ویسٹ انڈیز کے ’تھری ڈبلیوز‘ کی دلچسپ کہانی، جن کے ریکارڈ آج بھی قائم ہیں!

وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ یہ دونوں بولرز نہ دنیا بھر کے بیٹسمینوں کے لیے خوف کی علامت تھے۔ وسیم اکرم کی سوئنگ بولنگ اور وقار یونس کی ریورس سوئنگ کا جادو، دونوں مل کر حریف ٹیموں کے بیٹنگ لائن اپس کو تباہ کرنے کے لیے کافی تھے۔

’سوئنگ کے سلطان‘ کے نام سے جانے جانے والے وسیم اکرم گیند کو ہوا میں ہلکی سی حرکت دے کر بیٹسمینوں کو دھوکہ دینے میں ماہر تھے۔ دوسری طرف، وقار یونس کا ’ٹَو آف یارکر‘ اور ریورس سوئنگ، جو ابتدائی اوورز سے ہی بولنگ میں نظر آتا تھا، بیٹسمینوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن جاتا تھا۔

ان دونوں کی جوڑی کو پاکستانی کرکٹ کا ’ٹو ڈبلیوز‘ یعنی وسیم اور وقار کہا جاتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ انہیں ’ٹو ڈبلیوز‘ کیوں کہا جاتا ہے؟

یہ اصطلاح دراصل ویسٹ انڈیز کے تین کھلاڑیوں کے لیے استعمال ہونے والی ‘تھری ڈبلیوز‘ کی اصطلاح سے مستعار لی گئی ہے۔۔ یہ ان دنوں کی بات ہے، جب ویسٹ انڈیز کرکٹ جب اپنے عروج کی طرف گامزن تھی، تب اس ٹیم میں ایسے تین بیٹسمین تھے، جن کے نام انگریزی کے حرف ’ڈبلیو‘ سے شروع ہوتے تھے اور انہوں نے ویسٹ انڈیز کی ٹیم کو متواتر کامیابیوں سے ہم کنار کیا تھا۔

انہیں دنیائے کرکٹ نے ویسٹ انڈیز کے ’تھری ڈبلیوز‘ کے نام سے یاد کیا۔ یہ تھے فرینک واریل، کلائیڈ والکوٹ اور ایورٹن ویکس یعنی واریل، والکوٹ اور ویکس۔۔ واریل سب سے بڑے تھے اور سنہ 1924 میں پیدا ہوئے جبکہ ویکس سنہ 1925 اور سنہ والکوٹ 1926 میں پیدا ہوئے تھے۔

یہ تینوں 1950 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ اگر ایک ناکام ہوا تو دوسرا کامیاب ہوگا اور دوسرا بھی ناکام ہوا تو تیسرا تو ضرور کامیاب ہوگا۔۔ یعنی ”کَرن سے بچو گے تو حُسین سے پِٹو گے!“

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نہ صرف یہ تینوں ایک ساتھ ایک دہائی تک ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں کھیل رہے تھے بلکہ ان تینوں کا تعلق ویسٹ انڈیز کے بارباڈوس میں جنوب مغربی پیرش سینٹ مائیکل سے تھا اور یہ تینوں ہی چند میل کے دائرے میں پیدا ہوئے تھے۔

فرینک وریل، کلائیڈ والکاٹ، اور ایورٹن ویکس تینوں 1924 میں پیدا ہوئے تھے، اور یہ بھی ان کے گروپ کو خاص بناتا ہے۔

حتٰی کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تینوں کی پیدائش ایک ہی دائی کے ہاتھوں ہوئی تھی!

ویسٹ انڈیز کے معروف آل راؤنڈر سر گارفیلڈ سوبرز نے پیٹ گبنس سے بات کرتے ہوئے ان کے بارے میں ایک بار کہا تھا کہ پہلی بار جب انہوں نے ’تھری ڈبلیوز‘ کی اصطلاح سنی تھی تو وہ ان سے واقف نہیں تھے، لیکن وہ تینوں بعد میں ان کے آئیکون بنے۔

وہ زمانہ ریڈیو پر کمنٹری کا تھا اور انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ میچ جاری تھا، جس میں ایک آواز نے سوبرز کا ان تینوں سے تعارف کرایا تھا۔

گیری سوبرز بتاتے ہیں کہ ایک آواز نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا، ”ووریل اس قدر نزاکت کے ساتھ بیٹنگ کر رہے تھے کہ گیند آگے آگے فیلڈر سے پہلے باؤنڈری تک پہنچ جاتی تھی اور فیلڈر ان کا پیچھا کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔ والکاٹ ویسٹ انڈیز کی بیٹنگ کے ’بُلی بیف‘ تھے، جو بال کو اتنی طاقت سے مارتے کہ فیلڈر چاہ کر بھی گولی کی رفتار سے جاتی ہوئی گیند سے ہاتھ ہٹا لیتا تھا۔ جبکہ ویکس کا فٹ ورک اتنا اچھا اور خوبصورت تھا کہ جب وہ شاٹ لیتے تو سامنے کھڑے فیلڈرز صرف کھڑے ہو کر ان کے اسٹروک پلے کی تعریف کر سکتے تھے۔“

بعد میں سوبرز بھی ان کے ساتھ تقریباً نصف دہائی تک کھیلے اور وہ آج تک کے سب سے بہتر ٹیسٹ آل راؤنڈر تصور کیے جاتے ہیں۔

آج بھی ان ’تھری ڈبلیوز‘ کا کرکٹ ریکارڈ کسی سے کم نظر نہیں آتا۔ اگر واریل نے 51 میچز میں تقریباً 50 کے اوسط سے 3860 رنز بنائے تو والکوٹ نے 57 کے اوسط سے 44 میچز میں 3798 رنز بنائے، جس میں 15 سینچریاں اور 14 نصف سینچریاں شامل تھیں، جبکہ ویکس نے 48 میچز میں 59 کے اوسط سے 4455 رنز بنائے اور اس میں انھوں نے 15 سینچریاں اور 19 نصف سینچریاں اسکور کیں۔ سونے پر سہاگا، تینوں نے ڈبل سنچریاں بھی بنائیں۔

اگر آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو سوائے واریل کے والکوٹ اور ویکس کی اوسط مایہ ناز انڈین بیٹسمین سچن تنڈولکر سے بھی بہتر ہے

ان تینوں نے کل 39 سینچریاں اور 55 نصف سینچریاں بنائیں تو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو انھوں نے ساتھ میں جتنے میچز کھیلے، اس میں ایک نہ ایک کامیاب ضرور رہا۔

وارل اچھی بولنگ بھی کر لیتے تھے اور انہوں نے اپنے مختصر کیریئر میں 60 سے زیادہ وکٹیں بھی حاصل کیں اور سب سے زیادہ پندرہ سالوں تک ویسٹ انڈیز کی نمائندگی کی۔

فرینک واریل :

فرینک واریل ویسٹ انڈیز کے پہلے مستقل سیاہ فام کپتان بنے، جنہوں نے ٹیم کو 1950 کی دہائی میں اپنی قیادت میں کامیابی کی بلندیوں تک پہنچایا۔

واریل کو سنہ 1951 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا۔ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف شاندار ڈبل سینچری (261) اسکور کی تھی اور ان کی اس اننگز کی وجہ سے ان کی ٹیم کو ناٹنگھم میں 10 وکٹوں سے فتح ملی تھی۔ وارل چار میچوں میں 539 رنز کے ساتھ سیریز میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے اور ان کی بیٹنگ کی بدولت ویسٹ انڈیز نے سیریز 1-3 سے جیت لی جو کہ انگلینڈ کے خلاف اس کی سرزمین پر اس کی پہلی جیت تھی۔
اس کے بعد فرینک واریل کی قیادت میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم ایک دہائي بعد سنہ 61-1960 میں آسٹریلیا کے دورے پر گئی، جہاں آسٹریلوی، واریل سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے ٹرافی کو ان کے نام کر دیا۔ آج بھی آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ٹیسٹ سیریز کے فاتح کو فرینک واریل ٹرافی سے نوازا جاتا ہے۔

 سر کلائیڈ والکوٹ

والکوٹ نے سنہ 1948 میں انگلینڈ کے خلاف اپنی سرزمین پر اپنا ڈیبیو کیا۔ انھوں نے دو سال بعد انگلینڈ کے خلاف 1950 کی سیریز میں جس میں واریل سب سے زیادہ رنز سکور کیے تھے، لارڈز کے میدان پر ناقابل شکست 168 رنز بنائے، اور ان کی وجہ سے ان کی ٹیم کو ٹیسٹ میچز میں انگلیںڈ کی سرزمین پر اپنی پہلی جیت ملی۔

کلائیڈ والکاٹ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں سے بیٹنگ کرنے کی مہارت رکھتے تھے، جو انہیں ایک منفرد کھلاڑی بناتا تھا۔

انہیں اپنے کیریئر کے آخر میں یعنی 1958 میں وزڈن کرکٹر آف دی ایئر قرار دیا گیا تھا۔
چند تنازعات کی بنیاد پر انہوں نے 1960 میں بین الاقوامی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا حالانکہ ان کی کافی کرکٹ باقی تھی۔ وہ 1973 سے 1988 تک ویسٹ انڈیز میں سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین رہے اور 1975 اور 1979 میں ٹیم کی ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیموں کو منظم کیا۔ سنہ 1997 میں وہ آئی سی سی کے پہلے سیاہ فام چیئرمین بنے۔ انہوں نے اس وقت انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی جانب سے دنیائے کرکٹ میں در آنے والے میچ فکسنگ کے الزامات کی تحقیقات کی نگرانی کی۔

سر ایورٹن ویکس :

دنیائے کرکٹ میں وسیع پیمانے پر ان تینوں بلے بازوں میں سے ویکس کو سب سے بہتر سمجھا گیا۔ انھیں واریل کے ساتھ ہی وزڈن کرکٹر آف دی ايئر میں شامل کیا گیا تھا۔ لیکن انھوں نے والکاٹ کے ساتھ ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا۔ جبکہ واریل نے ان کے بعد اگلے ٹیسٹ میں ڈبیو کیا تھا۔ اس سال انہوں نے لگاتار پانچ ٹیسٹ سینچریاں اسکور کیں اور محض 12 اننگز میں 1000 ٹیسٹ رنز بنائے، یہ سر ڈان بریڈمین سے ایک اننگز کم تھی، لیکن انہوں نے نو ٹیسٹ کی 12 اننگز میں یہ ریکارڈ بنایا تھا جبکہ بریڈ مین نے سات میچز کی 13 اننگز میں ہزار رنز بنائے تھے۔

ان کا مقابلہ بجا طور پر آسٹریلیا کے عظیم اور دنیا کے کرکٹ اب تک کے سب سے بہترین بلے باز سر ڈونلڈ بریڈمین کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سابق آسٹریلوی کرکٹر اور معروف کرکٹ کمنٹیٹر رچی بینو نے ایک بار کہا تھا کہ ویکس ایک ایسے بلے باز تھے، جن کا انداز اور کلاس بریڈمین کے سب سے قریب تھا۔

خیال رہے کہ ان تینوں نے سنہ 1948 میں انگلیںڈ کے خلاف ہوم سیریز میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور ایک دہائی تک ایک ساتھ کھیلتے رہے، جس دوران ویسٹ انڈیز نے اپنی صلاحیت کا دنیا میں لوہا منوایا۔ اب تینوں اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن جب بھی کسی جوڑی کی بات ہوتی ہے تو ان تینوں کا نام سرفہرست آتا ہے۔

ویسٹ انڈیز نے 3Ws Oval کے نام سے ایک کرکٹ اسٹیڈیم بارباڈوس میں تعمیر کیا، جو ان عظیم کھلاڑیوں کے اعزاز میں ہے۔

یہ تینوں کھلاڑی نہ صرف میدان میں بلکہ میدان سے باہر بھی بہترین دوست تھے، اور ان کی دوستی کو کرکٹ کی دنیا میں ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔

گارفیلڈ سوبرز کہتے ہیں ”اب وہ سب چلے گئے ہیں: 1967 میں فرینک 42 سال کی عمر میں لوکیمیا کی وجہ سے، کلائیڈ 2006 میں 80 سال کی عمر میں، اور ایورٹن گزشتہ سال 95 سال کی عمر میں۔ مگر انہیں کبھی نہیں بھلایا جائے گا، نہ صرف کیریبین میں بلکہ دنیا بھر میں۔۔ وہ عظیم کھلاڑی اور ویسٹ انڈیز کرکٹ کے بہترین سفیر تھے۔ وہ نہایت عمدہ انسان بھی تھے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close