خلا کے پتھر زمین سے آنکھ مچولی کھیلنے لگے، 2032 میں سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کا امکان دوگنا بڑھ گیا!

ویب ڈیسک

خلائی وسعتوں میں بھٹکتی چٹانوں کی کہانیاں ہمیشہ سے انسانی تخیل کو مہمیز دیتی رہی ہیں، لیکن جب کوئی سیارچہ زمین کے قریب آنے لگے، تو سائنسی برادری کے ساتھ عام لوگ بھی سانسیں تھام لیتے ہیں۔

22 دسمبر 2032 کو زمین کے قریب سے گزرنے والا ایک سیارچہ، جو گذشتہ سال دریافت ہوا اور اسے ’2024 وائی آر‘ کا نام دیا گیا ہے، اب مزید توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق اس کے زمین سے ٹکرانے کا امکان صرف 1 فیصد تھا، لیکن اب یہ بڑھ کر 2.3 فیصد ہو چکا ہے—یعنی 43 میں سے 1 امکان کہ یہ چٹان زمین سے ٹکرا جائے!

یہ کوئی عام پتھر نہیں، بلکہ 90 میٹر چوڑی خلائی چٹان ہے، جو اگر زمین سے ٹکرا جائے تو ممکنہ طور پر شدید تباہی مچا سکتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ہمیں پریشان ہونا چاہیے؟

 خطرے کی گھنٹی یا ایک اور جھوٹا الارم؟

ناسا کے سینٹر فار نیئر ارتھ آبجیکٹ اسٹڈیز (CNEOS) نے اس خطرے کا ازسرِنو جائزہ لیا ہے۔ ماضی میں بھی کئی سیارچے خطرے کی فہرست میں شامل ہوئے، مگر جیسے ہی مزید ڈیٹا ملا، وہ فہرست سے خارج کر دیے گئے۔ ایسا ہی کچھ 2024 وائی آر کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

سیارچہ 2024 وائی آر پہلی بار گذشتہ سال 27 دسمبرکو دیکھا گیا۔ چند دن بعد وہ دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا جب اسے ناسا کی زمین کے قریب موجود اور ممکنہ طور پر خطرناک سیارچوں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔

ناسا کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے سیارچے کے مدار کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوں گی، خطرے کی شدت کم ہونے کی توقع ہے۔

اس وقت اس سیارچے کو ٹورینو امپیکٹ ہیزرڈ سکیل پر درجہ 3 دیا گیا ہے۔ یہ اسکیل صفر سے 10 تک خطرے کی شدت ناپتی ہے، جہاں صفر کا مطلب بالکل کوئی خطرہ نہیں اور 10 کا مطلب زمین پر تہذیب کے خاتمے کا امکان ہے۔ اگرچہ درجہ 3 کوئی معمولی بات نہیں، لیکن یہ بھی وہ سطح نہیں، جہاں دنیا کو گھبرا جانا چاہیے۔

تصادم کی شدت کا دار و مدار صرف شہابیے کے حجم پر نہیں بلکہ اس کے مواد کی ساخت پر بھی ہوگا۔ موازنہ کیا جائے تو ڈائنوسارز کے خاتمے کا سبب بننے والے شہابیے کا قطر 10 سے 15 کلومیٹر تھا۔

اس ضمن میں ایک اہم سوال، جو کسی عام آدمی کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، یہ ہے کہ اگر کوئی سیارچہ واقعی زمین سے ٹکرانے لگے تو کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فی الحال، انسانیت کے پاس ایسے ممکنہ خطرناک سیارچوں سے نمٹنے کے چند منصوبے ضرور موجود ہیں، جن میں:

ایک خلائی جہاز کو سیارچے سے ٹکرا کر اس کا راستہ بدلنے کی کوشش

ایٹمی دھماکوں کے ذریعے سیارچے کو ہٹانے کا منصوبہ

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا واقعی ایسے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ نہیں! اگرچہ نظریاتی منصوبے موجود ہیں، مگر عملی طور پر ہم ابھی تک کسی بڑے سیارچے کے حملے کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

خلا کے کھیل اور انسانی بے بسی

2032 میں زمین کسی قیامت خیز ٹکراؤ سے بچے گی یا نہیں؟ شاید چند ماہ میں اس کا واضح جواب مل جائے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ ہم خلا میں بے شمار بے ہنگم بھٹکتی چٹانوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ اگرچہ سائنسی ترقی نے ہمیں کہکشاؤں کی وسعتوں تک پہنچنے کی صلاحیت دے دی ہے، مگر ہم ابھی تک اس قابل نہیں ہوئے کہ کسی مہلک سیارچے کو زمین سے ٹکرانے سے یقینی طور پر روک سکیں۔

یہ خلائی چٹانیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ کائنات کے پُراسرار نظام میں ہماری حیثیت محض ایک چھوٹے سے نکتے کی سی ہے، ایک ایسا نکتہ جو خود کو کائنات کا حاکم سمجھتا ہے، مگر ایک بھٹکتے ہوئے پتھر کی ضرب سے مٹی میں مل سکتا ہے۔ زمین پر ہم جنگیں لڑ رہے ہیں، سرحدیں کھینچ رہے ہیں، اور خود کو سب سے برتر سمجھ رہے ہیں، لیکن کہیں اوپر، خلا کی گمنام گہرائیوں میں، ایک بے جان چٹان کسی خاموش فیصلے کی مانند ہماری طرف بڑھ رہی ہے۔

اگر 2024 وائی آر واقعی زمین سے ٹکرا جائے، تو کیا ہم اپنی بے بسی پر حیران ہوں گے یا اپنی نادانی پر ہنسیں گے؟ کیا ہم اس لمحے میں سوچیں گے کہ ہم نے اپنی تمام تر ذہانت اور ٹیکنالوجی کے باوجود قدرت کے سامنے کتنے معمولی ثابت ہوئے؟ یا پھر، یہ محض ایک اور فلکیاتی الارم ہوگا، جو آنے والے وقتوں میں مزید سوالات اور مزید خوف کی لہر دوڑانے کے بعد خاموشی سے گزر جائے گا؟

یہ فیصلہ وقت کرے گا، مگر ایک بات طے ہے: انسانی تہذیب، جتنی بھی ترقی کر لے، آخرکار خلا کے عظیم کھیل کا محض ایک تماشائی ہی رہے گی اور کبھی کبھی، شاید ایک مہرہ بھی!

خلا میں تیرتی چٹانوں کا یہ کھیل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم زمین پر خواہ کتنے ہی طاقتور بن جائیں، کائنات کے سامنے محض ایک نکتہ ہیں۔۔ ایک بے بس، خاموش اور منتظر نکتہ!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close