کھیرتھر نیشنل پارک ایک عالمی ورثہ اور پاکستان

آدرش

چند دن پہلے اسلام آباد ھائی کورٹ کا مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے حوالے سے دیا گیا حکم نامہ نظروں کے سامنے سے گزرا، جس میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میڈیا رپورٹس ہیں کہ نیوی اور ائیر فورس نے نیشنل پارک میں تجاوزات کی ہیں، وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے ان کے خلاف کیا ایکشن لیا، اگر نیشنل پارک میں کوئی بھی تجاوزات کرے تو اس کے کیا نتائج ہیں؟ مارگلہ ہلز نیشنل پارک تجاوزات پر آپ نے نیوی اور ائیر فورس کو نوٹس کیوں نہیں دیا، یہاں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں.

تب سے سوچ رہا ہوں کہ ہمارے قریب کھیرتھر نیشنل پارک تو عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے اور پاکستان کا دوسرا بڑا نیشنل پارک ہے. کھیرتر نیشنل پارک کو ترقی کے نام پر تباہ کیا جا رہا ہے، کیا وہ کسی قانون میں جائز ہے؟ اور کیا سندھ ھائی کورٹ سے لےکر پاکستان کی سپریم کورٹ کھیرتھر نیشنل میں ہونے والی تباہی کا نوٹس لیں گی؟

آئیئے پہلے سمجھتے ہیں کہ کھیرتر نیشنل پارک کیا ہے اور اس کی اہمیت کیوں ہے ـ جب آپ گوگل میں سرچ کرتے ہیں تو ویکیپیڈیا میں کھیرتھر نیشنل پارک کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے
"کھیرتھر نیشنل پارک صوبۂ سندھ کے دامن میں موجود پاکستان کا دوسرا نیشنل پارک ہے۔ سندھ کے شہر جامشورو سے آگے کرچات کے مقام پر واقع کھیر تھر رینج کا پہاڑی علاقہ ہے۔ اس پارک کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہے، جسے دیکھنے کے لیے دور دراز سے سیاح آتے ہیں
کھیرتھر پارک میں کرچات سینٹر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہ تراش کی وادی آج بھی انسانی تہذیب کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کوہ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تراشنے والوں کا پہاڑ۔ پہاڑ اور اس کے نواح میں 3500 قبل از مسیح کے انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ یہ آثار ایک مکمل آبادی اور تہذیب کے بھرپور شواہدات فراہم کرتے ہیں۔ کھیرتھر پارک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے خشک خطوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ علاقہ بارانی رہا ہے تاہم یہاں پر سالانہ بارش کی اوسط 6 سے 8 انچ رہی ہے۔ 1994ء سے یہ علاقہ مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہے۔ پہاڑوں پر سے گھاس پھونس، ترائی میں درختوں سے سبزہ اور موسمی ندی نالوں میں پانی خشک ہو گیا ہے اور صورت حال بدتر ہو چلی ہے۔ کھیرتھر نیشنل پارک کو عالمی حیثیت کے حامل ہونے کے علاوہ ملکی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے، سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے۔ صوبائی حکومت کے ایک اور حکم مجریہ1970ء کے مطابق پارک میں تیل و گیس کے لیے کان کنی خصوصی طور پر ممنوع ہے.

یہ رہا کھیرتھر نیشنل پارک کے بارے میں وکیپیڈیا میں لکھا گیا تعارف ـ آئیے اب جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے لوگ کھیرتھر نیشنل پارک کے بارے میں کیا جانتے ہیں. جنوری 2021 میں پاکستان کے سب سے بڑے اخبار جنگ میں مھران نامہ میں کھیرتھر نیشنل پارک بارے میں جو معلوماتی فیچر چھپا تھا، اس میں جو حقائق بیان کیئے گئے ہیں کچھ اس طرح  ہیں:
"1974ء میں قائم ہونے والا کھیرتھر نیشنل پارک ہنگول نیشنل پارک کے بعد پاکستان کا دوسرا قدرتی پارک ہے، جو 3 ہزار 87 کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ کیرتھر پہاڑی سلسلے کا پہلا حصہ 11 سو 29 مربع میل اور ان پہاڑوں کی سب سے اونچی چوٹی 8 ہزار فٹ بلند ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کے شمال میں تاریخی اور انسانی ہاتھوں کا تعمیر کردہ رنی کوٹ قلعہ بھی واقع ہے، جسے ’’دیوار سندھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ رنی کوٹ قلعہ سندھ کے قوم پرست رہنما اور سابق وزیر تعلیم جی ایم سید کے آبائی گائوں ’’سن‘‘ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پارک کی جنوبی سمت بلوچستان کا علاقہ حب، مشرق میں شکار کی رکھ، سمبگ، سورجانو، اری اور ہوگیانوں کے علاقے، جب کہ مغرب میں لسبیلہ اور خضدار کے ویران علاقے واقع ہیں۔
1997ء کے بعد کئے جانے والے سروے کے اعداد و شمار کے مطابق اس پارک میں 22 ہزار خاندانوں پر مشتمل 118 مستقل گاؤں تھے، بعد ازاں کراچی کے علاقے ملیر کے 70 ہزار گھر بھی اسی پارک کی آبادی میں شامل کردیے گئے ـ

کہا جاتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے یہ کوہستانی خطہ سمندر کے نیچے تھا، مگر پھر موسمی تغیرات کے سبب سمندر سیکڑوں کلومیٹر پیچھے ہٹ گیا تو یہ خوب صورت اور پرسکون علاقہ دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بعد ازاں اس خطے میں زندگی نمودار ہوئی اور لوگوں نے اسے رہائش کا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔ سندھ کے اس طویل پہاڑی سلسلے میں ہزاروں سال قدیم زندگی کے آثار کے علاوہ معدوم نسل کے جانوروں کے فوسلز بھی پائے جاتے ہیں.

ان بستیوں میں کوہستان کا کرچات، بچانی، بالی تھاپ، ریک اور تونگ خاصے مشہور ہیں۔ 1926ء کے میں آثار قدیمہ کے ماہر ایم، این، جے موجمدار نے کنبوہ، بدھار، بھٹ کے درمیانی علاقے (جسے گاج کابند) میں واقع ایک پہاڑی سلسلے میں ’’کوہ تراش‘‘ نامی علاقہ دریافت کیا تھا، جو موئن جو دڑو اور ہڑپا کی قدیم تہذیب سے بھی دو ہزار سال پرانا بتایا جاتا ہے۔ محققین کے مطابق ان علاقوں کے باشندوں کی قدیم نسلیں آج ملیر کراچی کے علاقے میمن گوٹھ، چوکنڈی اور منگھوپیر کے علاقوں میں آباد ہیں۔

تونگ، یہ پارک کا قدیم گاؤں ہے جس میں کولہی، شورو، گبول، جمالی، چانڈیو، ملک و دیگر برادری کے باشندے آباد ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے ـ اس گاؤں کی مجموعی آبادی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

تونگ میں چوکنڈی ترز کے مقبرے

1941ء میں ایچ ٹی لمبرگ، 1981ء کے دوران لوئس فلیم اور 1997ء میں ان کی ٹیم نے ملبورن کی ٹیم کےساتھ دورہ کیا اور انہوں نے مشترکہ طور پر تونگ میں آبادی، کھیرتھر پہاڑی سلسلے اور قدیم قبرستان پر مشتمل ایک رپورٹ مرتب کی تھی جس میں انہوں نے لکھا کہ ’’تونگ کے مکینوں کی زندگی کا انحصار بارش، گاج اور باران جیسی صاف پانی کی ندیوں پر منحصر ہے‘‘ آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق تونگ کے قریب بارش کے پانی کو زراعت و دیگر کاموں کے لئے استعمال کرنے کے لئے قدیم دور میں تعمیر کیا جانے والا ’’کبر بند‘‘ موجودہ دور میں بھی اپنی افادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس بستی کے لوگ انتہائی جفاکش ہیں۔

زراعت ان کا پسندیدہ ذریعہ معاش ہے، لیکن مویشیوں کی افزائش اور دیکھ بھال میں بھی خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں۔ مہمان نوازی ان کی سرشت میں شامل ہے۔ جب کہ پرندوں کے شکار کو معیوب سمجھتے ہیں۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں چیتے بھی موجود تھے، لیکن شکاریوں کے ہاتھوں ان کی نسل معدوم ہوتی گئی۔ پارک کا آخری چیتا 1977ء میں شکاریوں نے شکار کیا تھا۔ تونگ بستی کے گرد خاردار درختوں اور جھاڑیوں کی بھرمار ہے۔

یہاں املتاس، کیکر، قیمتی و نایاب جڑی بوٹیوں، جنگلی پودے عام ملتے ہیں۔ فاختاؤں، بلبل، عقاب سمیت 276 مختلف نسل کے پرندے بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ اس پارک میں امریکا کی ریاست ٹیکساس کی جانب سے تحفے میں دیئے گئے پہاڑی بکروں کی نسل اٹھکیلیاں کرتی دکھائی دیتی ہے۔ تونگ بستی میں واقع 59 مربع میل پر محیط شفاف پانی کی’’ تیکھوباران جھیل‘‘ کھیرتھر نیشنل پارک کا دل ہے۔ قدرتی حسن اور جنگلی حیات کے حامل اس علاقے کو اقوام متحدہ نے اسے دنیا کے قدرتی پارک کی فہرست میں شامل کرلیا”

 

تصویر : نور احمد کلمتی

یہ ہیں کھیرتھر نیشنل پارک کے متعلق مختصر حقائق اور اس کی حیثیت.. مگر اب کھیرتھر نیشنل پارک کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، وہ سچ دنیا کے نظروں کے سامنے سے اوجھل ہے!

میں ملیر گڈاپ کے یوسی کاٹھور میں رہتا ہوں، کاٹھور سے جڑا ہوا ضلع جامشورو کا دیھ مول کا علائقہ شروع ہوتا ہے، دیھ مول کا نام اس ندی کی وجہ سے پڑا ہے جو دادو اور حب کے پہاڑوں سے شروع ہو کر کراچی میں ملیر ندی کا روپ دھار لیتا ہے اور سمندر سے جا ملتا ہے،  یہیں سے کھیرتھر نیشنل کا پروٹیکٹڈ ایریا شروع ہوتا ہے، اور اس کے بعد کھیرتھر نیشنل پارک کا خوبصورت ایریا آتا ہے. چونکہ مول ندی کاٹھور کی زمینوں کو سیراب کر کے آگے بڑھتی ہے، اس لیئے اس کی اہمیت ہمارے لیئے خاص ہے ـ میں بچپن سے ہی دیھ مول میں جاتا رہتا ہوں، اسی مول پر میں نے خود بہت ساری جنگلی حیات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، جس میں ہرن سے لے کر خرگوش اور بہت سارے جاندار جو قحط کے دنوں میں پانی کے لیئے مول کے قریب پہاڑوں میں ڈیرہ ڈالتے ہیں. میں نے مول شہر سے لے کر اس سے آگے ضلع دادو اور حب بلوچستان تک کا سفر مختلف وقتوں میں کیا ہے، یہ پہاڑی علائقہ ہے کچے رستے ہیں.

مول ندی کاٹھور ، ملیر

دیھ مول کا علائقہ پاچران بھی کھیرتھر نیشنل پارک میں آتا ہے جو ایک وادی نما جگہ ہے. مول ندی کے پانی کے باعث یہاں خوبصورت پکنک پوائنٹ بھی ہے، جہاں مون سون کے بارشوں میں کاٹھور گڈاپ اور ملیر کے باسی دشوار گزار راستہ طے کر کے پکنک منانے آتے ہیں.

جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ سندھ وائلڈ لائف آرڈیننس کے تحت کھیرتھر نیشنل پارک کی حدود میں درخت کاٹنے سے لے کر شکار اور کسی بھی قسم کی کھدائی، کان کنی یا کسی بھی مقاصد کے استعمال کے لیے زمین کی صفائی یا ہمواری جیسے اقدامات پر پابندی عائد ہے ـ کچھ عرصے پہلے تک ان فیصلوں پر سختی سے عمل بھی کرایا جاتا تھا، وائیلڈ لائیف کے اہلکار ہر وقت ان علاقوں میں موجود رہتے تھے اور کوئی بھی اگر ایسا کرتا تو اسے پکڑ کر جرمانہ کر دیتے تھے. اس لیئے 2015 سے پہلے تک یہاں جو کچھ بھی تھا، وہ سب محفوظ تھا. مگر اس کے بعد شروع ہوتی ہے ترقی کے نام پر ایک ایسی تباہی، جو آگے چل کر اس پورے خطے کو تباہ و برباد کر دے گی.

2013ع کے بعد اس خطے میں دو بڑے کمرشل پراجیکٹ لانچ کیئے گئے، بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے. جس میں ملیر کی بارانی اور زرعی زمینیں متاثر ہونے تھے جس میں ملیر کے پہاڑ اور ندیوں کو تاراج ہونا تھا، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ کراچی کا یہ مضافاتی علاقہ زرعی اور ماحول کے نسبت سے کراچی کا ایکو سسٹم ہے، کراچی کو آکسیجن مہیا کرتا ہے ـ آج کورونا وبا کی طرح یہ پروجیکٹس کراچی کے ان پھیپھڑوں کو شدید طور پر متاثر کر رہے ہیں.

ان دونوں کمرشل پروجیکٹس کے لیئے نہ تو پاکستان کے مروجہ قوانین کی پاسداری کی گئی نہ ہی یہاں پہ صدیوں سے آباد مقامی لوگوں کے حقوق کا خیال رکھا گیا اور نہ ہی یہاں کے جنگلی حیات کے تحفظ کا خیال رکھا گیا. بلکہ ان سات آٹھ سالوں میں ان دونوں منصوبوں کے لیئے ہر جائز ناجائز طریقہ استعمال کر کے تعمیرات کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو تاحال جاری ہے. ان طریقوں میں زمینوں کی غیر قانونی منتقلی سے لے کر زور زبردستی زمینوں پر قبضہ کرنا شامل تھا.

یہاں پہاڑ کاٹے گئے اور ندیوں کو برباد کیا گیا، اب یہ سلسلہ ملیر سے نکل کر کھیرتھر نیشنل پارک کے پروٹیکٹڈ ایریا سے ہوتا ہوا کھیرتھر نیشنل پارک تک پہنچ چکا ہے. ایک طرف ڈی ایچ اے ان زمینوں کے سروے کر رہا ہے جو کھیرتھر نیشنل پارک کے رینج میں آتے ہیں. سنا ہے کہ ان علائقوں میں ڈی ایچ اے انڈسٹریل زون بنانے کا منصوبہ بندی کر رہا ہے اور دوسری طرف بحریہ ٹاؤن کراچی دیھ مول کے ان علاقوں میں  ریتی بجری نکالنے کے لیئے مائیننگ کر رہا ہے، جو کھیرتھر نیشنل پارک میں آتے ہیں. کریش کے پتھروں کے لیئے پہاڑوں کو کاٹا جا رہا ہے، یہ وہ علائقے ہیں جہاں جنگلی حیات موجود ہیں. جن میں جنگلی ہرن اور دوسرے جاندار شامل ہیں.

دیھ مول کی خوبصورت وادی پاچران کو مول ندی کو بھی کھود کر وہاں بڑے گڑھے بنائے جا رہے ہیں، جس سے یہاں کے مقامی لوگ اور آگے چل کر پورا ملیر قحط سے تباہ برباد ہو جائیں گے.

اسلام آباد ھائی کورٹ نے تو مارگلہ ہل نیشنل پارک کے لیئے نوٹس لے لیا، احکامات بھی جاری کر دیئے ـ مگر کھیرتھر نشنل پارک، جو عالمی ورثے میں شامل ہے، اسی کھیرتھر نیشنل پارک کو اب بلڈر مافیا اور ریتی بجری مافیا کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے. جہاں قانونی طور پر درخت کاٹنے سے لے کر مائیننگ کرنا ممنوع تھا. پہلے درخت کاٹ کر اس خطہ زمین کی قدرتی خوبصورتی ختم کر دی گئی اب بڑے بڑے مائیننگ کے لائسنس دے کر اس خطے کو تباہ برباد کیا جا رہا ہے. اب اس کے لیئے کون نوٹس لے گا؟ کیونکہ صوبائی سرکار سے لےکر قومی سرکار تک سب بلڈر مافیا کے ہاتھوں میں یرغمال ہیں!

کھیرتھر نیشنل پارک ہم سے جڑا ہوا ہے، مول ندی سے لےکر جرندو ندی، تھدو ندی، کھدیجی ندی، لنگھیجی ندی، لٹ ندی اور بہت سارے چھوٹے بڑے نالے ان میں مون سون کی بارشوں میں بہنے والا پانی ہماری زندگی کا حصہ ہیں. جو کھیرتھر نیشنل پارک کے پہاڑوں کے مرہون منت ہیں ـ پہلے ملیر اور اب کھیرتھر نیشل پارک کی تباہی یہاں پہ صدیوں سے آباد لوگوں، یہاں پہ موجود جنگلی حیات، چرند پرند اور کراچی کے ایکو سسٹم کی تباہی ہے ـ اب اس تباہی کو کون روکے گا؟ اس ریاست کے کون سے ادارے، کون سا قانون ان کو بچا سکتا ہے؟ یہ نہیں معلوم… مگر اتنا تو اندازہ ہے کہ ان میں سے کسی سے بھی خیر کی توقع نہیں… پھر بھی ہم پاکستان کی سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ اس تباہی کو روکنے کے لیئے اپنا کردار ادا کریں ـ اس کے ساتھ ہم نے اقوام متحدہ سے بھی رجوع کیا ہے کہ وہ اس عالمی ورثے اور یہاں انوائرمنٹ کی تباہی کو روکنے کے لیئے اپنا کردار ادا کرے.

ملیر میں ایک باغ کا منظر

 

یہ بھی پڑھئیے

کھیرتھر کا خوبصورت علاقہ پاچران تباہی کے دہانے پر

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close