پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے دینہ میں 18 اگست 1936 کو پیدا ہونے والے گلزار، دورِ حاضر کی شاعری اور فلمی نغمہ نگاری کا ایک نمایاں اور بڑا نام ہیں۔ اردو کی نئی نسل کو شاید ہی معلوم ہو کہ گلزار افسانہ نگار بھی ہیں۔
گلزار کی یہ کہانی "کس کی کہانی” صرف افسانہ ہی نہیں، بلکہ افسانہ کی تنقید بھی ہے. اب آپ ان کی انوکھی کہانی پڑھیے، جس کا نام ہے.. ”کِس کی کہانی“
اتنا بھاری نام ہے انّو کا!
تب پتا چلا جب اسکول کے میگزین میں اس کی کہانی چھپی۔ انل کمار چٹوپادھیائے! چھٹی جماعت!
تبھی سے افسانہ نگار بننے کا شوق تھا اسے۔ کہانیاں خوب سوجھتی تھیں۔ اور مجھے تو ہمیشہ سے یقین رہا ہے کہ شاعر یا ادیب ہونا کسی خدائی دَین کی بات ہے، ورنہ ہر کوئی شاعر نہ ہو جاتا؟ انو میں وہ بات تھی جو بڑے بڑے فنکاروں کو پیدائشی ملتی ہے۔
ہم جب گلی ڈنڈا کھیل رہے ہوتے، تب بھی انو سب سے الگ بیٹھا کاپی میں کچھ لکھ رہا ہوتا یا سوچ رہا ہوتا۔ اور مجھے ہمیشہ یہ جاننے کی بےچینی لگی رہتی کہ انو کے دماغ میں کیا چل رہا ہوگا…؟ کیسے وہ خلا میں ایک کردار پیدا کرتا ہے اور اسے سامنے پڑے کاغذ پر اتار لیتا ہے؟ پھر وہ چلنے پھرنے لگتا ہے۔ انو جہاں جی چاہتا ہے، اسے وہاں بھیج دیتا ہے۔ جو چاہے اس سے کروا لیتا ہے اور جہاں جہاں سے وہ گذرتا ہے، کہانی کا ایک پلاٹ بنتا چلا جاتا ہے۔ واہ! یہ افسانہ نگار بھی کمال ہوتے ہیں۔ جسے چاہیں مار دیں، جسے چاہیں زندگی دے دیں.. ہے نا خدائی جیسی بات!
انو ہنسا!
"یہ کالج کے زمانے کی بات ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ میرے کردار من گھڑت نہیں ہیں اور وہ میرے بس میں بھی نہیں ہیں بلکہ میں ان کے بس میں رہتا ہوں”
انو اب بات بھی رائٹرز کی طرح کرتا تھا۔ مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ اس کی کہانی جب "پرتاپ”، "ملاپ” یا "جنگ” کے سنڈے ایڈیشن میں چھپتی تو مجھے بڑا فخر محسوس ہوتا۔ میں نے اخبار ماں کو دکھایا۔
"یہ دیکھو ۔۔۔ انو کی کہانی۔ انل کمار چٹوپادھیائے اسی کا نام ہے!”
"اچھا، سنا تو”
میں نے کہانی پڑھ کے سنائی ماں کو۔ ایک غریب موچی کی کہانی تھی۔ ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
"ارے یہ تو اپنے ہی محلے کے بھیکو موچی کی کہانی ہے۔ اس کی ماں کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔”
یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا۔ لیکن میں نے فوراً انو کے الفاظ دہرا دئیے۔
"اس کی کہانیاں من گھڑت نہیں ہوتیں ماں۔ وہ کردار پیدا نہیں کرتا بلکہ اپنے ماحول سے کردار چنتا ہے۔ اس کے لیے آنکھ اور کان ہی نہیں، سوچ اور سمجھ کی کھڑکیاں بھی کھلی رکھنی پڑتی ہیں۔”
ماں بہت متاثر ہوئی۔ شاید میرے جملوں سے، جو انو کے تھے۔
گلی میں ایک بہت بڑا جامن کا پیڑ تھا۔ اسی کے نیچے بیٹھا کرتا تھا بھیکو موچی! سارے محلے کی جوتیاں اسی کے پاس آیا کرتی تھیں۔ اور انو کا تو وہ اڈا تھا۔ کپڑے چاہے کیسے بھی میلے کچیلے ہوں، "کھیڑیاں” خوب چمکا کے رکھتا تھا انو۔
بھیکو اپنے گھسیٹا کو چپل کے انگوٹھے میں ٹانکا لگانا سکھا رہا تھا۔ میں نے جب بھیکو کی کہانی اس کو سنائی تو اس کا گلا رندھ گیا۔
"ہمارے دکھ درد اب آپ لوگ ہی تو سمجھو گے بیٹا۔ اب آپ نہیں جانو گے ہماری کہانی، تو اور کون جانے گا؟”
انو کا رتبہ اس دن سے میرے لیے اور بڑھ گیا۔ وہ سچ مچ پیدائشی ادیب تھا۔
کالج ختم ہوا اور میں دلی چھوڑ کے بمبئی چلا آیا۔ میری نوکری لگ گئی تھی۔ اور انو، اپنے بڑے بھائی کی "بیٹھک” پر ان کا ہاتھ بٹانے لگا، جہاں سے وہ آیوروید اور ہومیوپیتھی کی دوائیاں دیا کرتے تھے۔ کسی سرکاری دفتر میں نوکر تھے۔ لیکن صبح و شام دو دو گھنٹے اپنی بیٹھک میں یہ دواخانہ بھی چلاتے تھے۔ انو کے لیے بہت سی نوکریوں کی سفارش کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔
میں ایک بار بہن کی شادی پر دلی گیا تو ان سے ملاقات ہوئی۔ بہت بیمار تھے۔ مجھ سے کہنے لگے: "تمہی کچھ سمجھاؤ انو کو۔ کچھ کام کاج کرے۔ یہ دنیا بھر کی کہانیاں لکھنے سے کیا ہوگا؟”
میں چپ رہا۔ وہ دیر تک سینے کا بلغم خالی کرتے رہے۔ پھر خود ہی بولے:
"وہ حرام زادی اس کا پیچھا چھوڑ دے تو اس کی مت ٹھکانے آ جائے”
میں نے انو سے پوچھا وہ حرامزادی کون ہے؟
بولا: "افسانہ نگاری! بس اسی کو گالیاں دیا کرتے ہیں بھائی صاحب، وہ سمجھتے نہیں۔ وہ جسمانی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں۔ میں سماجی اور روحانی مریضوں کا علاج کرتا ہوں۔ میں سماج کے رستے ہوئے ناسوروں پر اپنے افسانوں کے پھاہے رکھتا ہوں۔ اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے مظلوم انسانوں کے لیے چراغ جلاتا ہوں۔ انہیں اپنی ذہنی غلامی کی زنجیریں کاٹنے کے ہتھیار فراہم کرتا ہوں۔”
میرا جی چاہا تالی بجا دوں۔ وہ بہت دیر تک بولتا رہا۔ اس نے بتایا اس کی پہلی کتاب چھپنے کے لیے تیار ہے۔ ملک کے بڑے بڑے ادبی رسالوں میں اس کی کہانیاں چھپ رہی ہیں۔ اکثر تقاضے آتے ہیں رسالوں سے، لیکن وہ سب کے لیے لکھ نہیں پاتا۔ وہ ایک ناول بھی لکھ رہا ہے، لیکن "بیٹھک” سے اتنا وقت نہیں ملتا کہ وہ جلدی سے پورا کر سکے۔ بڑے بھائی بہت بیمار رہتے ہیں۔ اور ان کے دو بچے! بےچارے!! ان بچوں کو لے کر بھی وہ ایک کہانی سوچ رہا تھا۔
اس کی بات چیت میں اب بڑے بڑے مصنفوں کا ذکر آتا تھا۔ کچھ نام میں نے سنے ہوئے تھے۔ کچھ وہ بتا دیتا تھا۔ سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی کے بعد "کافکا” اور "سارتر” کا ذکر میرے لیے بالکل نیا تھا۔ کچھ باتیں میرے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ وہ کہانیوں کے پلاٹ بنایا کرتا تھا۔ اب وہ کافکا کی علامت نگاری اور سارتر کی وجودیت کی بات کر رہا تھا۔ مجھے لگا شاید کہانی کہیں پیچھے چھوٹ گئی، لیکن انل کمار چٹوپادھیائے نے مجھے سمجھایا:
"کہانی صرف پلاٹ کے واقعات کی تفصیل اور اس سے پیدا ہونے والے کرداروں کے تعلقات کا ہی نام نہیں ہے، بلکہ ذہنی حادثات کے تاثرات بھی اپنے آپ میں ایک کہانی کو جنم دیتے ہیں اور اس کے جمالیاتی تصورات کو ۔۔۔”
بات میرے اوپر سے گزر رہی تھی لیکن میں اس کے وزن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
انل ایک بار بمبئی آیا۔ کسی رائٹرز کانفرنس میں حصہ لینے۔ اس کی چاروں دستخط شدہ کتابیں میں نے الماری سے نکال کر دکھائیں… میں دوستوں کو یہ کتابیں دکھانے میں بڑا فخر محسوس کرتا تھا۔ اتنے بڑے ادیب کی کتابیں! اور اب وہ خود میرے ہاں رہ رہا تھا۔ میں نے بھائی صاحب کے دونوں بچوں والے افسانے کے بارے میں پوچھا: "وہ لکھا؟”
اس نے ایک افسوس ناک خبر دی۔ "بھائی صاحب گذر گئے اور رشتے داروں نے مل کر ان کی بیوہ پر چادر ڈال دی۔ مجھے شادی کرنی پڑی۔ میں اب ان دونوں بچوں کا باپ ہوں…”
کچھ روز رہ کر انل واپس چلا گیا۔
اب میں ان کے بارے میں اکثر اخباروں میں بھی پڑھ لیا کرتا تھا۔ جب کوئی نئی کتاب چھپتی وہ مجھے ضرور بھیج دیتا۔
برسوں بعد ایک بار پھر دلی جانا ہوا۔ میں اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا تھا۔ اس سے کہا تھا اپنے رائٹر دوست سے ضرور ملاؤں گا۔
اسی شام، جامن کے پیڑ کے نیچے، انو اپنی "کھیڑیاں” پالش کرا رہا تھا، گھسیٹا سے… اس کا اڈا اب بھی وہاں تھا۔ بات پھر چل نکلی افسانے کی!
"نئی کہانی کا سب سے بڑا مسئلہ حقیقت کا بدلتا ہوا تصور ہے۔ حقیقت صرف وہ نہیں جو دکھائی دیتی ہے، بلکہ اصل حقیقت وہ ہے جو آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ کہانی صرف ایک منطقی رشتے کا نام نہیں بلکہ اس کیفیت کا نام ہے جو کردار کے تحت الشعور میں واقع ہو رہی ہے…”
میں منہ کھولے چپ چاپ سن رہا تھا۔
انل کہہ رہا تھا:
"پچھلے پچاس برسوں میں بڑی تبدیلی آئی ہے اردو افسانے میں۔ ہماری کہانی نے ان پچاس برسوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ ہم اسے دنیا کے کسی بھی….”
گھسیٹا نے چمکتی ہوئی ‘کھیڑیاں’ آگے کرتے ہوئے کہا:
"کس کی کہانی کی بات کر رہے ہیں بھائی صاحب؟ جن کی کہانی لکھتے ہو، وہ تو وہیں کے وہیں پڑے ہیں۔ میں اپنے باپ کی جگہ بیٹھا ہوں اور آپ اپنے بھائی صاحب کی ‘بیٹھک’ چلا رہے ہیں۔ ترقی کون سی کہانی کر لی…؟”
‘کھیڑیاں’ دے کر گھسیٹا ایک چپل کے انگوٹھے کا ٹانکا لگانے میں مصروف ہو گیا…!!
نوٹ : گلزار کا یہ افسانہ ماہنامہ "انشاء” کولکتا کے شکریے کے ساتھ شایع کیا گیا، جو اس کے ”عالمی اردو افسانہ نمبر“ (اکتوبر-1992) کے شمارے سے ماخوذ ہے.
______________________
سنگت میگ کے افسانے و دیگر ادبی پارے: