غزہ کے بچے، جن کے خواب ادھورے رہ گئے۔۔ آنسوؤں میں ڈوبی اور خوں چکاں کہانیاں۔

ویب ڈیسک

اسرائیل کی جارحیت سے غزہ میں بچوں کی ہزاروں اموات نے حساس انسانوں کو سوگوار کر دیا ہے۔ ذیل میں آپ ایسے ہی بچوں کی زندگی کے ان لمحوں اور ان کے خوابوں کے بارے میں پڑھیں گے، جن کے خواب تباہ ہونے والی عمارتوں میں دب گئے اور وہ ان ٹوٹے ہوئے ادھورے خوابوں کو چھوڑ اس دنیا سے رخصت ہو گئے

غزہ۔۔ جس کے بارے میں یونیسیف کا کہنا ہے یہ اسرائیلی بمباری کے دس ہفتوں کے دوران بچوں کے لیے دوزخ بنا ہوا ہے۔ حالیہ دنوں غزہ سے واپس آنے والے یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر نے اس صورتحال کو غیرانسانی قرار دیتے ہوئے کہا ”ناقابلِ یقین طور سے دنیا یہ سب کچھ ہونے دے رہی ہے“

غزہ۔۔ جس کے بارے میں انٹرنیشنل این جی او سیو دی چلڈرن کے ڈائریکٹر برائے فلسطین جیسن لی کا کہنا ہے کہ یہاں ہر دس منٹ میں ایک بچے کی موت اور ہر پانچ منٹ بعد ایک بچہ زخمی ہو رہا ہے

غزہ۔۔ جس کے بارے میں امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ غزہ کے بچے ناقابلِ تصور‘ شرح سے مارے جا رہے ہیں اور متنبہ کرتے ہیں کہ مزید بہت سے بچے شدید خطرے میں ہیں۔

یہ وحشی طاقت کا ایک ایسا اندھا مظاہرہ جنگ ہے، جس سے انسان، حیوان، شجر حجر کوئی چیز محفوظ نہیں رہی ہے

یہ وہ غزہ ہے، اسرائیلی جارحیت سے پہلے جس کی گلیاں بچوں سے بھری رہتی تھیں۔ اسکولوں سے چُھٹی کے وقت یہاں کے ساحل، پارکس اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں

بحیرہ روم کے کنارے واقع اس تنگ پٹی کو گھر کہنے والے بیس لاکھ افراد میں سے تقریباً نصف کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہیں، مگر غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ ایک پندرہ سالہ بچے نے اپنی زندگی میں حالیہ اسرائیلی درندگی سمیت پانچ بار موت بن کر برسنے والی اسرائیلی بمباری کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہوگا۔ بہت سے لوگ متعدد بار بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے گھر بمباری سے تباہ ہو گئے تھے

اس سب کے باوجود انہوں نے اس طرح کی تباہی کا مشاہدہ پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے آغاز سے اب تک فضائی حملوں، توپ خانے اور مارٹر حملوں میں سات ہزار سے زیادہ بچے مارے جا چکے ہیں۔

یہ تعداد صرف ان لوگوں کی ہے جن کی شناخت ہو چکی ہے اور بہت سے اب بھی ممکنہ طور پر ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔

دیگر ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ کو ’ہزاروں بچوں کا قبرستان‘ اور ’بچوں کے لیے دنیا کی سب سے خطرناک جگہ‘ قرار دے چکا ہے۔

ان ناقابل یقین اعداد و شمار میں ان بچوں کے چہرے، نام، زندگی اور خوشی کے لمحات گم ہو گئے ہیں۔ ایسے ہی کچھ بچوں کی درد بھری کہانیاں یہاں بیان کی جا رہی ہیں، جنہیں پڑھ کر دل دہل اٹھتا ہے

تیرہ سالہ پراعتماد ایتھلیٹ سِوار المدہون

سِوار اپنی عمر کے لحاظ سے دراز قد بچی تھی یہی وجہ ہے کہ اس نے اِس خوبی کو باسکٹ بال کے لیے استعمال کیا، جس کا اسے جنون تھا۔ اسکول میں اور جب بھی اسے فرصت کے لمحات میسر آتے، وہ یہ کھیل کھیلنے کا کوئی موقع نہ گنواتی۔ اس نے کئی ٹرافیاں جیتیں۔

ایک وڈیو میں وہ ایک باسکٹ بال ٹورنامنٹ جیتنے کے بعد ایک بڑے اسٹیج پر ایک ہجوم کے سامنے اپنی ٹیم کے ساتھ خوشی سے جھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔

وہ ہر وقت فلوریڈا کے ایک ہائی اسکول کی باسکٹ بال کی پرانی جرسی پہنتی تھی، کیونکہ اس کے سامنے ایک باسکٹ بال ہوپ اور ایک بال ہوتی تھی۔ اسے والی بال بھی بہت پسند تھی، ایک اور کھیل جہاں ان کے دراز قد نے اسے فائدہ پہنچایا

اس کے چچا ہانی المدہون کہتے ہیں ”سِوار اپنی عمر کی زیادہ تر لڑکیوں سے زیادہ آزاد تھی۔ اسے پرواہ نہیں تھی۔ وہ باہر جاتی اور خود ہی اپنے کام کرتی، ساحل پر جا کر تیراکی کرتی۔ وہ ہمیشہ کام کرتی رہتی تھی اور بالکل بھی نہیں شرماتی تھی“

وہ اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ پُراعتماد تھی۔ اس کے چچا ہانی کو یاد ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی مدد کرنا چاہتی تھی

سوار کو پکنک کا شوق تھا۔ اگر اس کے ہاتھ میں پیسے ہوتے تو وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ قریبی ریسٹورنٹ جاتی جہاں وہ ہر بار ایک ہی کھانے کا آرڈر دیتی یعنی شوارما سینڈوچ، اچار، کارن سیلڈ اور فرائز۔ یہ ایک کلیم شیل کنٹینر میں ملتا تھا۔

سوار منجھلی بیٹی تھی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت کرتی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے کزنز کی دیکھ بھال کرنا بھی پسند کرتی تھی، جب وہ اسے ملنے آتے تھے۔ اس کے چچا ہانی کی اپنی بیٹیاں بھی جب امریکہ سے غزہ جاتی تھیں تو اپنا سارا وقت ان کے ساتھ گزارتی تھی

ہسنی کہتے ہیں ”میری بیٹیاں جہاں بھی جاتیں وہ ان کے ساتھ جاتی تھی۔ وہ ان کے ساتھ سائے کی طرح چپکی رہتی۔ وہ سب کی پسندیدہ تھی اور ہر کوئی ان کا دوست تھا“

نو سالہ عمر المدہون، جو فٹبالر بننا چاہتا تھا

عمر فٹبال کے کھیل کا دیوانہ تھا۔ وہ اپنے والد ماجد سے اس بات پر لڑتا تھا کہ دنیا کا سب سے بہترین کھلاڑی کون ہے۔۔

عمر کرسٹیانو رونالڈو کو دنیا کا سب سے بہترین کھلاڑی سمجھتے تھے، جبکہ اس کے والد کا خیال تھا کہ یہ کریم بینزیما ہے۔ وہ دونوں ریال میڈرڈ کے مداح تھے، اس لیے لیونل میسی اس بحث کا حصہ نہیں تھا

عمر نے پچھلے سال کا بیشتر حصہ ورلڈکپ کے جنون میں گزارا لیکن وہ غزہ میں اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی جرسی یا اس کھیل کا کوئی سامان نہیں خرید سکا، کیوں کہ اسرائیل نے 2007 سے یہاں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ چنانچہ اس نے اپنے چچا ہانی سے مدد طلب کی

ہانی نے ایک اسٹور سے گول کیپر کے دستانے، ایک فٹبال اور ایک بیگ اپنے کسی جاننے والے کے ساتھ غزہ بھیجا۔ عمر کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔۔ ہانی کہتے ہیں، ”وہ گول کیپر نہیں تھا۔ اس کا کھیل جارحانہ تھا، وہ ان دستانوں سے صرف دکھاوا کرنا چاہتا تھا“

لیکن عمر نے اسے سنجیدگی سے لیا۔ وہ موسم گرما کے فٹبال کیمپ میں شرکت کر رہے تھے تاکہ وہ کھیل کی مشق کر سکے۔

فٹبال کے علاوہ عمر اپنے والد کے قریب رہنا پسند کرتا۔ وہ اپنے والد کی کریانے کی دکان پر اس کے گرد گھومتا رہتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والد کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا، جس کی وجہ سے اس کا کام مشکل ہو جاتا تھا

ہانی کا کہنا ہے کہ اس نے نمایاں ہونے کی کوشش کی اور اس کے لیے ایسا کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ اس کی شخصیت جارحانہ نہیں تھی اور نہ ہی وہ اپنی موجودگی محسوس ہونے دیتا تھا۔

ان کے چچا انہیں ایک پیارے اور قابل اعتماد بچے کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ ”اگر آپ اسے کچھ بھی کام کرنے کو کہتے تو وہ ہمیشہ تیار رہتا۔ وہ اس قسم کی شخصیت تھی، جس پر آپ بھروسہ کر سکتے ہیں“

عمر خاص طور پر اپنے دادا کے قریب تھے۔ ہانی کا کہنا ہے کہ جس رات اسے شہید کیا گیا، اس رات اس کے دادا نے اسے اپنے خواب میں نوجوان دیکھا۔ وہ آدھی رات کو بیدار ہو گئے اور دس منٹ نہیں گزرے کہ اسرائیلی حملے میں عمر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔

سات سالہ شرارتی علی المدہون

علی خاندان کے لیے ایک شرارتی بچہ تھا۔ وہ چھوٹا تھا لیکن اس کا جسم پھرتیلا تھا اور وہ ہمیشہ لڑتا رہتا تھا۔ اس کے والد مذاق میں کہتے تھے کہ علی کی نئی لڑائیوں کا جواب دینے کے لیے پڑوسیوں کے گھر جانا معمول بن گیا تھا۔ اس کے چچا ہانی کا کہنا ہے کہ والد بھی اپنے بچپن میں بالکل ایسے ہی تھے۔

کوئی نہیں جان سکتا تھا کہ علی میں اتنی توانائی کہاں سے آتی ہے۔ جب گھر والے ساحل سمندر پر جاتے تو وہ ہمیشہ نظروں سے غائب ہو جاتا تھا

اس کے چچا بتاتے ہیں ”اس کو ہدایات دینا سب سے مشکل کام تھا۔ وہ قابو سے باہر ہو جاتا اور خطرے میں کود پڑتا اور وہ نہیں مانتا تھا۔۔ وہ بہت ضدی تھا“

لیکن وہ خاندان میں سب سے چھوٹا بچہ تھا، اس لیے وہ سب کا لاڈلا بھی تھا، یعنی کزنز، دادا دادی، والدین، بڑے بہن بھائی سب کا دُلارا۔۔ علی اپنی معصوم سی مسکراہٹ دکھا کر بہت کچھ کر جاتا تھا

وہ اپنے والد سے ہمیشہ چپکا رہتا۔ وہ ہر جگہ اس کا پیچھا کرتا۔

علی، عمر اور سِوار 24 نومبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنی بڑی بہن ریمان اور اپنے والدین ماجد اور صفا کے ساتھ شہید ہو گئے تھے۔

وہ حالیہ بمباری میں عارضی فائر بندی شروع ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے اپنے آبائی گھر میں شہید ہوئے، جہاں وہ چالیس دنوں سے پناہ لیے ہوئے تھے

اس اسرائیلی حملے میں اس خاندان کے مزید لوگ صرف اس وجہ سے محفوظ رہے، کیونکہ وہ ماجد اور ہانی کی بہن کو ہسپتال میں ملنے کے لیے گئے ہوئے تھے، جو ایک الگ فضائی حملے میں زخمی ہو گئی تھیں جن کا علاج جاری تھا۔ گھر والے رات بھر وہیں رہے کیونکہ وہ گھر جاتے ہوئے اسرائیلی سنائپرز سے ڈرے ہوئے تھے

خاندان کو ان سب کی لاشیں نکالنے میں کئی دن لگ گئے۔ عمر کی لاش سب سے پہلے ملی۔ وہ دھماکے سے اپنے گھر سے اتنی دور جا گرا کہ اسے ایک اجنبی شخص نے تلاش کے علاقے سے تقریباً بیس میٹر دور پایا

ایک دن بعد انہوں نے اس کے والد یعنی ماجد کی لاش کو ملبے سے نکالا۔ تین دن بعد انہیں علی، ان کی ماں صفا اور بہن ریمان کی لاشیں ملیں۔۔

ننھی غنہ الکرنز، جو آخری کھانا بھی نہ کھا سکی۔۔

غنہ بے تابی سے ایک یوٹیوب اسٹار بننا چاہتی تھی۔ صرف آٹھ سال کی عمر میں وہ پہلے ہی ایسی وڈیوز بنا رہی تھی، جس سے ان کا مزاح، لطافت اور اعتماد کا اظہار ہوتا تھا

ایک ایسی ہی وڈیو میں، جسے اس نے کبھی پوسٹ نہیں کیا، وہ ایک تجربہ کار ٹی وی میزبان کی طرح اشارے کرتے ہوئے ناظرین کو اپنے گھر کے آس پاس کے حالات دکھاتی ہے۔ وہ ہمیں کچن میں لے جاتی ہے اور ہمیں اپنے پسندیدہ چاکلیٹ ڈونٹس دکھاتی ہے، جو اس کی ماں نے اس کے لیے بنائے تھے

اس کے چچا محمود الکرنز کہتے ہیں ”غنہ ہمیشہ اس طرح کی وڈیوز بناتی تھی۔ وہ جب بھی مائیکروفون دیکھتی اسے پکڑ لیتی اور آپ کو کوئی گانا یا تقریر سننے کو ملتی۔۔ وہ اپنی روزمرہ کی زندگی کو ڈاکومینٹری بنانا چاہتی تھی اور لوگوں کو اپنی بہن اور بھائی اور اپنے کھلونے دکھانا چاہتی تھی۔ اس کے بہت سے خواب تھے لیکن سب سے زیادہ وہ ایک مشہور یوٹیوبر یا شاید ایک صحافی بننا چاہتی تھی“

غنہ ناقابل یقین حد تک ذہین تھی۔ اس نے ہمیشہ اسکول میں اچھے نمبر حاصل کیے۔ خاندان میں سب سے چھوٹی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ ہر کوئی اس کے لاڈ اٹھاتا اور اس ذہین بچی کی پرکشش شخصیت کے باعث اس کے بہت سے دوست تھے

غنہ اپنی چچی اور چچا کے قریب تھی، اس لیے محمود کو اس کے ساتھ کافی وقت گزارنا پڑتا تھا۔ وہ اسے مقامی تالاب میں لے جاتا تھا اور اسے تیرنا سکھاتا تھا۔ ان کا ایک ساتھ اچھا وقت گزرتا تھا۔

محمود بتاتے ہیں ”وہ مجھ سے بہت قریب تھی، وہ مجھے ’محمود پول‘ کہتی تھی کیونکہ ہم ہمیشہ ساتھ تیراکی کرتے تھے“

مارٹرز آف غزہ کی رپورٹ کے مطابق غنہ 23 اکتوبر کو جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں اس عمارت پر اسرائیلی فضائی حملے میں شہید ہوئی، جہاں اس نے اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لے رکھی تھی

اس کا خاندان تحفظ کی تلاش میں شمال میں ہونے والی بمباری سے محفوظ جگہ تلاش کر رہا تھا۔ غنہ کی موت کے بعد اس کی ماں نے محمود کو اس دن کے بارے میں بتایا، جس دن اس کی موت ہوئی تھی

وہ کہتے ہیں: ”انہوں نے ہمیں بتایا کہ غنہ اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ وہ دوپہر کے کھانے میں کیا بنا رہی ہیں۔ انہیں ہر روز کھانا میسر نہیں تھا کیونکہ غزہ میں خوراک کی قلت تھی، اس لیے کبھی کبھار انہیں صرف چائے اور بسکٹ پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ اس دن بھی انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا“

اگرچہ اس دن غنہ کی والدہ اس کا پسندیدہ پکوان پکا رہی تھی، یعنی ٹماٹر کے سوپ کے ساتھ پھلیاں۔ غنہ گہرے لال رنگ کی وجہ سے اسے ’سرخ کھانا‘ کہتی تھی

کھانا ملنے کے امکان پر وہ بے حد خوش تھی۔ جب اس کی والدہ نے چولہے پر برتن چڑھایا تو وہ چیختے ہوئے ادھر ادھر اچھلتے ہوئے ’سرخ کھانا! سرخ کھانا! سرخ کھانا!‘ کی آوازیں لگا رہی تھی

اس کے صرف چند منٹ بعد ہی وہ ایک فضائی حملے میں زندہ نہ رہی۔۔۔ اس کی لاش چوبیس گھنٹے بعد گرنے والی عمارت کے ملبے کے نیچے سے ملی۔

اس کی ماں زندہ بچ گئی، لیکن غنہ کھانا کھائے بغیر ہی جان سے چلی گئی۔۔۔

کمپیوٹر انجنیئر بننے کا خواب اور تیرہ سالہ عمر الکرنز

عمر کو وڈیو گیمز اور ان سے متعلق ہر چیز پسند تھی۔ اس نے بڑے ہو کر کمپیوٹر انجینئر بننے کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے کھیلنے پر معاوضہ مل سکے۔۔ ساتھ ہی وہ فٹبالر بننے کا خواب بھی رکھتا تھا

عمر کے چچا محمود کہتے ہیں ”وہ ہمیشہ جدید ترین آئی پیڈ خریدنا اور گیمز کھیلنے کے لیے جدید ترین لیپ ٹاپ استعمال کرنا چاہتا تھا“

اسے فٹبال کا کھیل سب سے زیادہ پسند تھا۔ وہ اسے گھنٹوں کھیلتے رہتا۔ عمر کو فطرت سے محبت تھی۔ باہر کے ماحول میں وقت بِتانا اس کا دلپسند مشغلہ تھا۔ وہ اکثر اپنے دادا دادی اور چچا محمود کے ساتھ ساحل سمندر پر چلا جاتا

وہ زمین پر چٹائی بچھاتے اور کیمپ فائر پر کھانے کا مزا لیتے۔ وہ دوسری کے ساتھ مل کر پتنگیں بناتا اور انہیں ساحل سمندر پر اڑاتا پھرتا

عمر جانوروں کی آوازیں نکال کر سب کو ہنساتا۔ وہ مینڈک اور الو کی تقریباً درست آواز نکال سکتا تھا

عمر اپنی زندگی کے آخری دنوں میں غم زدہ ہو گیا۔ 20 اکتوبر کو اس کے دادا دادی، چچا اور کزن اسرائیلی فضائی حملے میں جان سے گئے

اس کے چچا نے عمر کو کبھی اتنا اداس اور دل گرفتہ نہیں دیکھا، انہوں نے اگلے چند دنوں میں اس سے کئی بار بات کرنے کی کوشش کی لیکن عمر بہت غمزدہ رہتا

محمود کے مطابق، عمر اس بمباری سے تھک چکا تھا اور غزہ سے باہر جانا چاہتا تھا۔ وہ کسی ایسی جگہ جانا چاہتا تھا، جہاں اسے ساری رات بم دھماکوں کی آوازیں نہ سننی پڑیں اور وہ اپنے بچے کچھے گھر والوں کے ساتھ کسی محفوظ جگہ پر رہ سکے

محمود بتاتے ہیں ”وہ اپنے ملک سے بہت محبت کرتا تھا اور یہاں اس کی اچھی یادیں ہیں لیکن وہ اب جنگ کی کیفیت میں نہیں رہنا چاہتا تھا“

اپنے دادا دادی کے قتل کے تین دن بعد، عمر کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور وہ اپنی بہن غنہ کے ساتھ شہید ہو گیا۔

غنہ اور عمر کے والد محمد اقوام متحدہ کے ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) میں کام کرتے تھے۔ گذشتہ ایک ماہ سے ان کا کام غزہ کے دیگر حصوں سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو اقوام متحدہ کے اسکولوں میں بم حملوں سے بچنے میں مدد کرنا تھا

محمود کہتے ہیں ”وہ علاقہ چھوڑنے والے لوگوں کی مدد کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کے لیے کام کر رہے تھے ’لیکن اس سب کے بعد بھی، وہ اپنے خاندان کو نہیں بچا سکے“

مستقبل کا اسکالر چودہ سالہ محمود عثمان

عمر اور غنہ کا چچا زاد بھائی محمود عثمان کسی انجینئر کا ذہن رکھتا تھا۔ متجسس محمود اپنے کھلونوں اور گھر کی دیگر چیزوں کو کھول کر جوڑا کرتا۔ اسے الیکٹرانک آلات پسند تھے

محمود اپنی آئندہ زندگی میں سفر کرنا چاہتا تھا لیکن ایک خاص مقصد کے ساتھ۔۔ اس کا خواب تھا کہ وہ بہترین تعلیم حاصل کرے

اسی لیے وہ اپنے چچا (جن کا نام بھی محمود ہے اور وہ ترکی میں رہتے ہیں) سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں جانے کے بارے میں بات کر رہا تھا

محمود کا کہنا ہے ”وہ مجھ سے اچھی یونیورسٹی تلاش کرنے میں مدد مانگ رہا تھا“

جب اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا تو چودہ سالہ محمود عثمان نے باقی سب لوگوں کی خاطر وہاں موجود رہنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ اپنے خاندان میں سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے اس نے بھرپور طریقے سے ذمہ داری پوری کی۔ وہ اپنے چچا محمود کو فون کرتا اور انہیں یقین دلاتا کہ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کرے گا

اس کے چچا محمود کے مطابق ”وہ مجھ سے کہتا تھا کہ ان لوگوں کی فکر نہ کروں، وہ محفوظ ہیں اور میں ان کی ہر ضرورت میں مدد کر سکتا ہوں۔ وہ مجھے بتانا چاہتا تھا کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔۔“

بالآخر محمود عثمان اپنی والدہ، چچا اور دادا دادی کے ساتھ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن گیا۔۔

فیش کی دلدادہ چودہ سالہ جود عبدالعزیز ابوشعبان

جود ابوالعزیز ابوشعبان سفر کرنا چاہتی تھی، بالکل اسی طرح، جیسے اس کے والد نے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیا

وہ اپنی ذات اور انداز کا احساس دلاتی تھی اور اس نے سات اکتوبر کو حملے سے کچھ دیر پہلے اپنے والد سے بالیوں کی فرمائش کی تھی

جود کے چچا عادل ابوشعبان بتاتے ہیں ”ان کے والد نے ان کے لیے بالیاں خریدیں، جنہیں اس نے چند ہفتے پہنا“

2009 میں حماس اور اسرائیل کے درمیان ایک اور لڑائی کے دوران پیدا ہونے والی جود کی پرورش جنگ کے ماحول میں ہوئی۔ اس کے باوجود اس کے معمولات پر یہ باتیں اثر انداز نہ ہو سکیں، وہ باقاعدگی سے اسکول جاتی، اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتی، خاص طور پر اپنے بڑے بھائی یوسف کے ساتھ۔۔

ابوشعبان کہتے ہیں ”وہ زندگی سے بھرپور تھی اور زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی“ لیکن 18 اکتوبر کو ابوشعبان کے گھر پر میزائل حملے کے نتیجے میں جود کی زندگی ختم ہو گئی۔۔

اسرائیلی بم حملوں کی آواز سن کر جود، ان کے بھائی، چھوٹی بہن اور والدین نے اپنے گھر کے تہہ خانے میں پناہ لی، لیکن جب سیڑھیوں کے اوپری حصے میں دھاتی دروازے پر دھماکہ ہوا تو ٹکڑے اڑ کر جود سمیت خاندان کے کئی افراد کو لگے۔

خوش وخرم ننجا، بارہ سالہ فرید سلوط

فرید سلوط کو اپنی پوری لیکن مختصر زندگی بہادری کا مظاہرہ کرنا پڑا، اس نے اپنی پیدائش کے پہلے ہی دن سے اسرائیلی جارحیت دیکھی

جب وہ اپنی والدہ کے شکم میں تھا تو اسرائیلی طیارے 2012 کے آپریشن پلر آف ڈیفنس کے دوران غزہ پر حملہ کر رہے تھے۔ بموں کی آواز ان پہلی آوازوں میں سے ایک تھی، جو اس نے کبھی سنی

فرید چہرے کے نقص کے ساتھ پیدا ہوا، جس کا غزہ میں علاج ممکن نہیں تھا لیکن اس نقص نے اسے تفریح پسند بچہ بننے سے نہیں روکا

فرید اپنا زیادہ تر فارغ وقت اپنے والد کی حجام کی دکان میں گھومتا پھرتا اور گاہکوں سے گپ شپ اور شرارت کرتے ہوئے گزارتا تھا

اس کے والد کو امید تھی کہ وہ ایک دن اپنے دو بھائیوں کے ساتھ مل کر کام سنبھالے گا

اس کے پسندیدہ کارٹون شو میں ننجا کا کردار تھا۔ وہ اسی کی طرح سیاہ رنگ کا لباس پہن کر کھلونا تلوار اٹھائے دوڑنا بھاگنا پسند کرتا تھا۔ فرید کو کھلونہ کاریں بہت پسند تھیں لیکن وہ اس کے پاس زیادہ تعداد میں نہیں تھیں

2016 میں جب وہ صرف پانچ سال کا تھا، ایک حیرت انگیز بات ہوئی۔ فلسطین چلڈرن ریلیف فنڈ نے رقم جمع کی اور اس کے چہرے کی خرابی کے علاج کے سلسلے میں اسے پیچیدہ سرجری کی خاطر لوزیانا کے شہر شریوپورٹ بھجوانے کا انتظام کیا گیا

اس کے والدین کو اسرائیل نے غزہ کی پٹی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی، اس لیے اس کی دادی حجر ابوسلمی اس کے ساتھ گئیں

فلسطینی نژاد امریکی شہری سارہ رامونی، جنہوں نے فرید کے امریکہ آنے پر ان کی میزبانی کی، کو چودہ گھنٹے جاری والے آپریشن کے بعد فرید کے ہوش میں آنے کے چند منٹ اچھی طرح یاد ہیں

ڈاکٹروں نے مؤثر طریقے سے اس کے سر کی ہڈی میں موجود خالی جگہ کو بھر دیا اور آنکھیں اپنی جگہ واپس لائے۔

سارہ اور دیگر ڈاکٹر اسے باتھ روم جانے میں مدد دینے کے لیے آگے بڑھے لیکن اس کی دادی نے مداخلت کی

سارہ رامونی بتاتی ہیں ”دادی کہنے لگیں، نہیں، نہیں، نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بچہ نہیں سمجھتے۔۔ انہیں بہادر ہونا چاہیے۔ ہم نہیں جانتے کہ انہیں مستقبل میں کس صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔“

فرید کے لیے یہ آسان نہیں تھا، لیکن اس نے مسکراتے ہوئے ایسا کیا۔

رامونی کہتی ہیں ”وہ ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا۔ وہ بہت زندہ دل تھا اور وہ ہمیشہ آپ کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا“

فرید جب شریوپورٹ میں صحتیاب ہو رہا تھا، تو اس نے جی بھر کر اپنا پسندیدہ کھانا کھایا یعنی فرائیز۔۔ لیکن اسے امریکی فرائیز پسند نہیں تھے، لہٰذا اس کی دادی نے آلو کاٹ کر انہیں اچھی طرح تلا۔ وہ فرنچ فرائیز سے زیادہ موٹے اور تلے ہوئے تھے اور ان کا ذائقہ گھر والا تھا۔

خاموش محافظ: چودہ سالہ قصی سلوط

بعد میں قصی نے شریو پورٹ کا وہی سفر طے کیا، جو اس کے چھوٹے بھائی فرید نے ایک سال قبل کیا تھا۔ وہ بھی چہرے کی اسی خرابی کے ساتھ پیدا ہوا تھا اور علاج کے لیے امریکہ گیا

قصی شرمیلا اور فرید سے بڑا تھا۔ وہ اس بارے میں زیادہ سمجھتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا آپریشن طویل اور تکلیف دہ ہوگا

دونوں لڑکوں کے سر میں ایک جگہ کوئی ہڈی نہیں تھی۔ یہ حالت ممکنہ طور پر جان لیوا تھی

شریوپورٹ میں قصی کو ہمیشہ ڈاکٹروں سے ملاقات کا وقت لینا پڑتا تھا۔ رامونی پہلے کی طرح اس کی اور اس کی دادی کی دیکھ بھال کے لیے وہاں موجود تھیں

قصی اپنے چھوٹے بھائی کی طرح طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم نہیں تھا، اس لیے رامونی کو بھی قصی کو زیادہ جاننے کا موقع نہیں ملا، لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی عمر کے زیادہ تر بچوں کے مقابلے میں زیادہ پختہ تھا ”آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ یہ بچے زیادہ تیزی سے بڑے ہوئے۔ اصل میں انہیں بچپن گزارنے کا موقع نہیں ملا۔۔ میں نے محسوس کیا کہ ان بچوں کو زیادہ تیزی سے بڑا ہونا پڑا“

مسلسل خوف اور بدترین حالات کی تیاری سلوط خاندان کے ذہنوں میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ رامونی کو یاد ہے کہ انہوں نے قصی اور فرید کی والدہ سے مذاق میں سوال کیا کہ جب غزہ کے حالات اتنے خراب تھے تو ان کے ہاں اتنے بچے کیوں تھے

رامونی کے مطابق: ”والدہ نے کسی تامل کے بغیر جواب دیا۔۔ ہمارے آدھے بچے بچ نہیں پاتے اس لیے ہمیں بچے پیدا کرتے رہنا پڑتا ہے۔۔“

”جس طرح سے انہوں نے کہا، وہ بالکل اسی طرح تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک اور ’جنگ‘ ہونے والی ہے اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ بچے بچ نہ سکیں۔“

ان الفاظ نے درست ثابت ہونا تھا۔ فرید اور قصی 8 نومبر کو خان یونس میں اسرائیلی فضائی حملے میں جان سے گئے۔ حملے میں میں ان کے دادا دادی، ان کی چچی اور چچا اور ان کے بھائی قاسم مارے گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close