وزیراعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک گزشتہ چند ہفتوں سے قومی اسمبلی میں موجود ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دیکھا جائے تو وہ حکومت سے چمٹے رہنے کے لیے کوئی اقدام کرسکتی ہے
ڈپٹی اسپیکر نے گزشتہ ہفتے وزیراعظم کی رضامندی سے غیرآئینی اقدام کرتے ہوئے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا تھا اور اس کا جواز یہ بنایا گیا کہ حکومت گرانے کے لیے بیرون ملک سے سازش کی گئی ہے اور اپوزیشن اس سازش کا حصہ ہے
دوسری جانب سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈپٹی اسپیکر کے اقدام کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا اور وزیراعظم کی تجویز پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری کو بھی غیرآئینی قرار دیا
سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتے صبح 10 بجے شروع ہوا جہاں دن بھر تقاریر ہوتی رہیں لیکن تاحال تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہوسکی
سپریم کورٹ نے واضح کیا تھا کہ اسی سیشن کے دوران عدم اعتماد پر ووٹنگ کی جائے اور تحریک کی کامیابی کی صورت میں نئے وزیراعظم کا انتخاب اسی سیشن میں کیا جائے اور ناکامی کی صورت میں موجودہ وزیراعظم اور کابینہ کام جاری رکھے
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، بلاول بھٹو زرداری، اسد عمر اور دیگر اراکین اسمبلی نے اظہار خیال کیا
اسپیکر نے عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں کروائی تاہم اسپیکر نے 4 مرتبہ اجلاس میں وقفہ لیا اور کہتے رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اجلاس من و عن جاری رہے گا
اگر اسپیکر قومی اسمبلی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کراتے ہیں ان کے ساتھ قانون کے مطابق کیا کارروائی ہوسکتی ہے
وکیل عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر کو حکم دیا ہے کہ قومی اسمبلی کا سیشن آج بلایا جائے اور 3 اپریل کے اجلاس کے مطابق کارروائی جاری رکھیں اور آرٹیکل 95 کےساتھ قواعد 37 کے ضوابط پورے کیے جائیں
انہوں نے کہا کہ آئین کی مذکورہ دونوں شقوں کے تحت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ مخصوص ٹائم فریم کے اندر کی جائے جبکہ اسپیکر اس کی خلاف ورزی کر چکے ہیں
اسپیکر اب سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور چیئرمین آف پینل کا تعاون بھی حاصل ہے۔
اسپیکر اور ان کے معاونین جو اسمبلی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں وہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی کر تے ہوئے پوائنٹ آف آرڈر پر تقاریر کی اجازت دے رہے ہیں اور اگر وہ اس کو دن ختم ہونے تک جاری رکھتے ہیں تو وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوجائیں گے
اس صورت میں سپریم کورٹ سے بھی نوٹس آسکتا ہے کیونکہ یہ معاملہ از خود نوٹس کے تحت ہے یا دوسری صورت میں اپوزیشن توہین عدالت کا الزام عائد کرتے ہوئے عدالت میں درخوست دائر کرسکتی ہے۔
پی ٹی آئی کے اپنے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت عدالت یہ ہدایت نہیں کرسکتی ہے کہ ایوان کی کارروائی کیسے چلائی، اس آرٹیکل کے تحت افسران اور اراکین پارلیمنٹ کو ایوان میں کارروائی جاری رکھنے کے لیےعدالتی کارروائی سے استثنیٰ حاصل ہے
تاہم اگر وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے آئینی ضروریات پوری نہیں کرپاتے ہیں تو یہ پروسیجر کی غلطی نہیں ہوگی بلکہ آئینی خلاف ورزی ہوگی، یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے اور آئینی کے تحت اسپیکر اور ان کےمعاونین آئین کی خلاف ورزی اور عدالت کے احکامات کی توہین کر رہے ہیں
وکیل صلاح الدین احمد نے ٹوئٹ میں بتایا کہ ‘اگر اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر تحریک عدم اعتماد پرعمل درآمد سے انکار جاری رکھتے ہیں اور رول 13 کے تحت سپریم کورٹ ان کو اجلاس کی صدارت سے روکا سکتا ہے اور پینل آف چیئرمین میں سے کوئی کارروائی چلانے کو تیار ہوگا’
انہوں نے کہا کہ اگر ان میں سے کوئی تیار نہیں ہوا تو پھر اسمبلی اکثریت سے کسی کو نامزد کردے گی، احکامات پر عمل درآمد اسمبلی کے سارجنٹ آف آرمز کے ذریعے عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا اور انہیں پاکستان رینجرز یا کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے درکار تعاون بھی طلب کرسکتے ہیں
سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ ‘سپریم کورٹ قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو اجلاس کی صدارت کا حکم دے سکتا ہے’