کہکشاں ’مِلکی وے‘ کو یہ نام کیسے ملا؟ دلچسپ کہانی

اگر آپ زمین کے تاریک ترین علاقوں سے کسی صاف رات آسمان کی طرف دیکھیں، تو شاید آپ کو آسمان میں دھول اور گیس کے بادلوں میں لپٹی ہوئی ایک چوڑی پٹی دکھائی دے جو تاروں سے بھری ہوئی ہے اور افق پر قوس بناتی ہے۔

جو منظر آپ دیکھ رہے ہیں، وہ ہماری کہکشاں ’ملکی وے‘ کا ایک حصہ ہے۔ یہ کہکشاں 1 لاکھ نوری سال کے قطر پر محیط ہے۔ (ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، یعنی تقریباً 6 کھرب میل یا 9.5 کھرب کلومیٹر۔) اس کہکشاں کے مرکز میں ایک عظیم الجثہ بلیک ہول ہے، جو ایک ایسا زبردست ثقلی میدان ہے کہ روشنی تک اس سے بچ نہیں سکتی۔ اس کے مرکزی حصے سے نکلنے والی متعدد بازوؤں میں سیکڑوں اربوں ستارے موجود ہیں، جن میں ایک ہمارا سورج بھی شامل ہے۔

ملکی وے کی عمر تقریباً 13.2 ارب سال بتائی جاتی ہے، اور یہ معلوم شدہ کائنات میں موجود اربوں کہکشاؤں میں سے ایک ہے۔ دیگر کہکشائیں زیادہ قدیم اور بڑی ہو سکتی ہیں، لیکن زمین کے ’کائناتی پتہ‘ cosmic address ہونے کی حیثیت سے، ملکی وے ہمیشہ سے انسانوں کے لیے دلچسپی کا باعث رہی ہے۔ ماہرین فلکیات نے اسے ہزاروں سال پہلے پہچانا تھا، اور قدیم تہذیبوں نے اسے اپنی کہانیوں اور اساطیر کا حصہ بنایا۔

رات کے آسمان پر چمکتی ہوئی ستاروں کی پٹی میں ایک دلکش کریمی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے کئی چاکلیٹ بارز کے نام آسمانی اشیاء پر رکھے گئے ہیں (مثلاً مارس، گلیکسی اور ملکی وے)، لیکن ہماری گھومتی ہوئی کہکشاں کا نام کب اور کیسے پڑا، اس کی کہانی کا چاکلیٹ سے کوئی تعلق نہیں۔

رومی شاعر اوویڈ نے آٹھ عیسوی میں شائع ہونے والی اپنی تصنیف ’دی میٹامورفوسیز‘ میں مِلکی وے کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ”آسمان صاف ہو تو ایک بلند راستہ نظر آتا ہے، جسے مِلکی وے کہا جاتا ہے اور یہ اپنی چمک کے لیے پہچانا جاتا ہے۔“

نیویارک یونیورسٹی کے گلاٹن اسکول آف انڈویژولائزڈ اسٹڈی کے تاریخِ سائنس کے پروفیسر میتھیو اسٹینلے کے مطابق، ملکی وے کا سب سے قدیم ذکر قدیم یونانیوں (800 قبل مسیح سے 500 قبل مسیح) کے زمانے میں ملتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ نام کب پہلی بار استعمال ہوا۔

وہ بتاتے ہیں ”یہ اصطلاح مغربی فلکیات میں 2500 سال پہلے عام استعمال میں تھی، اس لیے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ سب سے پہلے کس نے اسے ایجاد کیا اور یہ کیسے وجود میں آئی۔ یہ ان اصطلاحات میں سے ایک ہے جن کی ابتدا وقت کے ساتھ بھلا دی گئی ہے۔“

قدیم یونانیوں کے مطابق ملکی وے کی ابتدا کی کہانی کو نشاۃِ ثانیہ کے آرٹسٹ جاکوپو ٹنٹوریٹو نے 1575 کے قریب بنائی گئی پینٹنگ ’دی اوریجن آف دی ملکی وے‘ میں تصویر کیا۔ نیشنل گیلری کے مطابق، ٹنٹوریٹو نے غالباً 10ویں صدی کی لوک داستانی کتاب ’جیپونیکا‘ میں موجود کہانی کے ایک ورژن کو اپنی پینٹنگ کی بنیاد بنایا۔ اس کہانی میں ایک حیرت انگیز دیومالائی واقعہ شامل ہے، جو کسی اور کا نہیں بلکہ دیوی ’ہیرا‘ Hera کا ہے۔

دیوی ہیرا (Hera)، یونانی اساطیر کے مطابق دیوتا زیوس (Zeus) کی بیوی بھی تھی اور بہن بھی۔۔ یہ اساطیری رشتہ یونانی کہانیوں میں عام تھا۔ زیوس اور ہیرا دونوں ٹائٹن دیوی اور دیوتا کرونس (Cronus) اور ریا (Rhea) کے بچے تھے، اس لیے یہ بہن بھائی تھے۔ بعد میں زیوس نے ہیرا سے شادی کی، اور وہ اولمپس کی دیویوں کی ملکہ بن گئیں۔ جبکہ ’زیوس‘ Zeus کی بیوی (یا شاید بہن) تھی۔ جبکہ زیوس (Zeus) قدیم یونانی دیوتاؤں کے پینتھیون (Olympian pantheon) کا سربراہ تھا۔

دیومالائی کہانی کے مطابق، ہیرا زیوس کے نیم انسان بیٹے ’ہرکولیس‘ Heracles کو دودھ پلا رہی تھی کہ اچانک اس نے اپنے سینے کو کھینچ لیا، جس سے اس کا دودھ چھلک کر رات کے آسمان پر سفید لکیر کی صورت میں پھیل گیا۔ اسی واقعے سے متاثر ہو کر یونانیوں نے لفظ ’گلیکسیاس‘ Galaxias ایجاد کیا، جس کی جڑ ’گالا‘ Gala ہے، جس کا مطلب دودھ ہے۔

بعد میں، رومیوں نے اسے ’ویا گلیکٹیکا‘ Via Galactica میں ڈھالا، جس کا مطلب ہے ’ملکی وے‘۔ جدید انگریزی لفظ ’لیکٹک‘ Lactic ، جو دودھ سے متعلق کسی بھی چیز کو ظاہر کرتا ہے، بھی ’گلیکٹک‘ Galactic سے نکلا ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ دودھ کی یہ سفیدی دراصل آسمانی ماخذ رکھتی ہے۔

پروفیسر میتھیو اسٹینلے کے مطابق: ملکی وے نے فلکیاتی اصطلاح ’گلیکسی‘ کے لیے یونانی بنیاد فراہم کی۔ ’گیلیکٹوس‘ کا مطلب ہے ‘آسمان میں دودھ جیسی چیز‘

لیکن ظاہر ہے، ہر تہذیب ایک ہی دیومالائی کہانی کو نہیں مانتی، اور جب سے انسانوں نے رات کے آسمان کو دیکھنا شروع کیا ہے، ہماری کہکشاں کو مختلف نام دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، قدیم مصریوں نے ملکی وے کو ایک دیوی ’نُت‘ Nut کے طور پر تصور کیا، جو زمین کو پانی کی گہرائیوں سے بچاتی ہے۔

دوسری طرف، لاکوٹا قوم میں ملکی وے کو ’واناگی تھاچانکو‘ Wanáǧi Thacháŋku کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے ’روحوں کا راستہ‘ ، جبکہ کچھ بالٹک ثقافتوں میں اسے ’پرندوں کا راستہ‘ کہا جاتا ہے، کیونکہ سال کے کچھ اوقات میں کہکشاں کی شمالی-جنوبی سمت ہجرت کرنے والے پرندوں کے راستے سے مشابہت رکھتی ہے۔

کیچوا زبان میں کہکشاں کو ایک مقدس دریا ’مایو‘ کے طور پر تصور کیا گیا ہے، جبکہ چینی زبان میں اسے ’چاندی کا دریا‘ کہا جاتا ہے۔

یہ تو تھی اساطیری کہانیوں کی باتیں۔۔ اب سائنس کے حوالے سے بات کریں تو ابتدائی ماہرینِ فلکیات ملکی وے کو دیکھنے کے باوجود اسے سمجھ نہیں سکے۔ 17ویں صدی کے آغاز میں دوربین کی ایجاد سے پہلے، کہکشاؤں کو نیبولا (گرد و غبار کے دھندلے علاقے) سمجھا جاتا تھا، جو دیگر نظر آنے والی اشیاء، جیسے ستارے اور سیارے، کی طرح برتاؤ نہیں کرتے تھے۔

پروفیسر میتھیو اسٹینلے کے مطابق: ”انہیں ایسے عجائبات کے طور پر قبول کیا گیا جنہیں دیکھنے کے دوران نظر انداز کرنا بہتر تھا، لیکن ان پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔“

یہ سب اس وقت بدل گیا جب اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے 1609 میں اپنی دوربین آسمان کی طرف موڑ کر دیکھا، اور دریافت کیا کہ کچھ پراسرار کائناتی دھول کے بادل اصل میں قریبی ستاروں کے جھرمٹ پر مشتمل تھے۔

پروفیسر میتھیو اسٹینلے کہتے ہیں ”یہ وہ لمحہ تھا جب یہ ادراک ہوا کہ نیبولا (دھندلے بادل) کچھ دلچسپ ہیں، کہ یہ اپنی ذاتی ساخت رکھتے ہیں جن کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے ان کو مخصوص نام دینا شروع کیے کیونکہ وہ ان میں اشکال کو پہچاننے لگے اور یہ جان لیا کہ ان کی کائناتی اہمیت ہو سکتی ہے۔“

تاہم، زیادہ تر کہکشاؤں کو وضاحتی نام نہیں ملتے کیونکہ ان کی تعداد بے حد زیادہ ہے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، سائنسدان کائنات کی ابتدا سے تعلق رکھنے والی انتہائی مدھم اشیاء کو دریافت کرنے کی صلاحیت بڑھا رہے ہیں، اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ کہکشاؤں کی مجموعی تعداد 200 ارب تک ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر کہکشائیں، جب ماہرینِ فلکیات ان کی جگہوں کا تعین کرتے ہیں، تو انہیں سیاروی اشیاء کے کیٹلاگ میں ان کی پوزیشن کے مطابق کسی حرف یا حروف کے بعد ایک نمبر کے ذریعے شناخت کیا جاتا ہے۔

اتنی زیادہ کہکشاؤں کی دریافت کے ساتھ، ماہرین فلکیات نے سیکھا ہے کہ ملکی وے، ہماری کہکشاں ہونے کے باوجود، خاص نہیں ہے۔ اسٹینلے کے مطابق، ”بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ہماری کہکشاں مکمل طور پر معمولی ہے۔“

یہ معمولی ہو سکتی ہے، لیکن ملکی وے کا منظر، چاہے زمین سے جزوی نظارہ ہو یا خلا سے، اب بھی حیران کن ہے۔۔ اور لوگوں کو کائنات میں اپنی جگہ سمجھنے اور سراہنے میں مدد دے سکتا ہے۔ یہ ان ابتدائی ماہرینِ فلکیات کے جذبات کو دوبارہ جگانے میں مددگار ہو سکتا ہے جو ہزاروں سال پہلے آسمان کی طرف دیکھتے تھے۔

اسٹینلے کا کہنا ہے، ”جس نے بھی ملکی وے کا نام رکھا، وہ اندھیرے میں کھڑے ہو کر رات در رات ہماری کہکشاں کو دیکھتا رہا اور کائنات کے ساتھ ایک ہونے کے احساس کو نام دینے کی کوشش کرتا رہا۔“

وہ کہتے ہیں، ”کسی پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر اپنی کہکشاں کی وسعت کو اپنے ارد گرد لپٹے ہوئے دیکھنے میں ایک غیرمعمولی اور عظیم الشان احساس ہے۔“

اور یوں، ملکی وے کا نام صدیوں کے اساطیری قصوں، ثقافتی تشبیہوں، اور سائنسی دریافتوں کے امتزاج سے وجود میں آیا۔ یہ نام نہ صرف ہماری کہکشاں کی خوبصورتی کا مظہر ہے، بلکہ انسانوں کی وہ فطری جستجو بھی ظاہر کرتا ہے جو کائنات کے رازوں کو سمجھنے کے لیے ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ جب آپ رات کے پرسکون آسمان پر اس کہکشاں کی دھندلی قوس کو دیکھتے ہیں، تو یہ صرف ستاروں کا جھرمٹ نہیں ہوتا، بلکہ ان کہانیوں، سوالات، اور حیرت کا مجموعہ ہوتا ہے، جنہوں نے نسل در نسل انسانوں کو آسمان کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔ اس پٹی کی ہر روشنی کائنات کے ایک نئے راز کی علامت ہے، اور شاید یہ یاد دہانی بھی کہ ہم سب کسی نہ کسی طرح اس عظیم الشان کہکشاں کے مسافر ہیں۔

امر گل

ماخذ: لائیو سائنس اور آئی ایف ایل سائنس

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close