شمر جوزف: وہ آندھی، آسٹریلیا کے میدان ستائیس سال جس کے منتظر رہے۔۔

ویب ڈیسک

اتوار 28 جنوری کو کرکٹ کا ایک میدان انڈیا کے شہر حیدرآباد میں سجا تھا، جہاں انڈیا انگلینڈ پر حاوی تھا اور دوسری جانب آسٹریلیا کے شہر برسبین میں آسٹریلوی ٹیم دو میچوں کی ٹیسٹ سیریز میں ویسٹ انڈیز کی ناتجربہ کار ٹیم کو وائٹ واش کرتی نظر آ رہی تھی۔۔ لیکن دونوں ہی جگہ پانسہ پلٹ گیا۔۔ اور پھر ایک دم سے وقت بدل گیا، حالات بدل گئے، جذبات بدل گئے۔۔

انگلینڈ کی جانب سے پہلا میچ کھیلنے والے چوبیس سالہ ٹام ہارٹلی نے چوتھی اننگز میں سات وکٹیں لے کر انڈیا کو انڈیا میں شکست سے دو چار کیا، وہیں برسبین میں اپنا دوسرا میچ کھیلنے والے نو آموز کرکٹر شمر جوزف نے وہ کارنامہ کر دکھایا کہ کمنٹری باکس میں بیٹھے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے سابق کھلاڑی جذباتی ہو کر اچھل پڑے۔۔ لیجنڈ برائن لارا کی آنکھیں فرطِ جذبات سے نم ہو گئیں۔

اس ٹیسٹ سیریز سے پہلے ہم میں سے کسی نے شمر جوزف کے بارے میں شاید ہی سنا ہو۔۔ ہم ہی کیا، خود ویسٹ انڈیز کے کپتان بریتھویٹ بھی شمر سے اس دورے پر پہلی بار مل رہے تھے، البتہ انہوں نے بس اتنا سن رکھا تھا کہ وہ بہت خاص صلاحیت کے حامل ہیں

شمر جوزف کرکٹ کو اپنا کریئر بنانے سے قبل اپنی فیملی کی کفالت کے لیے یومیہ اجرت پر باڈی گارڈ کی ملازمت کرتے تھے

سنہ 2023 سے قبل شمر نے اعلٰی سطح کی کرکٹ نہیں کھیلی تھی، لیکن جب انہیں ویسٹ انڈیز اے کے ساتھ جنوبی افریقہ کے دورے پر دیکھا گیا تو انہیں ویسٹ انڈیز کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ملی اور انہوں نے اپنے کریئر کی پہلی ہی گیند پر آسٹریلیا کے سابق کپتان اور ڈیوڈ وارنر کی جگہ نئے اوپنر اسٹیون اسمتھ کی وکٹ لے کر اپنی مخصوص صلاحیت کا اظہار کیا۔

انہوں نے پہلی اننگز میں دو اور دوسری میں تین وکٹیں لیں، صرف یہی نہیں، انہوں نے 11 نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے تین چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 36 رنز بھی بنائے۔

البتہ ہفتے کے روز بیٹنگ کرتے ہوئے مچل اسٹارک کی ایک یارکر شمر کے انگوٹھے کو زخمی کر گئی اور یوں لگا کہ اب وہ اس ٹیسٹ میچ میں مزید نہیں کھیل پائیں گے۔۔ سپورٹ اسٹاف انہیں سہارا دے کر پویلین لے گیا، تاہم جب ان کے انگوٹھے کا سکین ہوا تو پتا چلا کہ فریکچر نہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اتوار کو ہوٹل سے صرف اس لیے میدان میں آئے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوں

حتیٰ کہ وہ ٹیسٹ کے لیے اپنے سفید کپڑے بھی نہیں لائے تھے لیکن ڈریسنگ روم میں کپتان بریتھ ویٹ نے ان سے کہا کہ انہیں فیلڈ میں اترنا ہوگا اور پھر ان کا ڈریس لینے کے لیے ایک اسٹاف کو ہوٹل بھیجا گیا جبکہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی کی جرسی پر ٹیپ لگا کر اسے پہنا اور میدان میں اترے۔

ٹیم کے ساتھ سفر کرنے والے ڈاکٹر نے شمر جوزف کو چوٹ اور درد کے لیے کوئی سیرپ دیا تاکہ وہ کھیلنے کے قابل ہو سکیں۔

یہ سب کچھ آگے چل کر ایک ایسی کہانی تخلیق کرنے والا تھا، جس نے ویسٹ انڈین لیجینڈ برائن لارا کی بھی فرط جذبات سے آنکھیں نم کر دینے تھیں۔۔

کہانی آگے بڑھتی ہے۔۔ اوپنر اسٹیون اسمتھ اور کیمرن گرین آسٹریلیا کو مطلوبہ ہدف 216 رنز تک پہنچانے کے لیے 113 رنز بنا چکے تھے

اس وقت تک آسٹریلیا کی صرف دو وکٹیں گری تھیں اور محض 103 رنز چاہیے تھے، جبکہ ان کی آٹھ وکٹیں بچی تھیں۔۔ تبھی شمر جوزف نے ایک شاندار گیند پر کیمرن گرین کو بولڈ کر دیا

شمر نے صرف گرین کی وکٹ نہیں اکھیڑی تھی بلکہ انہوں نے آسٹریلیا کے پاؤں بھی اکھیڑ دیے تھے۔۔ انہوں نے اگلی ہی گیند پر ٹریوس ہیڈ کو بھی بولڈ کر دیا۔۔ اب آسٹریلیا کی 113 رنز پر چار وکٹیں گر چکی تھیں اور ہوا کا رخ بدل چکا تھا

پھر شمر نے دو اوورز بعد مچل مارش کو 10 رن پر پویلن کی راہ دکھائی جبکہ اسٹیون اسمتھ دوسرے سرے پر وکٹوں کو گرتے دیکھتے رہے۔ اگلے ہی اوور میں شمر نے الیکس کیری کو دو رنز پر بولڈ کر دیا۔ یہ ان کی پانچ اووروں چوتھی وکٹ تھی۔

مچل اسٹارک نے کچھ مزاحمت دکھائی لیکن وہ بھی زیادہ دیر نہ ٹک سکے اور جوزف کا پانچواں شکار بنے اور جب اگلے اوور میں انہوں نے پیٹ کمنس کی وکٹ لی تو آسٹریلیا پوری طرح سے دباؤ میں آ گیا۔۔ کچھ وقت پہلے جیت کے راستے پر گامزن ٹیم اب بقا کی جنگ لڑ رہی تھی

ایک وقت پر جوزف نے 10 اوورز میں 60 رنز دے کر چھ وکٹیں لے رکھی تھیں۔ اس وقت شمر جوزف نے اپنے کپتان کریگ بریتھویٹ سے کہا کہ وہ اس وقت تک بولنگ کرنا نہیں چھوڑیں گے، جب تک کہ آخری وکٹ نہیں گر جاتی اور پھر جب آسٹریلیا کو محض 12 رنز درکار تھے تو شمر اپنا 12واں اوور لے کر آئے۔

اس دوران اسمتھ زیادہ تر گیندیں خود کھیل رہے تھے اور آخری کھلاڑی ہیزل وڈ کو بچا رہے تھے۔ انہوں نے شمر کی پہلی چار گیندوں پر تین رنز بنائے اور ہیزل وڈ کو دو گیندیں کھیلنے کے لیے چھوڑ دیا کہ شمر کی پانچویں گیند ان کا آف اسٹمپ لے اڑی اور دوسری طرف پل بھر میں ایک بے یقینی کے عالم میں جوش میں دوڑتے ہوئے شمر جوزف دوڑتے ہوئے باؤنڈری پر پہنچ گئے۔

دوسری جانب فاکس کرکٹ کے لیے کمنٹری باکس میں آسٹریلین کمنٹیٹر کے ساتھ بیٹھے آسٹریلین وکٹ کیپر ایڈم گلکرسٹ اچھل پڑے اور وہیں بیٹھے برائن لارا کو گلے لگایا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا، جو کرکٹ میں شاذو نادر نظر آتا ہے

برائن لارا نے گلکرسٹ سے گلے ملنے کے بعد جذباتی لہجے میں کہا ”آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں ہرانے کے لیے ستائیس سال لگے۔۔ نوجوان، ناتجربہ کار، بے وقعت ٹیم نے یہ کر دکھایا۔۔۔ یہ ویسٹ انڈیز ٹیم آج سر اٹھا کر کھڑی ہو سکتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ پھر سے بلندیوں پر پہنچ سکتی ہے۔ آج کا دن ویسٹ انڈیز کی کرکٹ میں ایک بڑا دن ہے۔ اس کرکٹ ٹیم کے ہر رکن کو مبارک ہو، یہ کتنا شاندار موقع ہے۔“

ایک دوسرے چینل پر بیٹھے ویسٹ انڈیز کے کرکٹر نے جوزف کو ’نجات دہندہ‘ کہا اور ان کے کارنامے کو خواب کے سچ ہونے کے مترادف قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک ایسی کہانی والے کریئر کی ابتدا ہے، جس سے اوپر جانا کھیل کی تاریخ میں شاید مشکل ہو۔‘

آسٹریلین کپتان کمنز نے شمر کے بارے میں کہا کہ انہوں نے شاندار شروعات کی اور اپنی بولنگ سے ایک گھر کو زمین بوس کر دیا۔

انڈیا میں کرکٹ کے ’بھگوان‘ سمجھے جانے والے سچن تندولکر نے ٹوئٹر پر لکھا ”شمر جوزف کی سات وکٹیں حاصل کرنے والی شاندار اسپیل ٹیسٹ کرکٹ میں ہمت کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ وہ فارمیٹ ہے جو واقعی چیلنج کرتا اور کھلاڑی کی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ستائیس سال بعد آسٹریلیا میں ویسٹ انڈیز کی تاریخی فتح کے اسکرپٹ کے ایک اہم معمار ہیں۔“

شمر جوزف کو جہاں اس میچ میں ان کی کارکردگی کے لیے مین آف دی میچ قرار دیا گيا وہیں وہ مین آف دی سیریز بھی رہے۔

پریزنٹیشن کے دوران جب شمر سے پوچھا گیا کہ اب ٹی 20 کی ٹیمیں ان میں بے پناہ دلچسپی دکھائیں گی تو انہوں نے کہا ”میں ویسٹ انڈیز کے لیے کھیلنے کے لیے ہمیشہ دستیاب رہوں گا، چاہے مجھے کتنا ہی پیسہ کیوں نہ پیش کیا جائے۔“

شمر جوزف کا تعلق باراکارا سے ہے، جو مشرقی بربیس-کورینٹین، گیانا کی ایک چھوٹی سی کمیونٹی ہے۔ وہاں جدید دنیا کی سہولیات ابھی تک نہیں پہنچیں ہیں۔

دریائے کینجے کے اوپر تقریباً 225 کلومیٹر دور اور نیو ایمسٹرڈیم کے بندرگاہی شہر سے کشتی کے ذریعے دو دن کا راستہ ہے، وہ انٹرنیٹ کی سہولیات یا ٹیلی فون کنکشن تک رسائی کے بغیر پلا بڑھا، زمینی لائنوں کے علاوہ مواصلات کے کوئی اور ذرائع نہیں تھے۔

جبکہ سنہ 2018 تک ان کے جزیرے تک انٹرنیٹ کی سہولت نہیں پہنچی تھی اور ٹی وی تو چند ہی گھروں میں ملتا تھا۔ اس کے علاوہ، براکارا میں صرف ایک چھوٹا سا صحت مرکز اور ایک پرائمری اسکول تھا اور گاؤں میں ثانوی تعلیم کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ جوزف تین بہنوں اور پانچ بھائیوں کے خاندان میں پلا بڑھا۔

جوزف کرٹلی ایمبروز اور کورٹنی والش کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، وہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے ماضی کے ان خطرناک اوپننگ باؤلرز کی بالنگ کی جھلکیاں دیکھتے اور گاؤں کے ارد گرد اپنے ٹیپ بال گیمز میں ان کی نقل کرتے رہے۔ انہوں نے پھلوں جیسے لیموں، امرود اور آڑو کے ساتھ ٹیپ بال کے ساتھ گیند بازی شروع کی اور اسے باراکارا میں جنگل کی زمینی کرکٹ کا نام دیا گیا۔ فی الحال، وہ ویسٹ انڈیز کے ساتھی کرکٹر روماریو شیفرڈ کے پڑوسی ہیں

انہوں نے کرکٹ میں اپنا پہلا تجربہ ٹکبر پارک کرکٹ کلب کے لیے چند فرسٹ ڈویژن اور سیکنڈ ڈویژن میچوں میں کیا۔ وہ باراکارا سے پہلے ٹیسٹ کرکٹر بنے۔ اپنے کرکٹ کیریئر سے پہلے، جوزف نے اپنے بہن بھائیوں اور والد کے ساتھ لاگنگ کی صنعت میں کام کیا، بکارا میں لاگوں کو کاٹنا اور دریائے کینجے کے نیچے لکڑی کو نیو ایمسٹرڈیم پہنچانا۔ ایک بار ایک گرنے والے درخت نے اسے تقریباً ٹکر مار دی

جوزف نے بکارا سے دور جانے کا فیصلہ کیا، اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے کام کی تلاش میں نیو ایمسٹرڈیم منتقل ہو گئے۔ نیو ایمسٹرڈیم میں، جوزف کو پہلے تعمیراتی کام، ایک مزدور کے طور پر، اور پھر ایک سیکورٹی گارڈ کے طور پر ملازمت ملی۔ ایک سیکورٹی گارڈ کے طور پر ان کی ملازمت کے لیے انہیں دن اور رات میں طویل، 12 گھنٹے کی شفٹوں میں کام کرنے کی ضرورت پڑتی تھی، جس سے کرکٹ کی کوششوں کے لیے بہت کم گنجائش رہ پاتی تھی۔ بالآخر، اپنی منگیتر کے تعاون سے، جوزف نے اپنی ملازمت چھوڑنے اور اپنے کرکٹ کے عزائم کو پورا وقت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔

شمر جوزف نے گذشتہ سال گیانا ہارپی ایگلس کے لیے فرسٹ کلاس میچ کھیلے اور تین مچوں میں انھوں نے نو وکٹیں لیں۔ پھر ان کا انتخاب ویسٹ انڈیز اے کے جنوبی افریقہ کے دورے کے لیے ہوا جہاں وہ سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولروں میں شامل رہے۔

اس کارکردگی پر انھیں ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ملی جس میں سات نئے کھلاڑی شامل کیے گئے اور اس انتہائی نوآموز ٹیم نے 27 سال بعد وہ کارنامہ انجام دیا جو صرف پریوں کی کہانی میں ممکن ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close