متعدی بیماریوں کا یہ سارا کا سارا نظریہ، کہ یہ ایک سے دوسرے میں منتقل ہو سکتی ہیں، ایک مکمل افسانہ ہے۔۔۔ یہ حیرت انگیز دعویٰ ہے ویرونیکا ہاپٹ کا!
ویرونیکا ہاپٹ جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن کے قریب سمندر کنارے واقع گھر میں رہتی ہیں۔ وہ اپنی تصویر شیئر نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ ایک نیچروپیتھ (صحت کے لیے ’قدرتی‘ طریقہ علاج کرنے والی معالج) ہیں، جو کہ سائنسی شواہد پر مبنی نہیں ہے
ویرونیکا کا کہنا ہے ”میں کئی سالوں سے متبادل طریقہ علاج میں دلچسپی لے رہی تھی اور پھر کورونا وائرس کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس نے میری دلچسپی میں مزید اضافہ کر دیا“
ویرونیکا کا راستہ جانا پہچانا ہے۔ پہلے وہ ’ویلنس‘ یعنی تندرستی میں دلچسپی رکھتی تھیں اور صحت کے غیر روایتی علاج کے بارے میں پڑھ کر لطف اندوز ہوتی تھیں۔ پھر وہ کووڈ ویکسین کے اجزاء کے بارے میں شک و شبہات میں مبتلا ہو گئیں اور اس بات پر سوچنے لگیں کہ آخر ویکسین لگوانا کچھ دفاتر میں لازمی کیوں کیا جا رہا ہے؟
لیکن یہیں سے ان کا راستہ اس ’ویلنس‘ کمیونٹی کے بہت سے لوگوں سے بٹ گیا
ویرونیکا کہتی ہیں ”میرے خیال میں متعدی بیماریوں کا یہ سارا کا سارا نظریہ کہ یہ آپ سے دوسرے میں منتقل ہو سکتی ہیں، ایک مکمل افسانہ ہے، جو انسانیت پر کئی دہائیوں سے قائم و دائم ہے“
اس خیال سے متفق آن لائن لوگوں کے بڑھتے ہوئے گروپ کی طرح وہ بھی تمام سائنسی ثبوتوں کے باوجود اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ بیماری کا سبب بننے والے جراثیم کا کوئی وجود بھی ہے
جراثیم سے انکار کرنے والوں کے ذریعے استعمال ہونے والے الفاظ یا ’کی ورڈز‘ پر مشتمل سوشل میڈیا ڈیٹا کا تجزیہ بتاتا ہے کہ سنہ 2020 سے پہلے شاید ہی اس قسم کی بات چیت موجود بھی تھی اور کووڈ کی وبا کے ساتھ ہی اس میں اضافہ ہوا
لیکن بات بس وہیں تک نہیں رکی۔ یہ بڑھتی ہی چلی گئی اور سنہ 2023 میں متعلقہ ’کی ورڈز‘ کے سب سے زیادہ تذکرے ملے ہیں، جو کہ وبائی مرض کے عروج کے پچھلے تین سالوں میں سب سے زیادہ ہیں
جراثیم سے انکار کے لیے وقف گروپس کے فیسبک اور میسجنگ ایپ ٹیلیگرام پر دسیوں ہزار ممبران ہیں۔ کچھ اراکین کا خیال تو یہ ہے کہ وائرس کا سرے سے وجود ہی نہیں، لیکن دوسرے وہ ہیں، جو جراثیم کے وجود کو تو مانتے ہیں لیکن اس کے بیماری کا سبب بننے سے انکاری ہیں
بہت سے لوگ 1800 کی دہائی کے ایک باطل نظریے کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس طرح اُس وقت یہ نظریہ ثابت ہو رہا تھا کہ جراثیم بیماری کا سبب بنتے ہیں، اسی طرح ایک فرانسیسی سائنسدان اینٹوائن بیچیمپ نے ایک نظریہ پیش کیا، جسے ’ٹیرین تھیوری‘ (نظریہ قطعہ) کہا جاتا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ جراثیم بے ضرر ہیں، جو صرف ایک غیر صحتمند جسم کے اندر بیماری پیدا کرنے والی چیز میں تبدیل ہوتے ہیں
بیچیمپ کا نظریہ باطل ہو گیا کیونکہ جراثیم کے بیماری کی وجہ بننے کے بہت زیادہ شواہد سامنے آئے۔ اب بعض آن لائن گروپوں نے بیچیمپ کے نظریے کو اپنا لیا ہے
ایسا لگتا ہے کہ اس کا تعلق انیسویں صدی کے فرانسیسی سائنسدان کے نظریہ کے ساتھ اچانک وابستگی سے کم ہے، جبکہ مرکزی دھارے کی کسی بھی چیز کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا رجحان زیادہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی حکومت یا صحت کا ادارہ کچھ کہتا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ غلطی ہونی چاہیے
یہ حکومتوں سے سوال کرنے اور تمام دستیاب شواہد پر نظر ڈالنے کی طرح نہیں ہے
’ڈیبنک دی فنک‘ نامی یوٹیوب چینل کے مالیکیولر بائیولوجسٹ ڈاکٹر ڈین ولسن کہتے ہیں کہ یہ غیر سائنسی عقائد ’ویلنیس‘ کے وسیع تر خیال میں فٹ بیٹھتے ہیں
یہ خوراک، ورزش اور صحت کے دیگر طریقوں کے ذریعے جسمانی اور نفسیاتی تندرستی کے عمومی احساس کا حصول ہے۔ اس میں اکثر دواساز کمپنیوں کی ادویات کو مسترد کرنا شامل ہوتا ہے اور انہیں ’غیر فطری‘ طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس بابت سوشل میڈیا پر لاکھوں پوسٹیں شیئر ہو رہی ہیں
ڈاکٹر ولسن کا کہنا ہے کہ تندرستی، بیماری کی وضاحتوں کی حمایت کرتی ہے، جو افراد کو کنٹرول کا احساس دلاتی ہے۔ اس تحریک کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ آپ جو کھاتے ہیں بس اس میں تبدیلی کریں اور پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ نہ صرف تمام بیماریوں سے بچ سکتے ہیں بلکہ ممکنہ بہترین زندگی گزار سکتے ہیں
ڈاکٹر ولسن کے بقول ”اس کے لیے کسی کو جراثیم کے نظریہ سے انکار کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ صرف ایک خیال ہے کہ آپ ایک خاص طریقے سے سپلیمنٹس لے سکتے ہیں یا ایک مخصوص طرز زندگی اپنا سکتے ہیں اور پھر آپ کو بیماری کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے“
یقیناً، تمام بیماریاں جراثیم کی وجہ سے نہیں ہوتیں۔ بہت سی بیماریاں جینیات، طرزِ زندگی اور ہمارے ماحول کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں
لیکن ویرونیکا کا ماننا ہے کہ تمام بیماریاں ہمارے جسم میں داخل ہونے والی زہریلی چیز کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ چیزیں آلودگی، یا شاید برقی مقناطیسی فریکوئنسیز ہو سکتی ہیں
اور وہ اپنے مریضوں سے کہتی ہیں کہ ’آپ کی صحت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ آپ کے ڈاکٹر کے ہاتھ میں نہیں ہے۔‘
یہیں سے جراثیم سے انکار کے حقیقی نتائج ظاہر ہو سکتے ہیں۔
جراثیم کے بیماری نہ پھیلانے کے خیال کے حامی سب سے بڑے فیسبک گروپ پر یہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ ڈاکٹروں، دواؤں اور ویکسین سے کیسے بچیں
اس گروپ کے سنہ 2019 میں 150 ممبران تھے لیکن آج یہ بڑھ کر 30,000 سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
ڈاکٹر ولسن کا کہنا ہے کہ ’جراثیم کے انکار والے نظریے اور ویکسین کی مخالفت کے ہجوم میں یقینی طور پر بہت زیادہ اوورلیپ ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ جراثیم سے انکار کا دائرہ اینٹی ویکسین کے دائرے میں موجود ہے۔‘
انھوں نے دیکھا ہے کہ جو چیز کبھی کبھار دیکھی جاتی تھی، وہ تیزی سے ویکسین مخالف دلائل کی خصوصیت بنتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر ولسن کا کہنا ہے کہ ’میں انھیں زمین کے چپٹے ہونے کے نظریے کے ماننے والے کے طور پر دیکھتا ہوں فلیٹ ارتھرز کی طرح، ہم زمین کے گول ہونے کی تصاویر دکھا سکتے ہیں اور لوگ پھر بھی اس سے انکار کریں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ آج ’ہم کسی وائرس کو لے کر کسی جانور میں ڈال کر اسے بیمار کر سکتے ہیں۔ ہم انسانوں میں بھی وہی جینیاتی ترتیب تلاش کر سکتے ہیں اور آبادی میں اس کے پھیلاؤ کا پتہ لگا سکتے ہیں کیونکہ یہ ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ وائرس اور دیگر جراثیم کو خوردبین سے دیکھا جا سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’لیکن اتنے شواہد کے باوجود، جراثیمی نظریہ سے انکار کی مختلف شکلیں اپنا اثر رنگ دکھا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ خیال کہ ایچ آئی وی ایڈز کا سبب نہیں بنتا۔ میں اس بارے میں متفکر ہوں کہ کہیں یہ مرکزی دھارے میں شامل سازشی تھیوری کا حصہ نہ بن جائے۔‘
سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ویرونیکا کے آبائی ملک جنوبی افریقہ میں اس وقت کے صدر تھابو مبیکی نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ ایڈز کی بیماری ایچ آئی وی وائرس کی وجہ سے ہوئی تھی۔ وہ زندگی بچانے والی اینٹی ریٹرو وائرل ادویات فراہم کرنے سے بھی گریزاں تھے، جو وائرس کو جسم میں نقل تیار کرنے سے روکتی ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس موقف کی وجہ سے تین لاکھ سے زائد اموات ہوئیں، جو کہ روکی جا سکتی تھیں
جنوبی افریقہ میں ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج میں کام کرنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ آج کی صورتحال بیس سال پہلے سے ناقابل شناخت حد تک مختلف ہے اور یہ کہ ایڈز سے انکار ان کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے
لیکن کچھ گوشوں سے شک و شبے کی خاموش آواز بھی رابرٹو پریرا جیسے ایچ آئی وی کے محققین کے کانوں کو چبھنے کے لیے کافی ہے
وہ کہتے ہیں ”مجھے نہیں لگتا کہ یہ درست ہے۔۔ خاص طور پر ایسے میں، جب ایسی چیزوں سے اس ملک میں بہت زیادہ تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ اس پر واقعی میرا خون کھولتا ہے۔ آپ نہیں چاہیں گے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تاریخ خود کو بار بار دہراتی ہے۔“