عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ ہے کیا؟

ویب ڈیسک

آج عالمی عدالتِ انصاف(آئی سی جے) میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں نسل کشی سے متعلق ایک مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا

جنوبی افریقہ نے 29 دسمبر 2023 کو انصاف کی عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور مطالبہ کیا کہ عدالت یہ واضح کرے کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینی گروپ حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کی آڑ میں مبینہ نسل کُشی کر رہا ہے

یہ عالمی عدالت انصاف کے سامنے اس صدی کا ایک بڑا مقدمہ ہے۔ 11 اور 12 جنوری کو جنوبی افریقہ کی نمائندگی کرنے والے وکلا، اسرائیل کی نمائندگی کرنے والے وکلا پوری دنیا کے سامنے کمرہ عدالت میں پیش ہوں گے۔

ہم سنگت میگ کے قارئین کے لیے اس مقدمے کے حوالے سے زیل میں مختلف نکات کی وضاحت پیش کر رہے ہیں

⦿ عالمی عدالت انصاف کیا ہے؟

عالمی عدالت انصاف یا ورلڈ کورٹ اقوام متحدہ کی سب سے اعلیٰ قانونی باڈی ہے، جو 1945 میں قائم ہوئی۔ یہ عدالت ریاستوں کے مابین تنازعات کو ختم کرنے میں کردار ادا کرتی ہے۔

یہ ہیگ ہی میں موجود انٹرنیشنل کریمینل کورٹ سے مختلف عدالت ہے۔ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ جنگی جرائم سے متعلق شکایات کی سماعت کرتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف میں 15 ججوں کا پینل ہوتا ہے، جس میں فریق ریاستوں کی جانب سے ایک ایک اضافی جج بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

یہ عدالت سرحدی تنازعات کےعلاوہ مختلف ممالک کی جانب سے دوسرے ممالک کے خلاف اقوام متحدہ کے معاہدوں خلاف ورزی کی شکایات پر سماعت کرتی ہے۔

⦿ جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت میں یہ کارروائی کیسے شروع کی؟

اس مقدمے کا مرکزی نکتہ 1948 کی اس کنونشن پر مبنی ہے جو نسل کُشی کے جرائم کی روک تھام اور سزا سے متعلق دوسری عالمی جنگ اور ہولوکاسٹ کے بعد تیار کیا گیا تھا۔

اس کنونشن کے مطابق ’کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل طور پر یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے قتل کا ارتکاب نسل کشی کے زمرے میں آتا ہے۔‘

جنوبی افریقہ اور اسرائیل نے 1948 میں اس کنونشن پر دستخط کیے تھے۔ جس کے آرٹیکل نو کے مطابق قوموں کے درمیان تنازعات کو اس کنونشن کے تحت عالمی عدالت انصاف میں پیش کیا جا سکتا ہے۔

اس لیے جنوبی افریقہ نے اپنی 84 صفحات پر مشتمل دائر کردہ درخواست میں کہا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات مبینہ نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں کیونکہ اس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو تباہ کرنا ہے۔

اس مقدمے میں اسرائیلی بیانیہ بھی شامل ہے، جس میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے تبصرے بھی شامل ہیں اور ان کو ’نسل کشی کی نیت‘ کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

جہاں فلسطین نے اس مقدمے کا خیر مقدم کیا ہے وہیں اسرائیل نے تمام الزامات کو سختی سے مسترد کر دیا ہے۔

جنوبی افریقہ اور اسرائیل دونوں نے اقوام متحدہ کے ’جینوسائیڈ کنونشن 1948‘ پر دستخط کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے یہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

وہ تمام ممالک، جنہوں نے ’جنیوسائیڈ کنونشن‘ پر دستخط کر رکھے ہیں، وہ نہ صرف نسل کشی کے اقدامات نہ کرنے کے پابند ہیں، بلکہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے جرائم کو روکیں۔

⦿سماعت میں کیا امکانات ہیں؟

اس مقدمے کی سماعت 11 اور 12 جنوری کو ہوگی۔
جنوبی افریقہ کی جانب سے ہنگامی اقدامات کی درخواست ایک ایسے معاملے میں پہلا قدم ہے، جس کی تکمیل میں کئی برس لگیں گے۔ عارضی اقدامات کا مطلب ایک قسم کی روک تھام کا حکم ہے تاکہ کسی تنازع کو مزید بگاڑ سے روکا جا سکے۔

آئی سی جے کے جج اکثر ایسے اقدامات کی منظوری دیتے ہیں، جن میں عام طور پر ریاست کو کسی بھی ایسی کارروائی سے باز رہنے کو کہا جاتا ہے جو قانونی تنازع کو بڑھا سکتی ہے۔

جنوبی افریقہ نے عدالت سے کہا ہے کہ اسرائیل کو حکم دیا جائے کہ وہ غزہ میں اپنی فوجی کارروائیاں روک دے، نسل کشی کی کسی بھی کارروائی کو روکے یا نسل کشی کو روکنے کے لیے معقول اقدامات کرے اور ایسے اقدامات کے بارے میں آئی سی جے کو باقاعدہ رپورٹ بھی دے۔

آئی سی جے کے فیصلے حتمی ہوتے ہیں، جن میں اپیل کی گنجائش نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی سے اس عدالت کے پاس ان فیصلوں کو نافذ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

تاہم اسرائیل کے خلاف فیصلہ اس کی بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور ایک قانونی نظیر قائم کر سکتا ہے

⦿حتمی فیصلہ کب تک ہوگا؟

اگر عدالت کو اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ معاملہ بادی النظر میں اس کے دائرہ اختیار میں ہے تو ہی یہ مقدمہ آگے بڑھ سکے گا۔ اس کے بعد اسرائیل کو یہ دلیل دینے کا ایک اور موقع ملے گا کہ جنوبی افریقہ کے دعوے اور اعتراض دائر کرنے کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے۔

اگر عدالت اسرائیل کے اعتراض کو مسترد کر دیتی ہے تو جج مزید سماعتوں میں مقدمے کو دیکھ سکتے ہیں۔

عام طور پر ابتدائی دعوے اور اس کی تفصیلات پر کیس کی اصل سماعت کے درمیان کئی برس گزر جانا کوئی غیرمعمولی بات نہیں ہے۔

⦿ کیا اس مقدمے سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت رک سکتی ہے؟

اگر حال ہی کی مثال دیکھیں تو 2022 میں یورپی ملک یوکرین نے عالمی عدالت میں روس کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس کے بعد روس کو فوری طور پر اپنے حملے کو معطل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اقوام متحدہ کی سب سے معتبر عدالت ہے اور اس کے احکامات قانونی طور پر ممالک کو پابند کرتے ہیں لیکن ہمیشہ ان پرعمل درآمد نہیں ہوتا۔

اسی وجہ سے روس نے عدالت کے حکم کو نظر انداز کیا اور یوکرین پر حملے جاری رکھے۔

ماضی کی مثالوں سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ایسے مقدمات لمبے عرصے تک چل سکتے ہیں جبکہ ابتدائی فیصلے کے بعد عدالت پورے مقدمے پر غور کرنے کے طویل عمل کا آغاز کرتی ہے۔

اس کیس میں اسرائیل عدالتی دائرہ اختیار کو چیلنج کر سکتا ہے اور وہ 151 دوسرے ممالک جنہوں نے نسل کشی کے کنونشن پر دستخط کیے ہیں وہ بھی اپنی تجاویز پیش کرنے کے لیے عدالت کو درخواست دے سکتے ہیں۔

⦿ نسل کشی کی تعریف کیا ہے؟

اقوام متحدہ کے 1948 میں جاری کردہ نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا کے کنونشن کے مطابق، نسل کشی کا مطلب ہے کسی قومی، نسلی، نسلی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کارروائیوں کا کمیشن۔ ان کاموں میں شامل ہیں:

گروپ کے ارکان کو قتل کرنا۔
گروپ کے اراکین کو شدید جسمانی یا نفسیاتی نقصان پہنچانا۔

جان بوجھ کر گروپ کو زندگی کے حالات کے تابع کرنا جس کا مقصد اسے جسمانی طور پر، مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنا ہے۔

گروپ کے اندر بچوں کی پیدائش کو روکنے کے لیے اقدامات نافذ کرنا۔

بچوں کو گروپ سے دوسرے گروپ میں زبردستی منتقل کرنا۔

نسل کشی کو ثابت کرنا سب سے مشکل بین الاقوامی جرائم میں سے ایک ہے۔

ین الاقوامی فوجداری عدالت میں لبنان کی سابق وکیل دیالہ شہادیہ کہتی ہیں ’نسل کشی کو ثابت کرنے سے زیادہ اہم چیز تباہ کرنے کے ارادے کو ثابت کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو جنوبی افریقہ کی درخواست میں شامل ہے، کیونکہ اس میں اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ کا صفایا کرنے اور فلسطینیوں کو قتل کرنے کا مطالبہ کرنے والی عوامی تقاریر کو دستاویز کیا گیا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی کنونشن کے مطابق، نسل کشی کا مطلب صرف قتل کی کارروائیاں نہیں ہیں، بلکہ ایک گروہ کو ظلم و ستم اور بھوک سے مارنا بھی ہے اورانھیں بنیادی خدمات سے محروم کرنا بھی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close