آئن اسٹائن کے معروف نظریہ ’عمومی اضافیت‘ general relativity کو اب ایک نئی تحقیق نے سوالات کی زد میں لے لیا ہے۔ اس تحقیق میں تاریک توانائی کے سروے کے ڈیٹا اور مستقبل میں آنے والے یوکلڈ اسپیس ٹیلی اسکوپ کے نتائج سے کائنات کے بڑے پیمانے پر کشش ثقل کا تجزیہ کیا گیا ہے، جو کہ ہماری موجودہ فزکس کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی دعوت دیتا ہے۔
1998 میں سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کائنات کی وسعت تیز رفتاری سے ہو رہی ہے۔ اس دریافت نے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا اور یہ سوال اٹھایا کہ کائنات کے پھیلاؤ میں یہ تیزی کیوں آ رہی ہے۔ عام نظریات کے مطابق، اس پھیلاؤ کی وجہ ’کائناتی مستقل‘ cosmological constant ہے، یعنی ایک ایسی قوت جو کائنات کو پھیلانے میں مدد دیتی ہے۔ کچھ سائنسدان اس تیزی کی وجہ کو ’ڈارک انرجی‘ یعنی تاریک توانائی مانتے ہیں، جبکہ کچھ کے خیال میں آئن اسٹائن کے نظریہ میں رد و بدل کرنی ہوگی۔ ان امکانات کو جانچنے کے لیے، محققین بڑے پیمانے پر ساختی سروے structure surveys کا سہارا لیتے ہیں جو کائنات میں مادے اور کہکشاؤں کی تقسیم کو نقشہ بند کرتے ہیں۔
اب تک فزکس میں ΛCDM ماڈل استعمال ہوتا رہا ہے، جسے کائنات کی ساخت اور اس کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ مگر حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں کچھ خامیاں بھی موجود ہیں، اور اس کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، سائنسدان دو نئے طریقے اپنا رہے ہیں، جن کی مدد سے یہ دیکھا جا سکے کہ آیا یہ ماڈل کائنات کی وضاحت میں کامیاب ہے یا نہیں۔
پہلا طریقہ ’ہورنڈیسکی تھیوری‘ ہے جو کچھ پیچیدہ فارمولے استعمال کرتے ہوئے کائنات میں کشش ثقل کی مختلف حالتوں کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ نظریہ مشاہدات اور نظریات کو جوڑنے میں تو کامیاب ہے، مگر اس کی پیچیدگی کے سبب یہ فی الحال محدود ثابت ہو رہا ہے۔ دوسرا طریقہ براہِ راست اور ’مظاہر پر مبنی‘ ہے، جس میں آئن اسٹائن کے کششِ ثقل کے فارمولے کو دو خاص پیرامیٹرز، μ اور η، میں تبدیل کیا جاتا ہے اور کشش ثقل میں تبدیلی اور میٹرک کی بگاڑ کی وضاحت کی جاتی ہے۔
آئن سٹائن کا نظریہ عمومی اضافیت ہماری کشش ثقل کے بارے میں سمجھ بوجھ میں انقلابی تبدیلی لایا اور اس نے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دی کہ کششِ ثقل کائنات کو ایک لچکدار ڈھانچے کی طرح بناتی ہے، جس پر بڑے اجسام کی موجودگی سے خم آتا ہے۔ اس نظریہ کو 1919 کے سورج گرہن نے ثابت کیا، جس میں کشش ثقل کے ذریعے روشنی کا جھکاؤ دکھایا گیا، جسے کشش ثقل کی لینزنگ کہا جاتا ہے۔ جب سائنسدان دیکھتے ہیں کہ روشنی کس طرح آسمانی اجسام کے گرد جھکتی ہے تو انہیں کائنات کے ڈھانچے اور اس کی وسعت کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
لیکن کیا آئن اسٹائن کا یہ نظریہ کائنات کے وسیع ترین پیمانوں پر بھی درست ہے؟ جنیوا یونیورسٹی (UNIGE) اور ٹولوز III – پال سابیٹیر کے محققین نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ DES کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے، انہوں نے وقت اور جگہ کی بگاڑ کا تجزیہ کیا اور اپنے نتائج کا آئن اسٹائن کی پیش گوئیوں کے ساتھ موازنہ کیا۔
جنیوا یونیورسٹی میں معاون پروفیسر کیمل بونون اس طریقہ کی انفرادیت کو بیان کرتے ہیں: ”اب تک، تاریک توانائی کے سروے کے ڈیٹا کو کائنات میں مادے کی تقسیم کی پیمائش کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اپنی تحقیق میں، ہم نے اس ڈیٹا کو براہ راست وقت اور جگہ Time And Space کی بگاڑ کی پیمائش کے لیے استعمال کیا، جس سے ہم نے اپنے نتائج کو آئن سٹائن کی پیش گوئیوں کے ساتھ موازنہ کیا۔“
ڈی ایک ایس DES نے 100 ملین کہکشاؤں کے بارے میں ڈیٹا فراہم کیا جو چار مختلف وقتوں کے م ادوار سے تعلق رکھتی ہیں: ساڑھے تین، پانچ، چھ اور سات ارب سال۔ ان پیمائشوں سے معلوم ہوا کہ کشش ثقل کے کنویں – وہ علاقے جہاں کشش ثقل خلا کو بگاڑ دیتی ہے – کیسے بدلے ہیں۔
تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ 6 اور 7 ارب سال پہلے کائنات میں کششِ ثقل کے گہرے کنویں آئن اسٹائن کے نظریہ کے مطابق ہی تھے، مگر وقت کے ساتھ یہ کنویں زیادہ گہرے نہیں رہے۔ آج کے قریب تر، 3.5 اور 5 ارب سال پہلے، یہ آئن اسٹائن کی پیش گوئیوں سے کچھ کم گہرے تھے۔“
یہ فرق اس دور کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جب کائنات کی وسعت میں تیزی آئی۔ ڈیٹا نے دونوں واقعات کے درمیان ممکنہ تعلق کی طرف اشارہ کیا ہے، جو بتاتا ہے کہ ممکنہ طور پر کائنات کے بڑے پیمانوں پر کشش ثقل مختلف انداز میں کام کر سکتی ہے۔ ٹوٹوساؤس نے کہا، ”کشش ثقل کے کنوؤں کی سست رفتار سے بڑھوتری اور وسعت میں تیزی کا شاید ایک ہی بنیادی سبب ہو سکتا ہے۔“
تحقیق میں آئن اسٹائن کی پیش گوئیوں اور مشاہدہ شدہ ڈیٹا کے درمیان 3-سگما کی سطح پر اختلاف پایا گیا ہے، جو کہ اہم تو ہے مگر اس نظریہ کو مکمل طور پر غلط قرار دینے کے لیے یہ سطح کافی نہیں ہے۔ تحقیق کی شریک مصنفہ ناسٹاسیا گرِم کا کہنا ہے ”یہ عدم مطابقت ہمیں مزید تحقیق کی دعوت دیتی ہے، مگر یہ ابھی اس حد تک نہیں پہنچی کہ آئن اسٹائن کے نظریہ کو باطل قرار دیا جا سکے۔“
تحقیق کرنے والی ٹیم آئندہ آنے والے یوکلڈ اسپیس ٹیلی اسکوپ کی مدد سے مزید واضح نتائج حاصل کرنے کی امید رکھتی ہے۔ یوکلڈ ٹیلی اسکوپ 1.5 ارب کہکشاؤں کا مشاہدہ کرے گی، جس سے سائنسدانوں کو کشش ثقل کی مزید تفصیلات ملیں گی اور انہیں آئن اسٹائن کے نظریہ کو مزید جانچنے کا موقع ملے گا۔
جیسے جیسے کائنات کے اسرار میں مزید گہرائی پیدا ہو رہی ہے، قائم شدہ نظریات کی حدود کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ UNIGE اور ٹولوز ٹیموں کا کام اس سفر میں ایک اہم قدم کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ تحقیق کائنات کے رازوں کو سمجھنے کی طرف ایک اور قدم ہے۔ جیسے جیسے کائنات کی مزید تفصیلات ہمارے سامنے آ رہی ہیں، یہ آخرکار ہمارے کائنات کے تصور کو تبدیل کر سکتی ہیں، اور ہمیں سائنس کے سب سے بڑے معمے کو حل کرنے کے قریب لے جا سکتی ہیں۔
نوٹ: اس فیچر کی تیاری میں ’دی برائٹر سائیڈ آف نیوز‘ میں شائع ایک آرٹیکل سے مدد لی گئی۔