ہم جس دوا کی تلاش میں تھے، وہ پہلے سے ہی ہمارے اندر موجود تھی!

یہ کہانی ایک خزانے کی تلاش کی ہے، ایسے خزانے کی جسے سائنسدان صدیوں سے کھوج رہے تھے، اور جب ملا، تو معلوم ہوا کہ وہ سونے کی کان ہمارے جسم کے اندر ہی موجود تھی۔

یہ کوئی روایتی دریافت نہیں، بلکہ ہمارے مدافعتی نظام کے بارے میں ایک بالکل نئی بصیرت ہے، ایسی بصیرت جو جدید بیکٹیریل انفیکشنز کے خلاف جنگ میں ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔

پروٹیزم: مدافعتی نظام کا خفیہ محافظ

تحقیق کے اس حیران کن سفر میں مرکزی کردار ’پروٹیزم‘ نامی ایک ننھا سا ڈھانچہ ہے، جو ہمارے جسم کے ہر خلیے میں پایا جاتا ہے۔ برسوں تک اسے محض ایک ’ری سائیکلنگ سسٹم‘ سمجھا جاتا رہا، ایک ایسا نظام جو پرانے پروٹینز کو توڑ کر نئے پروٹین بنانے میں مدد دیتا ہے۔۔ مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ اس سے کہیں زیادہ طاقتور اور غیرمعمولی کردار ادا کر رہا ہے۔

اسرائیل کے ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ پروٹیزم درحقیقت ایک خفیہ ہتھیار بھی رکھتا ہے، ایک ایسا نظام جو بیکٹیریا پر حملہ کرنے والے کیمیکلز خارج کر سکتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں موجود قدرتی اینٹی بایوٹکس کا ایک ذخیرہ ہے، جو نہ صرف انفیکشن سے بچانے میں مدد دیتا ہے بلکہ ممکنہ طور پر ایسی نئی دوائیوں کی راہ ہموار کر سکتا ہے جو اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا (سپر بگز) کے خاتمے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہیں۔

جب خلیہ جنگی موڈ میں آ جائے

یہ دریافت کسی معمولی سائنسی تجربے کا نتیجہ نہیں، بلکہ نیچر نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک وسیع تحقیق کی پیداوار ہے۔

محققین نے تجربات کے ذریعے ثابت کیا کہ جب کوئی خلیہ بیکٹیریا سے متاثر ہوتا ہے، تو پروٹیزم اپنے عام کام سے ہٹ کر ’جنگی موڈ‘ میں آ جاتا ہے۔ وہ اپنے اندر محفوظ پرانے پروٹینز کو ایسے مہلک ہتھیاروں میں بدل دیتا ہے، جو بیکٹیریا کی بیرونی تہہ چیر کر رکھ دیتے ہیں۔

یہ عمل کسی سائنسی تخیل کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے اپنے جسم کا ایک ناقابلِ یقین حقیقت پر مبنی دفاعی نظام ہے، جسے ہم اب تک نظرانداز کرتے آئے تھے۔

ویزمین انسٹی ٹیوٹ کی پروفیسر عفت مربل کہتی ہیں، ”یہ واقعی ایک بڑی دریافت ہے کیونکہ ہم نے پہلے کبھی نہیں جانا تھا کہ ہمارے خلیے ایسا بھی کر سکتے ہیں۔“

ان کے مطابق، ”یہ نظام ہمارے پورے جسم میں موجود ہے، اور یہ قدرتی اینٹی بایوٹکس کی ایک نئی کلاس تشکیل دیتا ہے۔“

یہ تحقیق صرف تھیوری تک محدود نہیں رہی۔ تجربات میں محققین نے لیبارٹری میں اگائے گئے بیکٹیریا، نمونیا کے شکار مریضوں، اور سیپسس جیسی سنگین بیماری میں مبتلا چوہوں پر ان قدرتی اینٹی بایوٹکس کو آزمایا۔

جب انہوں نے پروٹیزم کو ناکارہ بنایا، تو خلیے حیرت انگیز طور پر بیکٹیریا کے رحم و کرم پر آ گئے، حتیٰ کہ وہ سالمونیلا جیسے عام بیکٹیریا سے بھی نہیں بچ سکے۔

لندن کے امپیریل کالج میں حیاتیاتی سائنسز کے سربراہ، پروفیسر ڈینیئل ڈیوس اس دریافت پر بے حد حیران ہیں، ”یہ تحقیق ایک بالکل نیا دروازہ کھول رہی ہے کہ ہمارا جسم انفیکشن کے خلاف کیسے لڑتا ہے۔“

ان کے مطابق، ”یہ ممکنہ طور پر ایک مکمل طور پر غیر دریافت شدہ عمل ہے، جس کے ذریعے ہمارے خلیے اندر ہی اندر اینٹی بایوٹک جیسے جراثیم کش مالیکیول بنا رہے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم اور حیران کن دریافت ہے!“

کنگز کالج لندن کی مائیکرو بایولوجی کی ماہر، ڈاکٹر لنڈسے ایڈورڈز کہتی ہیں، ”یہ تحقیق اینٹی بایوٹکس کی ایک ممکنہ سونے کی کان کی دریافت کے مترادف ہے۔“

ان کے مطابق، ”سائنسدانوں نے نئی اینٹی بایوٹکس تلاش کرنے کے لیے عشروں سے کوششیں کیں، مگر یہ ایک حیران کن انکشاف ہے کہ وہ خزانہ خود ہمارے جسم کے اندر موجود تھا۔“

مستقبل کا سفر: کیا ہم اسے دوائی میں بدل سکتے ہیں؟

یہ سب کچھ جتنا حیران کن ہے، اتنا ہی محتاط انداز میں مزید تحقیق کا متقاضی بھی ہے۔

پروفیسر ڈینیئل ڈیوس خبردار کرتے ہیں کہ، ”اس دریافت کو اینٹی بایوٹکس کے ایک نئے ذریعے میں بدلنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اور یہ وقت طلب مرحلہ ہوگا۔“

مگر اچھی خبر یہ ہے کہ یہ کوئی اجنبی کیمیکل نہیں، بلکہ انسانی جسم کی اپنی مصنوعات ہیں، اس لیے انہیں دوائی میں بدلنا آسان ہو سکتا ہے۔

ایک نئی امید یا ایک نئی جنگ؟

یہ دریافت ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب اینٹی بایوٹک مزاحمت ایک عالمی بحران بنتی جا رہی ہے۔ ہر سال دس لاکھ سے زائد افراد ایسے انفیکشنز سے مر رہے ہیں، جو عام اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں۔

نئی اینٹی بایوٹکس کی اشد ضرورت ہے، مگر دوائیوں کی صنعت میں اس پر کام نہ ہونے کے برابر ہے۔

اب، اس تحقیق نے ایک نئی امید کی کرن دکھائی ہے، یہ ظاہر کر دیا ہے کہ شاید ہم جس دوا کی تلاش میں تھے، وہ پہلے سے ہی ہمارے اندر موجود تھی۔

یہ دریافت صرف بیکٹیریا کے خلاف ایک نیا ہتھیار ہی نہیں، بلکہ انسانی جسم کے مدافعتی نظام کی سمجھ میں بھی ایک انقلاب برپا کر سکتی ہے۔

سائنس کی دنیا میں کچھ دریافتیں تاریخ بدل دیتی ہیں، یہ بھی انہی میں سے ایک ہو سکتی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close