکالتا ہے اور اس کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔ عام طور پر ریبیز میں مبتلا ہونے کے ایک ہفتے کے اندر متاثرہ جانور مر جاتا ہے۔

ریبیز کا انسانوں میں منتقل ہونا: عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ریبیز کا وائرس متاثرہ جانور کے کاٹنے سے ہی انسانوں میں منتقل ہوتا ہے لیکن یہی ایک وجہ نہیں، درست بات یہ ہے کہ اس کا لعاب جسم پر کسی زخم پر لگنے، یا آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے بھی انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔

عام طور پر ریبیز کا وائرس انسان میں منتقل ہونے کے بعد علامتیں ظاہر ہونے میں عموماً دو سے تین مہینے لگتے ہیں، لیکن بعض صورتوں میں ایک ہفتے کے اندر بھی یہ علامات ظاہر ہو جاتی ہیں اور کبھی کبھار اس میں ایک سال کا عرصہ بھی لگ سکتا ہے۔

چونکہ اس مرض کے ظاہر ہونے کا دورانیہ لمبے عرصے پر پھیلا ہوا ہے، اس لیے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ متاثرہ جانور سے رابطے میں آنے کے بعد فوراً ڈاکٹر کے پاس جانا اور ریبیز سے بچاؤ کا علاج کرانا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ علامتیں ظاہر ہونے کے بعد مریض کا بچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

ریبیز میں مبتلا ہونے والے انسان کی ابتدائی علامات فلو سے ملتی جلتی ہوتی ہیں اور کئی دنوں تک برقرار رہتی ہیں۔ پھر رفتہ رفتہ اس میں دیگر علامات بھی ظاہر ہونے لگتی ہیں، جن میں بخار، سر درد، قے، جی کا متلانا، مزاج میں اشتعال انگیزی کا پیدا ہونا، منہ سے لعاب کا بہنا، نگلنے میں دشواری، جس کی وجہ سے پانی سے خوف آنا (Hydrophobia) شامل ہیں۔

اس حوالے سے اگر احتیاط کی بات کی جائے تو اگر کسی کو کوئی جانور کاٹ لے یا اس کا لعاب آنکھ، ناک یا منہ کو لگ جائے یا اگر جسم پر کوئی زخم وغیرہ ہے، اسے چھو جائے تو اسے فوراً سے پیشتر ڈاکٹر سے رجوع کر کے علاج شروع کرنا چاہیے۔

اگر کسی ایسی جگہ رہائش ہو، جہاں چمگادڑیں بھی ہیں تو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ چمگادڑ کا کاٹنا اکثر نیند کے دوران ہوتا ہے اور بعض اوقات اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ متاثرہ شخص کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، خاص طور پر اگر وہ معذور یا بچہ ہو۔ یہی خاموشی ریبیز کے پھیلاؤ کو زیادہ خطرناک بنا دیتی ہے۔

مزید برآں یہ اقدامات ضروری ہیں: اگر آپ کسی ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں چمگادڑ یا دوسرے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں، گھر کے اندر چمگادڑوں کے داخلے سے بچنے کے لیے کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں۔

پالتو جانوروں کو ریبیز سے بچاؤ کے ٹیکے لگوائیں۔

اگر کسی جانور نے کاٹ لیا یا لعاب زخم پر لگا، تو فوری طور پر زخم کو صابن اور پانی سے دھوئیں اور فوری طبی امداد حاصل کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close