فلسطین نے منگل کو ہانگ کانگ کو شکست دے کر پہلی بار فٹبال ایشین کپ کے ناک آؤٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیا
یہ فلسطین کی ایشین کپ کی تاریخ میں پہلی فتح بھی ہے۔
یہ فتح ایک ایسی ٹیم کے لیے بہت غیر معمولی ہے، جس کا عملہ اور کھلاڑی غزہ میں جاری جنگ کے دوران اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔ میچوں کے دوران تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد فلسطینی ٹیم سے اظہار یکجہتی کے لیے اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہے۔
قطر میں جاری ایشین کپ کے میچ میں فلسطین نے ہانگ کانگ کو صفر کے مقابلے میں تین گول سے شکست دی۔
فلسطین اپنے گروپ سی میں دوسری پوزیشن سے محروم رہا، لیکن تیسری پوزیشن حاصل کرنے والی چار بہترین ٹیموں میں سے ایک کے طور پر آگے بڑھا ہے۔
متحدہ عرب امارات گروپ فاتح ایران سے 2-1 سے ہارنے کے باوجود دوسرے نمبر پر ہے۔
جہاں ایک طرف تو اسرائیل کی غزہ پر جارحیت مسلسل جاری ہے وہیں یہ فتح فلسطینیوں کے لیے واحد خوشی کی خبر ہے۔
اس تاریخی فتح کے بعد فلسطینی ٹیم کے کپتان مصعب البطات نے بی آئی این اسپورٹس سے بات کرتے ہوئے کہا ”فلسطین اور فلسطین کی قومی ٹیم کی حمایت کے لیے آنے والے مداحوں کا شکریہ۔ ہمارے دل سے آپ کا شکریہ۔“
انہوں نے کہا ”ہم لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانے کی پوری کوشش کریں گے۔“
فلسطینی کھلاڑی اور عملے کے ارکان غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے دوران اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں اور ٹورنامنٹ سے قبل ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ وہ وطن میں اس سب سے گزرنے والوں کے لیے کچھ راحت کا سبب بنیں گے۔
میچ سے پہلے خاموشی اختیار کرنے کا لمحہ ’فلسطین آزاد کرو‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔
دوسری جانب فٹبال ایشین کپ میں شام نے بھی ٹورنامنٹ کے ناک آؤٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کر کے تاریخ رقم کر دی ہے۔
واضح رہے کہ فلسطین نے کبھی بھی ایشین کپ کا کوئی میچ نہیں جیتا، لیکن محمد صالح جیسے کھلاڑیوں کے لیے کھیل کے دوران معمول کا فوکس رکھنا ناممکن ہے۔ فلسطینی ٹیم میں دفاعی پوزیشن پر کھیلنے والے اس کھلاڑی نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی کئی دنوں سے اپنے گھر والوں سے بات نہیں ہو سکی تھی
اس سے قبل کھیلے گئے میچ کے اختتام پر صالح نے کہا ”میرے گھر والے، کھلی زمین پر ایک خیمے میں رہ رہے ہیں، خدا ان کی مدد کرے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ شہر میں ان کا گھر تباہ ہو چکا ہے اور ان کے خاندان کو سو سے زائد دنوں سے جاری لڑائی کے دوران مسلسل نقل مکانی کرنی پڑی۔
ٹورنامنٹ شروع ہونے سے کچھ دیر پہلےصالح کو بتایا گیا تھا کہ ان کے چچا، خالہ اور ان کے بچے اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں۔ صالح کا کہنا تھا، ”ہم غزہ کے لیے فٹ بال کھیلتے ہیں۔‘‘
صالح کا کہنا تھا، ”ٹیم میں ایسے کھلاڑی بھی ہیں، جن کے اہل خانہ کیمپ میں رہتے ہوئے شہید ہوئے لیکن ہم جنگجو ہیں اور یہ جذبہ فلسطینی حب الوطنی سے لبریز ہے۔ یہ ٹیم ہماری قومی شناخت کی عظیم ترین علامت ہے اور یہ ٹیم تمام فلسطینیوں کے لیے ہے۔‘‘