خلائی سائنس کی حیرت انگیز دنیا: کیا ہوگا اگر ایک ’وارپ ڈرائیو‘ اسپیس شپ بلیک ہول میں داخل ہو جائے؟

ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل

وارپ ڈرائیو ایک نظریاتی تصور ہے جو سائنسی فکشن میں پایا جاتا ہے، خاص طور پر اسٹار ٹریک جیسی کہانیوں میں۔ اس تصور کے مطابق، وارپ ڈرائیو ایک ایسا انجن ہے جو روشنی کی رفتار سے بھی تیز رفتار پر سفر کرنے کے قابل ہوتا ہے۔

یہ تصوراتی ٹیکنالوجی اسپیس ٹائم (وقت و مکان) کو موڑنے یا "وارپ” کرنے کے اصول پر مبنی ہے، جس سے کسی خلائی جہاز کو دور دراز کہکشاؤں تک جلدی پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ سائنسی اصولوں کے خلاف نہیں بلکہ نظریاتی سطح پر ممکن ہے، مگر حقیقت میں ابھی تک ہم اس ٹیکنالوجی کو عملی طور پر نہیں بنا سکے ہیں۔

وارپ ڈرائیو کا اصل مقصد خلا کے طویل فاصلے تیزی سے طے کرنا ہے، جس سے کائنات کی وسعت میں نئی دنیاوں کی تلاش آسان ہو سکتی ہے۔

’وارپ ڈرائیو‘ کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے، حالانکہ یہ سائنس فکشن میں بہت عام ہے۔

رائٹر جان کیمبل نے سب سے پہلے اس تصور کو اپنے سائنس فکشن ناول ’آئی لینڈز آف اسپیس‘ میں متعارف کرایا۔ آج کل، خاص طور پر ’اسٹار ٹریک‘ کی وجہ سے، یہ اصطلاح بہت ہی مانوس ہو چکی ہے۔

یہ ہائپر اسپیس Hyperspace کے ذریعے اعلیٰ ترین superliminal سفر کے لیے تقریباً ایک عام حوالہ ہے۔ وارپ ڈرائیو کبھی وجود میں آئے گی یا نہیں، یہ فزکس ایک کا مسئلہ ہے، جسے محققین ابھی تک حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن فی الحال، یہ صرف ایک نظریہ ہے۔

لیکن آخر یہ نظریہ یا تصور ہے کیا۔۔ آئیے اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں

کیا سائنسدان لیب میں ایک مائیکرو یا منی وارپ ڈرائیو بنا سکتے ہیں؟ یہ ایک اچھے سوال ہے۔۔ ٹیم کے کام کو سمجھنے کے لیے، آئیے اس تحقیق میں اہم کرداروں پر نظر ڈالتے ہیں: وارپ ڈرائیوز اور بلیک ہولز۔

یہ تصور اس حقیقت سے متاثر ہے کہ روشنی کی رفتار سے تیز کوئی چیز نہیں جا سکتی۔ خلاء میں فاصلے کو دیکھتے ہوئے، اگر ہم روشنی کی رفتار پر جا سکیں تو قریبی ستارے تک پہنچنے میں برسوں لگیں گے۔ کسی کہکشاں کے پار یا مزید دور کی کہکشاؤں تک پہنچنے میں تو سالوں اور کئی نسلوں کی ضرورت ہوگی۔ لہٰذا، اگر آپ خلائی سفر کرنے والی نوع بننا چاہتے ہیں تو آپ کو روشنی سے تیز سفر کرنا ہوگا۔۔ FTL یعنی "Faster Than Light” یا روشنی سے بھی تیز رفتار!

لیکن یہ ہوگا کیسے؟ یہاں ’وارپ ڈرائیوز‘ کا تصور شروع ہوتا ہے۔ نظریاتی طور پر، یہ آپ کو اپنے اسپیس شپ کو ایک بلبلے میں ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں جو کہ خلاء میں روشنی سے بھی تیز FTL رفتار پر جا سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ’اسٹار ٹریک‘ (اور دیگر سائنس فکشن کہانیوں) کے اسٹار شپس Starships بہت تیزی سے وسیع فاصلے طے کر لیتے ہیں۔ ’اسٹار ٹریک‘ کے شپس ایک ’وارپ کور‘ میں ایک توانائی کے ذریعے وارپ فیلڈ جنریٹرز کو طاقت دیتے ہیں۔ وہ سب اسپیس subspace میں وارپ بلبلہ بناتے ہیں۔ spaceship کا عملہ اسے جہاں جانا ہو، وہاں لے جا سکتا ہے۔

حال ہی میں، دو محققین نے یہ دیکھا کہ اگر ایک اسپیس شپ ’وارپ ڈرائیو‘ کے ساتھ بلیک ہول میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو کیا ہوگا۔۔ نتیجہ ایک دلچسپ فکری تجربہ ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اسٹارشپ سائز کے ’وارپ ڈرائیو‘ کا سبب نہ بنے، لیکن یہ سائنسدانوں کو مستقبل میں چھوٹے پیمانے کے ’وارپ ڈرائیوز‘ بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔

ریمو گاراتینی اور کیریل زاتریمیلوف نے نظریہ پیش کیا کہ اس طرح کی ڈرائیو ایک Schwarzschild بلیک ہول کے اندر زندہ رہ سکتی ہے، بشرطیکہ اسپیس شپ ایونٹ ہورائزن کو روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر عبور کرے۔

نظریاتی طور پر، بلیک ہول کا کششی میدان ڈرائیو کو چلانے کے لیے درکار منفی توانائی کی مقدار کو کم کر دے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اسپیس شپ اس میں سے گزر سکتا ہے اور کسی طرح اسے استعمال کر کے کہیں اور جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ کچلا جائے۔

مزید برآں، اس خیال کے پیچھے ریاضی، لیب کی ترتیبات میں چھوٹے ’وارپ ڈرائیوز‘ کے ممکنہ تخلیق کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا طبیعیات دان وارپ ڈرائیوز کو پسند کرتے ہیں؟

مذکورہ بالا ’وارپ ڈرائیو‘ ایک انتہائی پُرکشش خیال ہے، جس کے ساتھ بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ مثلاً، ایک وارپ فیلڈ پیدا کرنے کے لیے ناقابل یقین مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے۔ کچھ طبیعیات دانوں کا کہنا ہے کہ اس کے لیے اس سے زیادہ توانائی درکار ہو گی، جتنا ہم پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ اس توانائی کو پیدا کرنے کے لیے بہت زیادہ exotic matter (فرضی قسم کے مادے) کی ضرورت ہو گی — کچھ ایسا جو ’unobtanium‘ کی طرح ہو۔ تو یہیں ایک مسئلہ ہے۔ (unobtanium ایک خیالی مادہ ہے، جو عموماً سائنس فکشن اور فینٹسی میں استعمال ہوتا ہے)

دوسروں کا کہنا ہے کہ ایسی ڈرائیو بنانا ہماری موجودہ اسپیس ٹائم فزکس کے فہم کے خلاف ہے۔ تاہم، اس نے کسی کو اسے ممکن بنانے کے طریقوں پر قیاس آرائی کرنے سے نہیں روکا۔

مثال کے طور پر، میکسیکن طبیعیات دان میگوئل الکیبیئر نے 1994 میں ایسی ڈرائیو کے لیے ایک خیال پیش کیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ یہ ایک بلبلہ بنا سکتا ہے جو کسی شے کے گرد خلاء کو منتقل کرے گا۔ وہ ایک ایسی اسپیس شپ کے بارے میں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں، جو روشنی کی رفتار سے تیز جا سکے۔

تاہم، وہ اور دیگر ابھی تک ’وارپ ڈرائیو‘ بنانے اور اسے برقرار رکھنے کے مختلف مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسی ڈرائیو خود کو باقی کائنات سے مؤثر طریقے سے الگ کر دیتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسپیس شپ اس ڈرائیو کو کنٹرول نہیں کر سکتی جو اسے چلانے کے قابل بناتی ہے۔ لہٰذا، ابھی بھی کئی مسائل حل کرنا باقی ہیں۔

 بلیک ہولز کے بارے میں

ہم ستاروں کے ماس والے بلیک ہولز اور انتہائی بڑے بلیک ہولز سے زیادہ واقف ہیں۔ ان کے اردگرد ایکریشن ڈسک ہوتی ہے جو مادہ کو بلیک ہول میں کھینچتی ہے۔

مثال کے طور پر، ہماری اپنی ملکی وے کہکشاں کے مرکز میں موجود انتہائی بڑا بلیک ہول جسے سیجیٹیریئس A* کہا جاتا ہے، وقفے وقفے سے مادہ نگلتا ہے۔ اس کے بعد یہ ریڈی ایشن کا ایک دھماکہ خارج کرتا ہے۔ دوسری زیادہ سرگرم کہکشائیں اپنے مرکزی بلیک ہول کے مسلسل کھانے کے دوران مادہ کے جیٹس خارج کرتی ہیں۔

بلیک ہول ایک ایسا ماس ہے جس کی کشش ثقل اتنی مضبوط ہے کہ کچھ بھی، حتیٰ کہ روشنی بھی اس سے بچ نہیں سکتی۔ اپنی تحقیق میں بلیک ہولز اور وارپ ڈرائیوز کے بارے میں، مصنفین نے شوارتزشیلڈ بلیک ہولز کا استعمال کیا۔

یہ سادہ ’جامد‘ بلیک ہولز اسپیس ٹائم کو خمیدہ کرتے ہیں، ان میں کوئی برقی چارج نہیں ہوتا اور یہ گھومتے نہیں ہیں۔ بنیادی طور پر، یہ خلا میں آہستہ گھومنے والی اشیاء کی خصوصیات کی ریاضیاتی جانچ کے لیے ایک اچھا اندازہ ہیں۔

جب ایک وارپ ڈرائیو کے ساتھ جہاز بلیک ہول میں داخل ہوتا ہے

شوارتزشیلڈ بلیک ہول وارپ ڈرائیو کے ایونٹ ہورائزن کو عبور کرنے کے اس نظریاتی مطالعے میں استعمال کرنے کے لیے ’کامل‘ بلیک ہول ہے۔ اس منظر کو سمجھنے کے لیے، گراٹینی اور زاتریمالوف نے بلیک ہول کو بیان کرنے والے مساوات اور وارپ ڈرائیو کو بیان کرنے والے مساوات کو ریاضیاتی طور پر ملا دیا۔

انہوں نے پایا کہ وارپ ڈرائیو کو بلیک ہول کے بیرونی علاقے میں ’ضم‘ کرنا ممکن ہے۔ وارپ ببل خود بلیک ہول سے کہیں چھوٹا ہے اور اسے اس کی طرف بڑھنا ہوتا ہے۔ بلیک ہول کی کشش ثقل وارپ ڈرائیو کو پیدا کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے درکار توانائی کی حالتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ آپ نظریاتی طور پر وارپ ببل کو برقرار رکھنے کے لیے درکار منفی توانائی کی مقدار کو کم کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ محققین نے مشورہ دیا کہ اگر وارپ ببل روشنی کی رفتار سے کم رفتار پر حرکت کر رہا ہو، تو یہ بلیک ہول کے ہورائزن کو مؤثر طریقے سے مٹا دیتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے یہ خیال بھی بیان کیا کہ ایسا واقعہ ایک برقی میدان میں ورچوئل ذرات کو حقیقی ذرات میں تبدیل کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا، تو یہ لیبارٹری میں ’منی وارپ ڈرائیوز‘ کے بننے کا باعث بن سکتا ہے۔

بلیک ہول میں معمولی تبدیلی

دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹیم نے یہ بھی تجویز دی کہ اگر وارپ ببل آہستہ آہستہ حرکت کر رہا ہو اور بلیک ہول کے افق سے بہت چھوٹا ہو، تو یہ بلیک ہول کے انٹرپی کو بڑھا سکتا ہے۔ تاہم، جیسا کہ انہوں نے اپنے اختتامی دلائل میں کہا ہے، ”دیگر جسمانی حالات میں ممکنہ مسائل ہو سکتے ہیں: یعنی جب وارپ ڈرائیو مکمل طور پر بلیک ہول میں جذب ہو جاتا ہے، تو یہ اس کے ماس کو کم کر سکتا ہے، اور نتیجتاً اس کی انٹرپی کو بھی۔“

اسی طرح، جب ایک بڑا وارپ ببل بلیک ہول سے گزرتا ہے، تو یہ ایک ’اسکریننگ‘ اثر پیدا کر سکتا ہے اور بلیک ہول کے افق کو ختم کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے ہاکنگ کے معنوں میں بلیک ہول انٹرپی کی تعریف کرنا ناممکن ہو جائے گا۔

اگر وارپ ڈرائیوز قدرت میں ممکن ہیں، تو یہ مسائل ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ابھی تک انہیں تھرموڈائنامکس کے نقطہ نظر سے نہیں سمجھ پائے ہیں۔

وارپ ڈرائیو ٹیکنالوجی ابھی دیکھنا باقی ہے

لہٰذا، جب کہ یہ تحقیق نظریاتی طور پر قیمتی ثابت ہو سکتی ہے، اور لیبارٹری میں منی بلیک ہولز کی پیداوار کا باعث بن سکتی ہے، لیکن بہت سے سوالات ابھی باقی ہیں۔

شاید مستقبل میں، جب ہم ان دونوں اجسام کے پیچھے کوانٹم میکینکس کو سمجھ جائیں، تو ہم وارپ ٹیکنالوجی کو باآسانی حاصل کر سکیں۔ اگر ایسا ہوا، تو جب جہاز بلیک ہولز سے گزریں گے، تو ہمیں ایک عجیب وقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر، بلیک ہول کے اندر سے سگنل وارپ ببل کے ذریعے جو سنگولیریٹی سے نکل رہا ہو، باہر منتقل ہو سکتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ موقع مل سکتا ہے کہ ہم ایونٹ ہورائزن کے اندر کی تصاویر یا ریکارڈنگ بھیج سکیں— وہ کچھ جو آج تک کسی کے علم میں نہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خوفناک بلیک ہولز وارپ ڈرائیو کے حصول کو کم مشکل بنا سکتے ہیں، کیونکہ انہیں اتنے زیادہ عجیب "منفی توانائی” کے منبع مواد کی ضرورت نہیں ہوگی۔

(اس فیچر کی تیاری میں ’یونیورس ٹوڈے‘ اور ’سائنس الرٹ‘ میں شائع مضامین سے سے مدد لی گئی ہے۔ ترجمہ، ترتیب و اضافہ: امر گل)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close