ان تصاویر کی تلخیوں اور بربریت پر آنسو بہانے سے پہلے کچھ باتیں دور عقل و فہم اور سبز و براہمن ملیر کی کرتے ہیں۔
بٹوارے کے بعد سے ہی پاکستان کو معاشیات کی اصطلاح میں کھچڑی نظام کہا جاتا ہے۔ یہاں معاشی نظام کی از سر نو تعمیر کے لئے بہت سارے تجربے کئے گئے، کئے جا رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ہمیں ان کی گہرائی میں جانے سے کوئی مطلب نہیں ہے۔
ہمارے لئے معاشیات کی سادہ تعریف یہی ہے کہ تنخواہ کتنی ہے، آمدنی اور سیونگ کتنی؟ مگر اتنی معلومات ضرور ہے کہ سرحد بندی کے وقت سے یہاں لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت تھی اور سکہ رائج الوقت سبزیاں اور فروٹ تھے۔
گمان غالب ہے کہ یہ نظام 1980 تک چلا۔ اس وقت تک وادی ملیر سے فلسفہ، نفسیات اور جمالیات کی بو آتی تھی۔ ہریالی تھی، سادگی تھا۔ خلوص، جذبہ خدمت اور ننگی اپنائیت تھی۔ لوگ بڑا گوشت تک نہیں کھاتے تھے۔ تازگی اور ترنگ ملیر میں نشو و نما پاتے تھے۔ وادی ملیر کے موسم داخلی ہوتے تھے اور ملیر اپنا موسم خود پیدا کرتا تھا۔ ملیر کے جزواعظم بارش، میٹھا پانی، ندیاں، سبزی اور فروٹ ہوتے تھے۔ برسات میں اگنے والی کھنبیاں ملیر کی پہچان رہی ہیں۔ نقاد، ادب دان اور تخلیق کار سرشاری کی کیفیت میں کھو جانے کے لئے ملیر آتے تھے۔ وادی ملیر کی حسین اور دلفریب ماحول میں وہ الفاظ سے بھیگ جاتے اور لت پت ہو جاتے تھے۔ ذہنی سکون کے دھماکے طوفان کی طرح جھنجھوڑتے تھے اور مدہم لہریں ادب کی آخری حدوں تک بہا کر لی جاتی تھیں۔ شعروں کو کومل کومل سر ملیر میں ملتے تھے۔ بلا کی خاموشی ہوتی تھی۔
انقلابی دوستوں کی الہامی کیفیت کا محور بھی ملیر ہی تھا۔ وہ زیر لب گفتگو کرنے وادی ملیر کا رخ کرتے تھے۔ صبح کا سماں گویا نقاب تلے سے دلہن کا نکلنا، اور سورج کی پہلی کرنوں کو سات پردوں میں ملفوف کرنے کا دل کرتا تھا۔ موسم غضب کا ہوتا تھا۔ سردی، گرمی، خزاں اور بہار یکساں فیصد کے ساتھ مقررہ وقت پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ بہار اور خزاں کا رنگ مالٹے میں مٹھاس اور کٹھاس کی طرح ملے جلے ہوتے تھے۔ ملیر کا اوڑھنا بچھونا زراعت تھا، اور دیوانگی میں جوانی بھی ملیر کو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکی۔ زراعت سے علیحدگی ملیر کے لئے سوہان روح تھی۔
اور اب آتے ہیں تصویروں پر… پھر یہاں زراعت کا بلات کار شروع ہوا اور ملیر کی رکھشا کرنے سامراجی طاقتیں پہنچ گئیں ۔ بلند و بالا عمارتیں ہریالی کی جگہ لینے لگی۔ ہاؤسنگ پروجیکٹس اور کارخانوں کی لاسمتی ہواؤں نے ملیر کو زچ کرنا شروع کردیا۔ عمر بھر زراعت کی وہ منزل جس سے ملیر چمٹا رہا ہے، نظر سے اوجھل ہوتی گئی۔ مطلع غبار آلود اور ملیر کے پھول انگاروں میں بدل گئے۔ بے آب و گیاں زمینوں پر دھول اڑنے لگی۔ سیمنٹ کی بو اور کارخانوں کے عذاب نے ملیر کی نسائی جسم کو زہر آلود کردیا۔ اور یہ خشک زہر جسم کے انگ انگ میں پھیل گیا۔
پڑھا ہے کہ بڑھاپے میں انسان لالچی ہو جاتا ہے مگر ملیر تو دیالو بن گیا اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ براہمن سے شودر بن گیا۔ ملیر لادین ہو گیا ہے۔ ماتھے پر سجدوں کے نشانات کے ساتھ سیندور کے قشقے بھی لگے ہوئے ہیں۔
پیسے اور شہرت کی عشق کا جذبہ انسان کو خود سے بھی بیگانہ کردیتا ہے۔ ملیر والوں اور باہر والوں نے ملیر والوں کے ساتھ مل کر ملیر کی پروں سے اڑان ختم کردی ہے۔ اب ملیر اڑتا گرتا چوٹ کھا کر تڑپتا ہے۔ ملیر کا جسم چیونٹیوں کے گھروندے کی طرح عالم لرزش میں ہے۔ اعضاء منہ زور سو رہے ہیں۔ باہیں لٹکے جا رہی ہیں۔ ہاتھ اتنے بڑے اور ٹانگیں یہاں سے وہاں تک اور چہرہ عبرتناک۔ موسم اور ماحول اس قدر بے ھنگم نہ توازن نہ ہم آہنگی۔ سردیوں میں گرمیاں اور گرمیوں میں سردیاں۔ بارشوں نے ملیر سے منہ پھیر لیا ہے۔ سب سے بڑی تماشبین قدرت خود ہے اور وہ یہ سب دیکھ رہی ہے۔ ملیر کی محرومیوں پر کیل در کیل ٹھونکے جا رہے ہیں۔ ملیر کے لوگ بہت کچھ ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں ہیں۔ اور کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی بہت کچھ ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ملیر سے اس کی مرضی پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔ اور اب ملیر نے بھی شاید شکست سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ مگر ملیر کے دل میں چھپی ہوئی ان کہیاں اور ان جانیاں اگر ہم نہیں کہیں گے تو پھر کون کہے گا۔
______________________________________________________________________
یہ بھی پڑھئیے: