غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت میں بائیس ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں، جن میں ہزاروں اموات کمسن بچوں کی ہیں۔ جبکہ ہزاروں بچے اور نوجوان اپنے اعضا سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔ پٹی میں نہ ادویات میسر ہیں نہ خوراک اور پانی۔۔ اسرائیلی بمباری کی صورت میں وہاں صرف موت برس رہی ہے، جس سے ہسپتال گھر اسکول محفوظ ہیں نہ ہی شجر، حجر اور جانور
بہت شور سنتے ہیں دنیا میں جانوروں کے حقوق کا، یہ خبر نچوڑیں تو شاید جانوروں کے حقوق کی بات کرنے والے ہی کچھ کہیں۔۔ کہ انسان کی تو اب یہاں کوئی وقعت باقی نہیں رہی
غزہ کے عادل غوما کے یہ الفاظ دل چیر دینے والے ہیں، جو غزہ شہر سے فرار ہونے کے بعد ایک چڑیا گھر میں پناہ لیے ہوئے ہیں، وہ کہتے ہیں ”جانوروں کے درمیان رہنے میں اس سے کہیں زیادہ رحم کی امید ہے جو ہمیں آسمان پر جنگی طیارے دیتے ہیں۔“
عادل نے بتایا ”بہت سے خاندان ایسے ہیں، جو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں۔ اب ہمارا تمام خاندان اس چڑیا گھر میں رہ رہا ہے۔“
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق رفح کے چڑیا گھر میں، جہاں غزہ کے درجنوں بے گھر باشندے پنجروں کے درمیان ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں، بھوکے بندر، پرندے اور شیر بھی اسرائیل کے 12 ہفتوں سے جاری حملوں کی وجہ سے کھانے پینے کو ترس رہے ہیں۔ چڑیا گھر کے ایک کارکن نے ایک کمزور بندر کو ٹماٹر کے ٹکڑے ہاتھ سے کھلانے کی کوشش کی، لیکن وہ کمزوری کی وجہ سے کھا ہی نہیں سکا
چڑیا گھر کے مالک احمد گوما نے بتایا کہ چار بندر پہلے ہی مر چکے ہیں اور پانچواں اب اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ کھانا اگر دیا بھی جائے تو وہ خود نہیں کھا سکتا۔ وہ وہاں رہنے والے شیر کے دو بچوں سے بھی ڈرتا ہے۔
وہ شیر کے دو بچوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں، ”ہم انہیں (شیروں کو) زندہ رکھنے کے لیے سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھلاتے ہیں۔ صورت حال واقعی افسوس ناک ہے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے بچوں کی ماں، شیرنی کا وزن آدھارہ گیا ہے، اس کی خوراک روزانہ مرغی کےگوشت کے بعد اب ہفتہ وار روٹی رہ گئی ہے
غزہ کے تقریباً تمام تیئیس لاکھ باشندے، نسل کشی کے ارادے سے کی جانے والی اسرائیلی بمباری کی وجہ سے اپنے گھروں سے در بدر ہو گئے ہیں اور زیادہ تر علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ اب جنوبی شہر رفح میں پناہ لے رہے ہیں، جہاں گلیوں کے کونے اور خالی میدان اس علاقے میں پناہ کے متلاشیوں سے بھرے ہوئے ہیں
گوما خاندان کے زیر انتظام اس نجی چڑیا گھر میں، پلاسٹک کے خیموں کی ایک قطار جانوروں کے پنجروں کے قریب استادہ نظر آتی ہے اور کھجور کے درختوں کے درمیان رسیوں پر دھلے کپڑے لٹک رہے تھے
قریب ہی ایک کارکن ، ایک کمزور بندر کو ٹماٹر کے ٹکڑے ہاتھ سے کھلانے کی کوشش کرتا دکھائی دیا
چڑیا گھر میں پناہ لینے والوں میں سے بہت سے گوما خاندان کے افراد ہیں، جو جنگ میں اپنے گھروں کی تباہی سے پہلےمحصور علاقےکے مختلف حصوں میں رہ رہے تھے
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ غزہ پر قحط منڈلا رہا ہے اور پوری آبادی کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے۔ اسرائیل نے جنگ کے آغاز پر غزہ میں تمام خوراک، ادویات، بجلی اور ایندھن کی ترسیل بند کر دی تھی۔
اگرچہ اب اسرائیل امداد کو اس محصور علاقےمیں داخل ہونے کی اجازت دے رہاہے، لیکن سیکیورٹی چیک، رسد میں رکاوٹوں اور جنگی زون کے ملبے سے گزرنے میں دشواری نے ترسیل میں رکاوٹ ڈالی ہے
وہاں موجود بہت سے فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز کھانا نہیں کھاسکتے۔ چڑیا گھر میں، شیرنی اور اس کے دونوں بچے اپنے پنجرے میں بے سدھ پڑے ہوئے تھے جب کہ پنا ہ گزین بچے ان کےقریب ہی کھیل رہے تھے
چڑیا گھر میں کام کرنے والے ڈاکٹر صوفیان عابدین نے کہا کہ جانور ہر روز مر رہے ہیں اور بیمار ہو رہے ہیں۔ ”بھوک، کمزوری، اور خون کی کمی کے کیسز،یہ مسائل بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ خوراک نہیں ہے۔“