نیا سرکس سج چکا ہے۔ بازی گر اپنی اپنی جگہ سنبھال چکے ہیں۔ نقرئی بھونپو رنگ ماسٹر کے ہاتھ میں ہے۔ سیاست بازوں کے قدم اور جنتا کی نظریں راجدھانی کی جانب اور منہ آسمان کی طرف۔لیجیے ایک اور جشنِ مرگِ حسرت شروع ہوا چاہتا ہے
رومن بادشاہوں نے دو ہزار برس پہلے عوام کا دل جیتنے کا ایسا راستہ دکھایا کہ ان کے بعد سے آنے والا ہر حکمران رومنوں کا احسان مند ہے۔جب جب لوگ روٹی مانگیں انھیں چاند دکھا دو ، احتساب کی خواہش کریں تو سرکسیت میں الجھا دو، دم گھٹنے کی شکایت کریں تو انھی سے چوسے خزانے کے منہ کھول دو، غربت پر دھاڑیں تو ان کا لشکر بنا کے آگے بھیج دو یا پھر عظیم الشان سطوت ناک تعمیراتی منصوبوں میں کچھ دنوں کی مزدوری پر لگا دو
عزت نفس طلب تو نادیدہ خطروں کے سائے ناک کے آگے لہرا دو۔ تب بھی نہ ڈریں تو بہلاوے کی خاطر مفت سرکس کا اعلان کردو جہاں سر اچھالے جائیں گے اور دھڑ اٹھائے جائیں گے ، جانور بھڑائے جائیں گے ۔
غلاموں کو بھوکے شیر پھاڑ کھائیں گے اور زندہ بچ جانے والوں کو زرہ بکتر میں غرق گلیڈیٹرز (سورما) پارچہ در پارچہ کاٹ ڈالیں گے۔ یوں وحشتِ عام کو کچھ عرصے کا قرار آجائے گا۔ اور بادشاہت کو بھی تھوڑی اور مہلت مل جائے گی۔پھر جو خرچہ دل لبھانے اور توجہ بٹانے پر ہوا وہ محصولات اور جرمانوں کی شکل میں انھی سے دگنا وصول ہوگا اور ان حربوں کے سبب دوبارہ بے چینی بڑھنے لگے تو ایک بار پھر پہلے سے بھی بڑے سرکس کے انعقاد کا اعلان ہو جائے گا
لوگوں کو ناخواندہ رکھنا اور اس پر فخر سکھانا بقاِ دوام کے لیے ازبس ضروری ہے۔ روزمرہ زندگی کی بیڑیوں سے باندھ کے رکھو گے، تو ان کی زندگی اسی الجھائی ہوئی رسی کی گٹھانیں کھولتے کھولتے گزر جائے گی اور پھر ان کی ایک اور نسل اسی عذاب کا جوا کندھے پر رکھنے کے لیے تیار ہو چکی ہو گی۔وہ نسل جسے تعبیر نہیں خواب چاہئیں، ایسی نسل جسے منزل نہیں رہنما چاہیے، ایسی نسل جسے گڑ نہیں گڑ جیسی بات چاہیے۔ جسے حل سے زیادہ دلاسہ چاہیے۔جسے مداوا نہیں مداوے سی مسکراہٹ چاہیے
اور جو چند سرپھرے ان مورکھوں کو پردے کے پیچھے ہونے والی سازشوں کے محرکین دکھانے کی کوشش کریں ان پر راز فاش کرنے کی کوشش پر دھرتی و دین و سماج دشمنی کا فتویٰ لگا کر اسی مجمع کے ہاتھوں مروا ڈالو۔یوں مزید کچھ عرصے چین کی بنسی بجاؤ ، اور سرکس لگاؤ ، اور باغ دکھاؤ…
رومن غریب کرتے بھی تو کیا کرتے۔ انہیں سرکشی کے قلع قمع کے لیے اتنا زیادہ سرکسی کشٹ یوں اٹھانا پڑا کہ تب نہ میڈیا تھا نہ سوشل میڈیا۔ ورنہ لوگوں کو سراب دکھانے اور بے وقوف بنانے کے لیے سلطنت رومتہ الکبری کو اتنا صرفہ کیوں کرنا پڑتا۔لوگ اپنے خرچے پر ہی دھوکا کھانے کے لیے بیتاب رہتے
بھاڑ میں گئی بے روزگاری ، خودکشیاں، انتہا پسندی، جہالت ، دہشت گردی ، کرپشن ، اقربا پروری ، فاقہ مستی۔ ہمیں تو سرکس چاہیے، سچ کی پوشاک میں لپٹا سفید جھوٹ چاہیے، دو گھڑی تھرک کر ہلکا ہونے کا بہانہ چاہیے، ہمیں تو قانون کے قالب میں منظم لاقانونیت چاہیے، ہمیں نظام نہیں بدلنا بلکہ ایک اور آس ، ایک اور وعدے، ایک اور خواب کے عوض انانیت بیچنا ہے
ہمیں رائے شماری سے زیادہ رائے جمع کرنے والی پیٹی بھرنا ہے، ہمیں نئے چہرے نہیں تازہ مکھوٹے پسند ہیں۔ ماضی ہمیں یاد نہیں ، مستقبل ہم نے دیکھا نہیں۔ ہمارے اور ہماری نسلوں کے لیے بس ایک ہی زمانہ ہے اور وہ ہے حال۔حال فی الحال کسی طرح سے گزر جائے۔ کل کس نے دیکھا تھا، کل کس نے دیکھا ہے..
بہت بک بک ہو گئی۔ سرکس کا وقت نکلا جاتا ہے۔ہے تو پرانا پر کچھ کرتب نئے بھی ہیں ، بازی گر وہی سہی پر لباس پہلے سے جدا ہیں، البتہ رنگ ماسٹر وہی کا وہی۔یعنی پچھلے رنگ ماسٹر کے وارث کے وارث کے وارث کا جانشیں۔ عظیم الشان سرکس کے صدر دروازے سے متصل پھٹوں پر رقص کے نام پر خواجہ سراؤں کی دھماچوکڑی اسی طرح جاری ہے اور خلقت بھی ہمیشہ کی طرح سرخوش و سرمست نیند میں جاگ رہی ہے
مجال کس کی کہ جنبش کرے رضا کے بغیر،
جو رقص میں ہے اجازت کے ساتھ رقص میں ہے!
(افتخار عارف)
بشکریہ : ایکسپریس نیوز